ColumnKashif Bashir Khan

پھر راج کرے گی خلق خدا! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

1988 میں جنرل ضیاالحق کا طیارہ حادثے میں انتقال ہوا اور سپریم کورٹ سے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے کا فیصلہ آیا تو محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان میں گیارہ سال کی آمریت کے بعد امید و روشنی کی ایک لہر کی طرح سامنے آئی تھیں اور عوام دیوانہ وار ان کو کامیاب کروانے کیلئے ان کی انتخابی مہم میں شریک ہو رہے تھے۔یہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا اور مجھے آج بھی یاد ہے کہ لاہور کے شالامار چوک میں بیگم نصرت بھٹو نے ایک جلسہ کیا اور اس میں انہوں نے مرحوم جنرل ضیاالحق کے خلاف جیالوں کو نعرے بازی سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری فیملی کو بھٹو کا چہرہ نہیں دیکھنے دیا گیا تھا لیکن جنرل ضیاالحق کا جہاز ہوا میں پھٹ گیا۔دوسری جانب محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاالحق کی وفات پر جو بیان دیا تھا وہ بھی سیاسی بلوغت و اخلاقیات سے بھرپور تھا۔انہوں نے اپنے والد کے قاتل اور ان کے ساتھیوں کے بارے کہا تھا کہ ’’اتنی زیادہ انسانی جانوں کی ہلاکت پر افسوس ہے‘‘ کوشش اس وقت بھی یہی تھی کہ پیپلز پارٹی کی بے انتہا مقبولیت کے پیش نظر انتخابات نہ کروائے جائیں لیکن عوامی ردعمل اورجنرل ضیاالحق سمیت فوجی جرنیلوں کی بڑی تعداد کے طیارے حادثے میں ہلاکت کے بعد حالات بے قابو بھی ہو سکتے تھے اس لیے عدلیہ نے عام انتخابات کروانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ایسے فیصلے دینا شروع کر دیئے تھے جو ملک کو انتخابات کے جانب لے گئے اور پاکستان ہمیشہ کی طرح پھر سے ارتقائی عمل کی جانب گامزن ہو گیا تھالیکن 1988 کے جماعتی انتخابات سے قبل پاکستان کی سیاست میں خفیہ ہاتھوں نے محترمہ بینظیر بھٹو یعنی ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے خلاف ایک ایسا اتحاد قائم کیا جسے اس وقت کے طاقتور حلقوں کی آشیر باد اور بھرپور حمایت حاصل تھی اور ایئر مارشل اصغر خان، محمد خان جونیجو و شاہ احمد نورانی جیسے عوامی رہنماؤں کو دھوکہ دے کر لاہور کے ایک ایسے بابو کو آگے لایا گیا جو ان کی سب باتیں کسی سوال کے بغیر مان سکتا تھا۔
میری مراد میاں نواز شریف سے ہے جو دو سال قبل(1986)لاہور میں بینظیر بھٹو کے فقیدالمثال استقبال کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے باوجود جہانگیر بدر کی منتیں کرتا تھا کہ اسے پیپلز پارٹی میں شامل کروا دیا جائے۔اسلامی جمہوری اتحاد میں پھر محمد خان جونیجو اور حامد ناصر چٹھہ صاحب بھی شامل ہو گئے تھے جبکہ جنرل ضیاالحق کی بی ٹیم
یعنی جماعت اسلامی تو پہلے ہی اس غیر فطری اتحاد کا حصہ تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی عوام میں پزیرائی غیر معمولی تھی اور پھر انہوں نے طویل عرصہ جابر آمر کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا اور جب انہوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تو لاکھوں کا ہجوم ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ایسے میں لاہور میں ایک واقعہ ہوا جس نے اس وقت کے طاقتور حلقوں کو کچھ اور سوچنے پر مجبور کردیا۔لاہور کا قومی اسمبلی کا اس وقت کے حلقہ 94 سے 1985 میں خان اقبال احمد خان قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر وفاقی وزیر قانون بنے تھے اور بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم بھی غیر جماعتی اسمبلی میں انہوں نے ہی پیش کر کے نو زائیدہ اسمبلی سے منظور کروائی تھی۔خان اقبال احمد خان جونیجو حکومت کے آخری سال سے زیادہ عرصہ میں وفاقی وزیر بے محکمہ بھی رہے تھے اور ان کی آمر کو بے پناہ طاقت فراہم کرنے کے عوض بطور انعام پاکستان مسلم لیگ کا سیکرٹری جنرل بھی بنا دیا گیا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ لاہور کے علاقہ انگوری باغ میں اقبال احمد خان کا انتخابی جلسہ منعقد کیا گیا اور جلسہ شروع ہوتے ہی عوام نے ان پر جوتوں اور ٹماٹروں وغیرہ کی بارش کر دی اور مائیک پر اعلان ہونے لگے کہ یہ شخص آج تین سال بعد پھر علاقے کے لوگوں کو بیوقوف بنانے ا ٓگیا ہے جبکہ اس نے وزارت کیلئے جنرل ضیاالحق جیسے امر کے ہاتھ مضبوط کئے لیکن عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔میں اس وقت طالب علم تھا اور یہ سب
میری آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ اپنے ہی علاقے میں ایک سابق وزیر قانون کا جوتیاں اور گندے ٹماٹروں سے استقبال ہوا تھا۔عوام کے اس روپ کو دیکھ کر طاقتور حلقوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے پلان بی ترتیب دیا جوعوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کا تھا۔صدر غلام اسحاق خان، الیکشن کمیشن اور طاقتور حلقوں نے مل کر بینظیر بھٹو کی فتح کو 93 سیٹوں تک محدود کر دیا اور جو حکومت انہیں دی گئی وہ لنگڑی لولی تھے جسے 18 ماہ بعد ختم کردیا گیا تھا۔خان اقبال احمد خان کا واقعہ آج اس لیے یاد آ گیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال بھی ایسی ہی ہے اور تمام اپوزیشن جماعتیں اور طاقتور حلقے مل کر عمران خان کی مقبولیت سے نہ صرف خائف ہیں بلکہ انہیں انتخابی عمل میں ہرانے کی اب تک کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں جس کے بعد فواد چودھری اور شیخ رشید سمیت دوسرے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور ریاستی جبر کا سلسلہ اب تک جاری ہے لیکن یہ حربہ بھی اب تک ناکام ہی نظر آرہا ہے۔1988 میں جب انتخابات ہوئے تھے تو میاں نواز شریف نگران وزیر اعلیٰ بھی تھے اور انتخابات میں حصہ بھی لے رہے تھے۔
مرکزی حکومت ڈی جی اینٹی کرپشن سمیت تمام اداروں کی سربراہی ان لوگوں کو دے رہی ہے جو ان کے منظور نظر ہیں۔نگران وزیر اعلیٰ محدود اختیارات کا حامل ہوتا ہے لیکن پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ اس وقت ایک لاکھ اساتذہ کی بھرتیوں کی اجازت بھی مانگ رہا ہے۔لگتا ایسا ہے کہ پنجاب میں نون لیگ کی اپنی ہی حکومت ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبائی انتخابات کی تاریخ نہ دینے پر جہاں دونوں گورنرز آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں وہاں چیف الیکشن کمشنرجو اپنی غیر جانبداری بہت بری طرح سے کھو چکے ہیں کہ ان کے تحریک انصاف کے خلاف دیئے گئے قریباً تمام ہی فیصلے عدالتوں نے اٹھا کر باہر پھینک دیئے ہیں، کو کٹہرے میں کھڑا کرنا آئین پاکستان کی سربلندی کیلئے لازم ہے۔بات سابق وفاقی وزیر قانون خان اقبال احمد خان کو گندے ٹماٹر اور جوتے پڑنے سے شروع ہوئی تھی تو قارئین نے جولائی سے لیکر آپ تک کے تمام ضمنی انتخابات میں نتائج دیکھ ہی لیے ہیں کہ حکومتی وسائل طاقت اور خفیہ ہاتھوں کی مدد کے باوجود بد ترین شکست تمام اتحادی جماعتوں کا مقدر ٹھہری۔کراچی میں سابق وفاقی وزیر نبیل گبول کی عوام کے ہاتھوں جو درگت بنی وہ نون لیگ سمیت تمام استعماری ایجنٹ اتحادی جماعتوں کو عوام سے بے وفائی اور غربت میں مبتلا کرنے کے تناظر میں انتخابی میدانوں سے راہ فرار پر اکسا رہی ہے۔ پاکستان پر مسلط حکمران اتحاد یا ٹولے کے پاس لاہور ہائیکورٹ کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے حکم کے بعد اب صوبائی الیکشن روکنے کا کوئی جواز نہیں اور اگر اب بھی معاشی ایمرجنسی کا ڈرامہ لگا کر اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کر کے آئین پاکستان سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر راج کرے گی خلق خدا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button