Editorial

170 ارب روپے کا منی بجٹ

 

وفاقی وزیرخزانہ سینیٹرمحمداسحاق ڈارنے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ اِس کا بوجھ براہ راست عام آدمی پر نہ ڈالنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی حکومت ان اقدامات کے لیے منی بجٹ لائے گی اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے دورہ پاکستان کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق مستقل ریونیو کے حصول کے اقدامات، نان ٹارگٹڈ سبسڈی میں کمی، غریب ترین طبقے کے سماجی تحفظ بڑھانے اور سیلاب متاثرین کی مدد کرنے،گردشی قرض میں کمی کرکے توانائی کے شعبے میں عملداری یقینی بنانے اور پاکستانی حکام سے توانائی کی فراہمی بہترکرنے پربات ہوئی ہے اورپالیسیوں پر عملدر آمد کے لیے ورچوئل مذاکرات جاری رہیں گے جن میں170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کے اقدامات کے لیے منی بجٹ،فلڈ لیوی کا نفاذ، بینکنگ سیکٹر پر ونڈ فال منافع ٹیکس اور جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافہ یعنی 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر نا شامل ہیںاور اگلے بجٹ سے قبل بقیہ ساڑھے چار ماہ کی مدت میں 170 ارب روپے کااضافی ٹیکس ریونیو حاصل کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس لانا زیر غور ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق جی ایس ٹی لگانے کے دیگر اقدامات میں سگریٹ، مشروبات، رئیل اسٹیٹ کے لین دین اور وسیع و عریض گاڑیوں وغیرہ پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ شامل ہے۔ آئی ایم ایف نے بجلی کے نرخوں میں 8 سے 11 روپے فی یونٹ کی حد میں اضافہ، زیرو ریٹنگ انڈسٹریز کے تحت غیر ہدف شدہ سبسڈیز کو ہٹانے، کسان پیکیج کو ختم کرنے، گیس کے نرخوں میں اوسطاً 25سے 30 فیصد تک اضافہ کرنے اور 12 سے 13 ارب ڈالر کی حد میں ڈالرز کی آمد پیدا کرنے کے لیے نظرثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان کو نافذ کرنے کا بھی کہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے منی بجٹ لانے کا اعلان کیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے وفد نے بھی اپنا اعلامیہ جاری کردیا ہے جس میں بلاشبہ پاکستان کو مضبوط معیشت کے لیے آمدن کے مستقل اور پائیدار اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے اور دراصل اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے دس روز وفد کے سامنے جتنی بھی اصلاحات پیش کی ہیں وفد اُن سے مطمئن نہیں اور مالیاتی ادارہ حکومت پاکستان سے ایسے اقدامات چاہتا ہے جو مستقل بنیادوں پر ہوں اور اُن سے حکومت کی آمدن میں تواترکے ساتھ اضافہ ہوتا رہے۔ ایک طرف ادارہ کہتا ہے کہ غریب ترین طبقے کا سماجی تحفظ بڑھایا جائے تو دوسری طرف بجلی اور گیس کی قیمت بڑھانے پر بھی زور دے رہا ہے اور وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین
پر بوجھ نہیں ڈالیں گے، شاید یہ انہوں نے مالیاتی ادارے کے تقاضے پر ہی فیصلہ کیا ہے، بہرکیف سالانہ بجٹ سے قبل 170ارب روپے کا منی بجٹ آئے گا تو تمام تر دعوئوں کے باوجود اِس کا بوجھ انتہائی سرعت سے عام پاکستانیوں پر منتقل کردیاجائے گاکیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے، چند ماہ قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا جب زیادہ کمائی کرنے والوں پر اضافی ٹیکس نافذ کیا گیا انہوں نے مصنوعات کی قیمت میں اضافہ اور مقدار میں کمی کرکے بوجھ بڑی سمجھ داری سے عوام پر منتقل کردیا اور اتنا بوجھ منتقل کیا ہے جس کے نتیجے میں کم و بیش ہر چیز کی قیمت دو گنا ہوچکی ہے اور وفاقی حکومت اِس معاملے میں بالکل خاموش ہے، ہماری انتظامی کمزوریوں کا ہی نتیجہ ہے ملک بھر میں اشیائے ضروریہ اور خورونوش کی قیمتوں کا کوئی مستقل اور دیرپا تعین کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، کون سی انڈسٹری کتنی لاگت میں کیا کمارہی ہے، اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، لہٰذا عوام کا استحصال کرنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار نے منی بجٹ کا اعلان کیا ہے تو کیا اِس سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا اور عوام براہ راست متاثر نہیں ہوں گے؟ بلاشبہ یہ سب کچھ ہوگا مہنگائی بڑھے گی، ہمارے خیال میں یہ 170 ارب روپے کا منی بجٹ ابھی آئی ایم ایف کو راغب کرنے کے لیے لایا جارہا ہے، اصل اقدامات تو اِس کے بعد ہوں گے جو وہ لکھ کر دیں گے اور ہم اُن پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے، لہٰذا معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ عام پاکستانی کے لیے خاصی مشکلات کا باعث ہوں گے کیونکہ اِن تمام اقدامات کے نتیجے میں عام پاکستانی ہی متاثر ہوگا، حالانکہ ملک اور معیشت کو اِس نہج پر لانے میں اُس کا ذرہ برابر بھی کردار نہیں مگر ہر بار اسی عام پاکستانی کا معاشی اصلاحات کے نام پر’’محاصرہ‘‘ ہوتا ہے۔ عام پاکستانی جس کے لیے سفرِ زیست مشکل سے مشکل ترین ہوچکا ہے، جو دو وقت کی روٹی، صحت، تعلیم، لباس اور بنیادی ضروریات زندگی کے حصول سے بھی قاصر ہے ، یقیناً اِس پر ٹیکس اور ایسی اصلاحات تو نافذ نہیں ہوں گی اور نہ ہی ہونی چاہیے کیونکہ وہ پہلے ہی قابل رحم اور غربت کی لکیر سے نیچے جاچکا ہے، دراصل دھیان اُن کی طرف کرنے کی ضرورت ہے جن کا معیار زندگی عام پاکستانی اور ملک کے معاشی حالات سے قطعی میل نہیں کھاتا، جنہیں اپنی املاک اور دولت کا علم نہیں اور دنیا کی ہر آسائش ان سے ایک قدم کے فاصلے پر ہے، اصل میں محصولات کے لیے اِن کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے، مگر کیا کہیے اور کیا کیجئے عوام کو صبر کا پھل دینے والے خود کیک کھاتے ہیں۔ ان کا رہن سہن، ذرائع آمدن اور معاشی معاملات انہیں عام پاکستانی کے بنیادی اور حقیقی مسائل کا قطعی ادراک اور احساس نہیں ہونے دیتے ، مگر ملک و قوم کی باگ ڈور انہی کے ہاتھوں میںہوتی ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت کی کابینہ کا حجم دیکھئے اور قبل ازاقتدار کے دعوے، دونوں میں نمایاں فرق ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد حالیہ دورے پر پاکستان پہنچا تو دیکھنے والوں نے کھلے عام قرض لینے اور قرض دینے والوں کے رہن سہن اور لباس اور پروٹوکول پر کھل کر تبصرے کیے، لہٰذا کوئی بھی کوشش تب تک کارآمد نہیں ہوسکتی جب تک قیادت خود پر اُس کو طاری نہ کرے۔ ایوانوں میں منتخب نمائندوں کو لذیذ اوراعلیٰ معیار کا کھانا جس قیمت پر فراہم کیا جاتا ہے ملک کی کسی سڑک پر اتنے پیسوں میں دال اور روٹی نہیں ملتی۔ موٹر سائیکل سوار بھی اسی قیمت میں پٹرول خریدتا ہے جس قیمت پر ارب کھرب پتی قیمتی گاڑیوں میں ڈلواتے ہیں، غرضیکہ جہاں بھی سبسڈی کا معاملہ آتا ہے یہ اشرافیہ سب سے پہلے اُس میں شامل ہوتے ہیں اور جب محصولات کی باری آتی ہے تو انتہائی مہارت سے سارا بوجھ پسے ہوئے غریب عوام پر منتقل کرکے ان سے مزید قربانی مانگتے ہیں، لہٰذا گذارش کا یہی مقصد ہے کہ اصلاحات اور محصولات کے معاملے پر اِس بار اُن پر توجہ کی جائے جن پر توجہ کرتے ہوئے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے کیوں کہ ریاست خود اپنے ہی بوجھ تلے دب کر پورے نظام کی کمزوریاں عیاں کر دیتی ہے جس سے عامۃ الناس میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سوالات اٹھتے ہیں کہ ریاست عام شہری کو کتنا تحفظ دے رہی ہے اور کیا عام پاکستانی کو آئین کے مطابق وہ تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں یا صرف 75 سال سے وعدوں پر ہی ٹرخایا جارہا ہے اور جب بھی آزمائش آتی ہے وہ عوام پر منتقل کردی جاتی ہے کیوں کہ اہم مواقعوں پر غیر مربوط فیصلے اور رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمیں آئی ایم ایف کا عادی کردیاگیا ہے، چونکہ ہم معاشی طاقت بننے کا ویژن نہیں رکھتے اِس لیے ہمارے لیے آئی ایم ایف سے بار بار رجوع کرنا ہی موزوں ہے، بجلی، گیس اور توانائی کے دیگر ذرائع اتنے مہنگے ہوچکے ہیں کہ برآمدات کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں رہا، لہٰذا برآمدات نہیں ہوں گی تو باہر سے زرمبادلہ نہیں آئے گا اور ہم آئی ایم ایف کے مرہون منت رہیں گے، جن پر محصولات لاگو ہونی چاہئیں وہ خود پر لاگو نہیں ہونے دیتے کیونکہ وہ خود ہی فیصلہ ساز اور قانون ساز ہیں اور شاید وہ اسی مقصد کے لیے سیاست یا ایوان میں رونق افروز ہوتے ہیں تاکہ وہ قومی اداروں کی پہنچ سے دور رہیں پس واحد حل ہمیشہ یہی رہا ہے کہ قوم سے قربانی مانگی جائے اور ہر چیز کا بوجھ قوم پر ہی منتقل کردیاجائے ، ایسا ہوتا رہا ہے، ایسا ہوتا رہے گا تاوقتیکہ ہم ملک و قوم کے ساتھ اپنا مخلص ہونا ثابت نہیں کرتے، لوگوں کی بھوک ختم اور ضروریات پوری کرنا اور خود کو قربانی کے لیے پیش کرنا ہی ناگزیر نظر آتا ہے، عوام پائی پائی کے محتاج ہوچکے ہیں، ان پر مزیدبوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور ایسا نظام وضع کیا جائے کہ ٹیکس نیٹ کی زد میں آنے والے عوام کا استحصال نہ کریں اور عوام کا معاشی بوجھ کم اور عوام کی معاشی استطاعت بڑھانے پر بھی غور کیاجائے وگرنہ عوام میں تشویش بڑھے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button