ColumnZameer Afaqi

گورنر پنجاب سے ملاقات ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

گزشتہ دنوں ساک کے وفد نے گورنر پنجاب انجینئر بلیغ الرحمان سے ملاقات کی اس ملاقات کا احوال تحریر کرنے سے پہلے گورنر پنجاب کی شخصیت پر ایک نظرگورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نہ صرف ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں بلکہ پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں آپ بہترین اخلاق کے حامل اور ٹھہرٹھہرکر گفتگو کرتے ہیں پہلے سوچتے ہیں پھر بولتے ہیں گورنر پنجاب کا خاندان انڈیا سے سنہ 1726 میں نقل مکانی کرکے بہاولپور میں دریائے ستلج کے کنارے چھوٹی سی بستی ’جھوک جھاونڑ‘ میں آ کر مقیم ہوا تھا۔ یہ بستی بعد میں بہاولپور شہر میں تبدیل ہوئی۔
اس وقت وہ صوبہ پنجاب کے گورنر ہیں انہوں نے اس وقت گورنرپنجاب کے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالیں جب صوبہ پنجاب میں سیاسی چپقلش عروج پر تھی لیکن انہوں نے اپنا بہترین سیاسی و آئینی کردار ادا کرتے ہوئے آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاسی معاملات کو خوب نبھایا۔محمد بلیغ الرحمن 21 دسمبر 1969ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئے،ان کا خاندان بہاولپور کے متمول اور قدیم خاندانوں میں سے ایک ہے۔ ان کے والد عقیل الرحمن نے 1985ء میں سیاست کا آغاز کیا۔ بعد ازاں وہ نواز شریف کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔
1997ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف نے حاصل پور کی سیٹ پر دو بڑے سیاسی ناموں ریاض پیرزادہ اور تسنیم گردیزی کی جگہ عقیل الرحمن کو بلا مقابلہ ممبر قومی اسمبلی منتخب کروایا۔ آپ نے پرائمری تک تعلیم کانونٹ سکول بہاولپور سے حاصل کی جس کے بعد صادق پبلک سکول میں داخل ہوئے، بعد ازاں او لیول کیمبرج یونیورسٹی سے پاس کیا اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا، امریکہ کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجویشن کی۔
محمد بلیغ الرحمن کا مسلم لیگ نون سے گہرا تعلق ہے، 2008ء میں وہ این اے 185 بہاولپور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، 2008ء سے 2013ء تک شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ان کے معاون خصوصی رہے۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن دوسری بار 2013ء میں بھی نون لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے، انہوں نے پاکستان عام انتخابات، 2013ء میں پنجاب کے حلقہ این اے۔185 میں پاکستان مسلم لیگ نون سے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔سابق وزیر اعظم نوازشریف کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے وفاقی تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ رہے، نومبر 2013ء میں انہیں وزیر مملکت برائے داخلہ اور اینٹی نارکوٹکس کا اضافی چارج دیا گیا،2017ء میں نواز شریف کی کابینہ ختم ہونے کے بعد بلیغ الرحمان سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کا حصہ بنے، بلیغ الرحمان کو وفاقی وزیر تعلیم اور ٹریننگ بنایا گیا۔بلیغ الرحمن مسلم لیگ نون کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔آپ کاروباری شخصیت کے ساتھ ساتھ، درمیانے درجے کے زمیندار بھی ہیں۔ ان کا بہاولپور میں گھر بھی ہے اور اسلام آباد میں بھی لیکن زیادہ وقت بہاولپور میں گزارتے ہیں۔بلیغ الرحمن، ملنسار، شریف اور مذہب میں دلچسپی رکھنے والی شخصیت ہیں۔ حلقے اور علاقے کے لوگوں کی خوشی و غمی میں شرکت کرتے ہیں۔‘
ساوتھ ایشن کالمسٹ کونسل (ساک)کے نمائندہ وفد نے گورنر ہاوس میں ان سے ملاقات کی جو ایک گھنٹے پر محیط تھی انہوں نے معیشت سے لیکر ملکی حالات تک اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا ذکر بھی کیا اور سوالوں کے تفصیلاً جواب بھی دیئے۔گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن سے گورنر ہاوس میں(ساک) کے وفد نے ضمیر آفاقی کی قیادت میں، میاں سیف الرحمن، اشرف سہیل، حنیف انجم ،مظہر چودھری،روشن لال،خواجہ منور،شعیب مرزا،رقیہ غزل ،معارج ضمیر، فضل حسین اعوان کامران ابرار اور فیصل نے ملاقات کی ،ملاقات کے دوران ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اس موقع پر ملک کی تازہ ترین سیاسی ،سماجی اور معاشی صورت پر بات چیت ہوئی جبکہ وفد کے ارکین نے پٹرول کی شارٹیج،آٹے میں لگے لوگوں سے شناختی کارڈ کی شرط اور اور ملک کے دیوالیہ ہونے اور برسراقتدار پارٹی کی مشکلات میں اضافے پر سوال بھی کئے۔ گورنر نے بڑے تحمل کے ساتھ وفد کے سوالوں کے مفصل جواب دیئے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے لیکن یہ کبھی دیوالیہ نہیں ہو گا ہماری حکومت ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے گورنر بلیغ الرحمن نے کہا کہ ملک میں عدم استحکام اور انتشار پھیلانے والوں کو انشاء اللہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اتحادی حکومت ملکی معیشت سمیت تمام شعبوں میں بہتری لانے کیلئے بھرپور کوششیں کررہی ہے۔ پچھلی حکومت نے ریکارڈ قرضے لے کر ملک کو معاشی بحران کی طرف دھکیلا۔ سی پیک جیسے رکے ہوئے منصبوں پر کام دوبارہ شروع ہوا ہے جو ملکی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔اس موقع پر گورنرپنجاب کو ساک کی جانب سے سوینر پیش کیا گیا۔
حرف آخر: اسی گورنر ہائوس میں ان کے پیش روگورنرز سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں لیکن اس بار جو خاص تبدیلی دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ موبائل فون اور کیمرہ لے جانے کی اجازت نہ تھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے سرکاری میٹنگ ہوں اہم شخصیات سے ملاقاتیں اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے کہ موبائل وغیرہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری صحافتی برادری کو اس تبدیلی کی وجوہات پر غور کرتے ہوئے اپنے روئیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے تھی لیکن ہو اس
کے برعکس رہا ہے ۔ موقع محل دیکھے بغیر غیر مناسب سوال کرنے والے نو آموز صحافیوں نے سیزنز صحافیوں کیلئے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اب تربیت کا بھی اہتمام نہیں کیا جاتا الیکٹرونکس میڈیا کے صحافی تو کسی اخلاقیات کی پرواہ کئے بنا ایسے ایسے سوال داغتے ہیں جن سے انہیں شاید کچھ شہرت یا ریٹنگ تو مل جاتی ہے مگر صحافت کی آبرو جاتی رہتی ہے، پرنٹ میڈیا میں ابھی کئی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی اداروں، میڈیا مالکان پریس کلبوں اور دیگر صحافتی تنظیموں کو اس ضمن میں کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک نارمل حالات میں بہترین صحافت کر سکیں اگر ہم نے بحیثیت مجموعی اپنے جارحانہ روئیوں پر نظر ثانی نہ کی تو پھر یہ وقت بھی آسکتا ہے کہ بات پریس ریلیزوں اور فٹج فراہم کرنے تک پہنچ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button