Columnمحمد مبشر انوار

دبنگ شخصیت .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

رب کریم کی کائنات میں نجانے کتنی دنیائیں موجود ہیں اور ان کا نظام کیا اور کیسا ہے، صرف اللہ رب العزت کی ذات ہی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے البتہ یہ حقیقت بنی نوع انسان اور دوسری کائناتوں کے حوالے سے بھی مسلمہ ہے کہ کامل ترین شخصیت ماسوائے رب کریم کے دوسری کوئی نہیں۔ دوسری کائناتوں کے متعلق، رب کریم کا یہ ارشاد کیسے اور کس کے توسط سے پہنچا ہے،نہیں معلوم لیکن بطور مسلمان اور آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے، اللہ کریم نے سرکار دوعالم ﷺ پر قرآن نازل کر کے، سرکار دوعالم ﷺ کو کامل ترین شخصیت کہا ہے اور آپ ﷺ کو دو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، لہٰذا بطور بنی آدم یہ یقین واثق ہے کہ اس کرہ ارض پر سرکار دوعالمﷺ کے علاوہ کوئی بھی شخصیت کامل نہیں۔ دوسری طرف رب کریم نے بنی آدم کا خمیر مٹی سے اُٹھا کر، اس میں خطا کا عنصر ہویدا رکھا ہے جو بنی آدم کو کسی بھی صورت کامل نہیں بنا سکتا، لہٰذا کرہ ارض پر آدم کی اولاد ہمیشہ خطاکار رہے تاہم اس مخلوق میں خطاؤں کی مقدار حسب توفیق، کردار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ وہ اشخاص جو اللہ کے احکامات کی روشنی میں، اپنے نفس پر قابو پا لیتے ہیں، اپنی زندگیوں کو اللہ کی رضا و منشا کے تابع کر دیتے ہیں،ان سے کم خطائیں سر زد ہوتی ہیں جبکہ دوسرے اشخاص، جو احکام الٰہی کے برعکس زندگی گذارتے ہیں، مسلسل خطائیں کرتےہیں۔ بنی آدم کسی بھی طرز کی زندگی گذارے، آخر انجام اس فانی دنیا سے رخصت ہو کر ابدی زندگی کی طرف سفر کرنا ہے،ایسی زندگی کہ جس میں اپنے اعمال کی جواب دہی کے بعد، سکون دہ زندگی بات کرنا ہے یا ہمیشہ کیلئے احکامات الٰہی کی نافرمانی پر عذاب الٰہی سے گذرنا ہے۔ تاہم ایک اہم ترین حقیقت کا اظہار یہاں برمحل ہے کہ نبی اکرمﷺ ، جو دوجہانوں کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں، نے اپنی حیات طیبہ میں اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنی امت کی بخشش مانگی ہے اور رب کائنات نے اپنےمحبوب سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی امت کی بخشش فرمائے گا البتہ یہ ضرور ہے جزا و سزا کے بعد ، اپنے خصوصی رحم وکرم سے نافرمانوں کو جنت میں داخل کرے گا۔
چونکہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے اور اس عمل کا انحصار کلیتاً، نیت پر ہے کہ عمل کا نیت سے کیا گیا ہے، اسی پس منظر میں عمل کی جزا و سزا بھی متعین ہو گی۔ بالعموم یہی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے اس دنیا سے جانے کے بعد، اس کیاچھائیوں کا ذکر ہی کیا جاتا ہے جبکہ اس کے بد اعمال پر اس کا معاملہ اللہ کے حضور چھوڑ دیا جاتا ہے، البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ انفرادی حیثیت کے اعمال پر یہی رویہ بروئے کار آتا ہے لیکن اجتماعی حیثیت میں ، طریقہ کار بدل جاتا ہے اور متوفی کوتنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف و صدر جنرل پرویز مشرف 5فروری 2023 کو طویل علالت کے بعد راہی عدم ہوئے،إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ، تمام سیاسی و عسکری حلقوں کی طرف سے اظہار افسوس کیا گیا جبکہ سیاسی جماعتوں کےکارکنان کی طرف سے مختلف روئیے کا اظہار کیا گیا۔ مرحوم پرویز مشرف کی زندگی اور ان کے اعمال پر یقیناً تنقید کی جا سکتی ہےاور بطور صدر ان کے اقدامات پر تنقید ہوتی رہے گی لیکن ان کا حکومت الٹا نے کا اقدام کسی بھی حوالے قابل ستائش کبھی بھی نہیں رہا، حالات و واقعات خواہ کچھ بھی رہے، ان کے اس اقدام کی تائید کسی صورت نہیں کی جا سکتی۔ بعد ازاں زمام اقتدارسنبھال کر ان کے اقدامات، گورننس، عالمی تعلقات اور پاکستان کی سالمیت و خودمختاری و معاشی استحکام کیلئےاٹھائے گئےاقدامات اور پالیسیوں کا بلا امتیاز و بے لاگ جائزہ لیا جا سکتا ہے، اس پر تنقید کی جا سکتی ہے، جو آج بھی ہو رہی ہے اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ پرویز مشرف یا کسی بھی دوسرے حکمران کے اقدامات کو حالات و واقعات کو پس منظر کے بغیر جانچا نہیںجا سکتا، اولاً پرویز مشرف کا نواز شریف کا حکومت الٹنا، ذاتی تضحیک کے محرک کے طور پر ہی دیکھا جائے گا، دائرہ کار سےتجاوز تصور ہو گا، اس میں کوئی بھی دو رائے نہیں رکھتا اور نہ رکھی جا سکتی ہے۔ بعد ازاں امریکہ میں ہونے والے مشکوک حادثےمیں اپنایا جانے والا لائحہ عمل، امریکی عہدیداروں کے بقول بھی، ذاتی اقتدار کو دوام کی خاطر اپنایا گیا اور کئی ایک ایسی شرائط جن پر امریکی بحث و تکرار کی توقع کر رہے تھے، من و عن تسلیم کر لی گئیں، یوں نہ صرف پاکستانی مفادات کو ٹھیس پہنچائی گئی بلکہ پاکستان کو امریکی جنگ کا ایندھن بنا دیا گیا، جس کا خمیازہ ریاست پاکستان آج بھی مختلف حوالوں سے بھگت رہی ہے۔
سیاسی میدان میںپرویز مشرف کے اقدامات کا اعتراف پرویز مشرف اپنی زندگی میں کر چکے اور بارہا انہوں نے این آر او دینے کی غلطی کا اعتراف کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک آمر کسی سیاسی پارٹی یا اس کے قائدین کو سزا دینے یا این آر او دینے کا مجازبھی تھا؟ سیاسی میدان میں پاکستانیوں نے موقع ملنے پر ہمیشہ عسکری شخصیات کی حوصلہ شکنی کی ہے اور کسی بھی حیثیت میں عسکری شخصیات کی حوصلہ افزائی کا عنصر پاکستانیوں میں نظر نہیں آیا، یہی صورتحال پرویز مشرف اور ان کی سیاسی جماعت کے ساتھ بھی رہی کہ حکومت سے الگ ہو کر، پرویز مشرف کی بنائی گئی سیاسی جماعت اپنا کوئی مقام نہ بنا سکی۔معاشی میدان میں پرویز مشرف البتہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باوجود،امریکی جنگی ضروریات کے باعث، پاکستان کی معاشی صورتحال سنبھلی رہی، مہنگائی کا عفریت بوتل میں بند رہا، ڈالر کی اڑان قابو میں رہی، روزگار کے مواقع میسر رہے البتہ امن و امان کی صورتحال امریکی جنگ میں اترنے سے مخدوش ہونا شروع ہو چکی تھی۔ عالمی تعلقات کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں بالخصوص جبکہ عالم اسلام کو بالعموم اپنا محور بنا رکھا ہے جبکہ مغربی ریاستیں و دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ بنیادی اہمیت حاصل رہی اور پرویز مشرف ان تعلقات کو بہتر رکھنے میں کامیاب نظر آئے۔ روایتی حریف بھارت کے حوالے سے پرویز مشرف کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا کہ وہ بھارت کے ساتھ جنگوں میں برسر پیکار رہے لہٰذا بھارت کی عسکری خواہشات کا بخوبی ادراک رکھتے اور اس لیے کارگل کا محاذ کھولنے سے نہیں چوکے لیکن عالمی معاملات کے سامنے بے بس نظر آئے۔ دوسری رائے بہرطور مختلف ہے کہ کارگل میں پاکستانی فوج بری طرح پھنس چکی تھی اور پاکستان کی اس کارروائی سے پاکستان کو عالمی سطح پر ہزیمت و شرمندگی کاسامنا کرنا پڑا تھا، فریقین یہ دعویٰ کرتے رہے کہ اس آپریشن کی باضابطہ منظوری لی گئی جبکہ نواز شریف خود کو اس سے لا علم کہتے رہے۔
تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی کہ پرویز مشرف نے دنیا بھر میں بھارت کا ہر جگہ ڈٹ کا مقابلہ کیا خواہ وہ حکومت میں رہے یابطور سابق صدر انہیں جب بھی کسی شو میں مدعو کیا گیا، انہوں نے پاکستان کا مقدمہ بلا خوف و خطر پوری جرأت کے ساتھ لڑا۔ان کا انداز بیان عموماً بھارتی اینکرز کیلئے سوہان روح رہتا کہ وہ انہیں مدعو تو کسی اور مقصد کیلئے کرتے لیکن شو کے دوران،پرویز مشرف ان کی اچھی خاصی درگت بنا دیتے اور ان کے کسی بھی داؤ سے صاف بچ نکلتے۔ پاکستانی سیاست کی یہ بدقسمتی رہی کہ یہاں سیاسی قائدین حصول اقتدار کے مجوزہ طریقہ کار سے رجوع کر چکے ہیں اور لاشعوری طور پر مقتدرہ کے سامنےسرنگوں ہو چکے لہٰذا اقتدار کیلئے عوامی حمایت کی بجائے، مقتدرہ سے سودے بازی کرتے نظر آتے ہیں اور جہاں انہیں سیاسی میدان میں ناکامی نظر آتی ہے، باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ زرداری حکومت نے اٹھارویں ترمیم کر کے، آئین شکنی کو غداری سےتعبیر تو کر دیا لیکن شو مئی قسمت کہ آئینی شقوں کو آج بھی حکومتیں کما حقہ نافذ کرنے میں کامیاب نہیں البتہ اس شق سے اپنےتئیں آمریت کا راستہ روکنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ اس شق کے بعد سیاستدانوں کی بھرپور کوشش رہی کہ کسی طرح پرویزمشرف کو غداری کے مقدمہ میں سخت سزا دلوائی جا سکے، جو دلوائی بھی گئی لیکن اس پر عمل درآمد کروانا ہنوزسیاستدانوں کےبس میں نہیں۔ آمریت کا راستہ روکنے کا یہ طریقہ غیر فطری اس لیے نظر آتا ہے کہ اگر سیاستدان آئین پر خود عمل کرنا شروع کردیں، اپنی اخلاقی ساکھ بہتر کر لیں، تو ممکنہ طور پر کسی آمر کو کارزار سیاست میں کودنے کی ضرورت نہ پڑے۔ بہر کیف، اپنی تمام تر بشری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ 5 فروری 2023 کو پاکستان کی ایک دبنگ شخصیت راہی ملک عدم ہوئی، اللہ کریم مغفرت فرمائے آمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button