Abdul Hanan Raja.Column

سبب کچھ اور ہے، زری نہیں .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

یہ معمہ اب حل ہوتا نظر آتا ہے کہ غیر مسلم اقوام اُمت مسلمہ پر عسکری کی بجائے تہذیبی یلغار کر رہی ہیں کہ دنیا میں ہر فرد اور ہر قوم کو اپنے نظریات اور رسومات کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع الوہی نظام کے تحت ہی ملتے ہیں۔ سیاست، ریاست، معیشت ہو یا حق آزادی، طبقات ایک دوسرے سے مسابقت کیلئے نبرد آزما رہے اور یہ سلسلہ تخلیق آدم سے لیکر تا صبح قیامت رہنا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ مشرق تا مغرب پھیلی ملت اسلامیہ کا تہذیبی اقدار کی بحالی ، تسخیر کائنات اور عالمگیر غلبہ اسلام کیلئے کردار کیا ہے؟ ہم اپنے تہذیبی و ثقافتی ورثہ کی حفاظت کیوں نہ کر سکے، علم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی کی میراث غیروں کے ہاں گروی کیوں رکھ چھوڑی، امت کے تصور کو عملی جامہ کیوں نہ پہنایا جا سکا ،میری دانست میں زوال بقول اقبال
سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
کے مصداق اسباب بیرونی نہیں اندرونی ہیں، مغربی اقوام کو غالب آنے کی شاید اتنی عجلت نہ ہو جتنی ہمیں مغلوب ہونے کی رہی، اپنی اقدار، روایات اور دین چھوڑا تو آسماں نے دنیا کی قیادت کرنے والی قوم کو زمیں پہ دے مارا، صحرا نشیں اور بدو کہ جنہیں زندگی گذارنے کا قرینہ تک نہ تھا ان کی کایا پلٹی تو ایسی کہ چند سالوں میں لاکھوں مربع میل پر اسلامی پرچم پوری آب و تاب سے لہرانے لگا، مجدد عصر نے کیا خوب کہا
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں اذان سحر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذد میں
اقبال تو امت میں وہ بجلی بھرنا چاہتے ہیں کہ جس کی کڑک سے کفر لرزہ بہ اندام، انہوں نے تو پستی سے عروج کی طرف سفر کی راہ دکھائی، مگر وہ کیا کہ ایک ذہنی خلفشار ہمیں کھائے جا رہا ہے کہ ہم سائنسی ترقی میں تو پیچھے ہیں ہی، مگر فکری طور پر بھی بانجھ ہو گئے ہیں کہ ہم نظریاتی علاج مغربی مفکرین سے کرانا چاہتے ہیں اسے فکری زوال ہی کہہ سکتے ہیں کہ باوجود اس کے ہماری تاریخ مفکرین، مفسرین اور مجتہدین اور اہل علم و عمل سے بھری پڑی ہے مگر انہیں ہمارا نصاب و نظام تعلیم اور طرز معاشرت جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ایک مسلم سکالر کی بات قابل توجہ کہ خلافت راشدہ کے وقت اسلام جبکہ ملوکیت کے بعد مسلمان کمال پر تھے مگر آج تو دونوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے، دنیا بھر اور مشرق سے مغرب تک پھیلی 57 سے زائد اسلامی ریاستیں اورمسلمان استعماری طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں، علم فن، ثقافت اور تہذیب میں انکا حصہ کتنا ہے اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں،مسئلہ معاشی ہو یا اقتصادی، عسکری نوعیت کا ہو علمی و فنی ہم یورپ کے دست نگر ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ چند لاکھ کی آبادی پر مشتمل ناجائز ریاست پوری امت مسلمہ کو تگنی کا ناچ نچا رہی ہے، عالمی سیاست اور فیصلہ جات میں ہماری وہی حیثیت ہے جو اخلاقیات کی نظر میں حکمرانوں کی، اس سے بڑی ذلت کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں بے بس، مجبور اور مقہور مسلمان اپنی آزادی اور حقوق کیلئے مغرب سے آس لگائے بیٹھے ہیں، اقوام متحدہ ان مظلوموں سے اتنا ہی ہمدرد ہے جتنا پاکستانی عوام سے موجودہ حکمران، یہ جان لینا چاہیے کہ قوموں کا عروج اتفاقی ہوتا ہے اور نہ زوال حادثاتی، قدرت کے قوانین ہر جگہ کار فرماہوتے ہیں، لگن، عزم، جد و جہد، اعلیٰ اقدار اور مقصد سے پختہ وابستگی ہی کامیابی کی ضمانت اور اس میں مسلم و غیر مسلم کی تخصیص نہیں۔ معاشرے اس وقت زوال پذیر ہوتے ہیں جب وہ اپنی روایات اور اقدار سے ہٹ جائیں۔ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہر اخلاقی گراوٹ کو اپنے دامن میں پاتے ہیں۔ اخلاقیات کا معیار ہی دیکھ لیں عوام تو عوام راہنمایان قوم جس طرح کی گفتگو فرماتے ہیں مہذب اور اسلامی معاشرے میں اس کا تصور بھی محال مگر ہمارے ہاں بدزبانی مقبولیت کا زینہ، بدعنوانی اور جھوٹ ہمارے کلچر کا حصہ، سیاسی افق پر ٹمٹماتے ستاروں میں سے کس کے بارے زبان تصدیق اور دل گواہی دے سکتا ہے کہ وہ ان دو سے پاک۔بڑھتی فحاشی و عریانی نے تو ہمارے معاشرے کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور اس میں اہم کردار ہمارے میڈیا کا۔ بدقسمتی یہ کہ اس کو ترقی کا زینہ اور جدید دور کا تقاضا سمجھ کر دل وجان سے مقبول بنایا جا رہا ہے۔اچھے بھلے دین دار گھرانوں کی اولادیں اس روش پر چل نکلی ہیں اور والدین میں انہیں روکنے کی ہمت نہیں۔ تربیت کے بغیر تعلیم نے ادب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کی شرح کتنی اس کے مانپنے کے پیمانے ہی توڑ دئیے گئے۔ صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی، انصاف جو عوام کا بنیادی حق تھا پر خواص کا قبضہ جبکہ چوری، ڈکیتی، قتل، زنا بالجبر کے واقعات میں گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی گنا اضافہ مگر قانون مجرموں کے آگے بے بس ہیں، جو حالت آج پاکستانی معاشرے کی ہے اس سے ایک صدی قبل اقبال نے امت کو متبہ کر دیا تھا مگر اقبال شناسی تو مغرب شناسی کی نذر ہو گئی، جواب شکوہ میں اقبال مسلمان کو جھنجھوڑ اور خواب عفلت سے بیدار کرتے نظر آتے ہیں
غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں،
شوخ و گستاخ، یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں،امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن آٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر تو پسر آزر ہیں
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار
ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بیزار
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں
قلب سے احساس اور پیغام محمدﷺکا پاس نہ رہا تو معاشرے میں برائی کا راج اور قوم زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی مگر ہم بھی کیا سادہ ہیں کہ ان رزائل کے ساتھ ترقی، استحکام اور عزت و وقار کے زینے طے کرنا چاہتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ کے حصول کیلئے معاشی و عسکری قوت سے پہلے اخلاقی طاقت کا حصول لازم کہ اعلی اخلاقی اقدار معاشی ترقی کا زینہ اول اور پھر عسکری قوت بھی کارگر ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button