
افغان پناہ گزین اور ڈالرو ں کی سمگلنگ .. امتیاز عاصی
امتیاز عاصی
وطن عزیز سے غیر قانونی افغانوں کے انخلا ء کا مسئلہ ہمیشہ درد سر بنا رہا ہے۔افغان پناہ گزنیوں کی ہمارے ہاں آمد کے بعد کئی حکومتیں برسراقتدار آئیںکسی حکومت غیر قانونی افغانوں کی بے دخلی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کے نتیجہ میں مملکت میں کئی لاکھ غیر قانونی افغان قیام پذیر ہیں۔سرکاری اعددوشمار کے مطابق قریباً چالیس لاکھ افغان شہری پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے ہماری وزارت داخلہ اس بات سے لا علم ہے قانونی اور غیرقانونی افغان باشندے کتنی تعداد میں رہ رہے ہیں۔ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں ایک طرف ہم معاشی حالات کا رونا روتے ہیں دوسری طرف لاکھوں ڈالر افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔حکمرانوں کو اقتدار کی پڑی ہوئی ہے ۔کوئی انتخابات چاہتا ہے حکومت انتخابات سے راہ فرار کئے ہوئے ہے۔ اپیکس کمیٹی نے سانحہ پولیس لائنز کے بعد غیر قانونی افغان شہریوں کوواپس بھیجنے کا عندیہ دیاہے۔فیصلے تو ہمارے ہاںبہت سے ہوتے ہیں بات عمل درآمد کی ہے قانون پر عمل درآمد کا فقدان ہو تو ایسے قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔ اتنی بڑی تعداد میںافغان شہری پہلے سے قیام پذیر ہیں جو واپسی کا نام نہیں لے رہے ہیں بلکہ بڑے بڑے کاروبار اور جائیدادوں کے مالک بن گئے ہیںباوجود اس کے ہر روز غیر قانونی افغانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔حقیقت تو یہ ہے لاکھوں افغان چاروں صوبوں میں موجود ہیں جن کے پاس نہ تو اقوام متحدہ کے پی او آر کارڈ ہیں اور نہ ہی کوئی اور دستیاویز ہے۔
1979 میں افغانستان پر روسی جارحیت کے نتیجہ میں لاکھوں افغان پناہ گزینوںنے پاکستان اور ایران کی طرف ہجرت کی۔ایران میں افغان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اس کے برعکس ہمارا ملک ایسا ہے جہاں چند سال کیمپوں میں رہنے کے بعد افغان مہاجرین کو ادھر ادھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو بے شمار افغان مہاجرین ایسے ہیں جو وطن عزیز میں بم دھماکوں ، قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں کئی سال گذرنے کے باوجود بم دھماکوں کے مجرمان کوٹ لکھپت اور سنٹرل جیل راولپنڈی میں مقید ہیں۔ہمارا ملک عجیب صورت حال کا شکار
ہے جب کوئی افغان چاہے سرحد پار کرکے وطن عزیز میں قیام پذیر ہو جاتا ہے ۔دنیا کے کسی اور ملک میں کبھی ایسا ہوا ہے کوئی غیر ملکی بغیر ویزا کے دوسرے ملک میں داخل ہو سکے۔سرحد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کی موجودگی کے باوجود کئی عشرے گذرنے کے باوجود غیر قانونی افغانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری ہے۔وزارت داخلہ کے پاس غیر قانونی تارکین وطن کو قانون کی گرفت میں لانے کیلئے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ماسوائے اس کے کہ عشروں بعد اب خیال آیا ہے اخبارات میں اشتہار دے کر غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی طور پر یہاں قیام کیلئے وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کو کہا گیا ہے۔بھلا سوچنے کی بات ہے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں نے وزارت داخلہ سے رجوع کرنا تھا تو انہیں غیر قانونی طور پر مملکت میں داخل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔لگ بھگ تین عشرے پہلے اسی لاکھ کے قریب غیر قانونی تارکین وطن کراچی میں قیام پذیر تھے نہ جانے اب کتنے لاکھ رہ رہے ہوں گے۔ بلوچستان کے سیاسی رہنماوں کو برسراقتدار حکومت سے بڑا تنازعہ افغان مہاجرین کی بلوچستان سے واپسی کا ہوتا ہے۔
گذشتہ حکومت سے بی این پی کے اختر مینگل کا بڑا تنازعہ صوبے سے ان مہاجرین کے انخلاء کا تھا۔افغانستان میں طالبان کی حکومت ہو یا کسی اور کی ہمیں ہر صورت میں غیرقانونی افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپسی کو یقینی بنانا چاہیے۔ جہاں تک قانونی طور پر رہنے والے افغانوں کا معاملہ ہے عشرے گذرنے کے باوجودوطن واپسی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کسی ملک کے رہنے والوں کو اپنی جان کا خطرہ ہو تو وہ ہمسایہ ملک میں نقل مکانی کر سکتے ہیں ۔طالبان کی حکومت آنے کے بعد اتنی بڑی تعداد میں لوگ رہ رہے ہیں ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق نہیں ہیں جوپاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں کو ہیں؟یہ بات درست ہے کئی سو میل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود کسی نہ کسی راستے غیر قانونی افغانوں کی آمد ورفت رہتی ہے خصوصاً سردی کے موسم میں جب وہاں برفباری ہوتی ہے تو افغان پاکستان کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔سوال یہ ہے اتنی فورسز کے باوجود غیر قانونی قیام پذیر افغانوں کی پکڑ دھکڑ کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جا رہا ہے؟افغانستان ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ضرور ہے ۔آج تک ڈیورنڈ لائن کو اس نے تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ وہ تو خیبر پختونخوا تک اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔یہ کون سی ہمسایہ اور مسلمانوں والی بات ہے ڈیورنڈ لائن انگریز سرکار نے قائم کی تھی نہ کہ پاکستان نے مقرر کی ہے۔گندم اور آٹا قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں سے عشروں سے جا رہا ہے۔ا ب پاکستان نے کوئلہ وہاں سے منگوانا شروع کیا ہے چلیں یہ تو ایک دوسرے ملک آپس میں درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں لیکن کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے باشندے کو غیرقانونی طور پر اپنے ملک میں قیام کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں افغان نہ رہ رہے ہوں۔ اب تک ایکسپرس ہائی وے کے قریب گلبرگ گرین کے فلیٹوں میں ہزاروں افغان قیام پذیر ہو چکے ہیں جو یہاں سے دوسرے ملکوں میں جانے کے خواہاں ہیں۔جہاں تک افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خاتمے کی بات ہے انہوں نے مذہب کے لبادے میں دہشت گردی کو فروغ دینا ہے اس مقصد کیلئے سہولت کاروں کی پوری پشت پناہی حاصل ہونے کی وجہ سے ان کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سعودی عرب اور دیگر ملکوں میں غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کیلئے وقفے وقفے سے آپریشن جاری رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی حکمت عملی نہیں۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے بعد غیر قانونی افغانوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہے ۔دیکھتے ہیں حکومت اپنی اس حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔