ColumnM Anwar Griwal

صحرائے چولستان اورجیپ ریلی! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

چولستان زندہ صحرا ہے۔ مقامی لوگ اسے روہی کہتے ہیں۔ گرمیوں میں وہاں جائیں تو دِن کو آگ برستی ہے ، چرند پرند ہجرت کر جاتے ہیں۔ صحرا میں دور دراز محدود اور مختصر آبادیاں گرمی کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے مال مویشی کے ساتھ ہی علاقہ چھوڑ جاتی ہیں، اُن بیچاروں کے پاس اور اثاثہ ہوتا بھی کیا ہے، گھاس پھوس اور جھاڑیوں سے بنی جھونپڑی، باہر چھوٹی سی چار دیواری، اندر باہر ریت کا فرش اور چند مویشی۔ گرمی بڑھنے اور بارش نہ ہونے سے ٹوبے خشک ہو جاتے ہیں، جہاں سے انسان اور مویشی مشترکہ طور پر پانی استعمال کرتے ہیں۔گرمیاں آتی ہیں تو اپنا مختصر ترین سامان اونٹوں پر لاد کر نکل جاتے ہیں ۔ گرمیوں میں جب بارش نہیں ہوتی تو انسان، مویشی اور پرندے پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو روہیلوں کی عید ہوتی ہے ، یہ موقع اِس قدر خوشی کا ہوتا ہے کہ اس پر گیت لکھے اور گائے گئے ہیں۔ ٹوبے بھر جاتے ہیں، جڑی بوٹیاں ہری ہوجاتی ہیں۔ آگ اُگلتی ریت پر سبزہ کی لہر چھا جاتی ہے، زندگی لوٹ آتی ہے، تبھی زندہ صحرا کہلاتا ہے۔ سردیوں میں صحرا کا منظر بہت دلکش اور سہانا ہوتا ہے۔
چولستان کا پھیلائو پورے بہاول پور ڈویژن تک ہے، بہاول پور نے اُسے اپنے بازئوں میں یوں لے رکھا ہے کہ ایک بازو ضلع رحیم یار خان ہے تو دوسرا بازو ضلع بہاول نگر ۔ طویل سرحد بھارت سے ملتی ہے۔ رقبہ چھیاسٹھ لاکھ ایکڑ ہے۔ جو آبادیاں شہروں کی طرف ہیں، وہاں قبضہ مافیا نے بہت حد تک اپنے ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے، بلکہ یہ صفائی مسلسل دکھائی جارہی ہے۔ صحرا اگرچہ بہت وسیع ہے، مگر بہت آہستگی سے سُکڑتا جارہاہے۔ بہت آگے جائیں تو ریت کے بہت بڑے بڑے ٹیلوں سے واسطہ پڑتا ہے، اسے گریٹر چولستان کا نام دیا گیا ہے۔ بھارت کی سرحد کے ساتھ ساتھ یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بیسیوں کلومیٹر سفر کر جائیں آپ کو کوئی آبادی نظر نہیں آئے گی۔ مستقل آبادیاں تو بہت ہی کم ہیں۔ جانور اور اُن کا دودھ روہیلوں کا سب سے بڑا ذریعہ روز گار ہے۔ چند سالوں سے پینے کے پانی کیلئے حکومتوں نے پائپ لائن کا بندوبست کر رکھا ہے، مگر ایک مرتبہ ٹوٹ پھوٹ ہو جانے کے بعد مرمت کا سلسلہ منقطع ہی رہتا ہے۔
درجنوں قلعے اِس عظیم صحرا میں کھڑے ذرّہ ذرّہ کرکے اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ صرف قلعہ ڈیراور کی حالت کسی حد تک بہتر ہے، وہ بھی خرابی بسیار کے بعد اب مرمت وغیرہ کا عمل شروع ہوا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی ایک خوبصورت مسجد ہے، جومغل طرزِ تعمیر کی یاد دلاتی ہے۔ قلعہ کے قرب و جوار میں بازار ہوا کرتا تھا جو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مِٹ چکا ہے، قریب ہی شاہی قبرستان ہے، جس میں بہاول پور ریاست کے زمانے کے فرماں روا محوِ استراحت ہیں، ساتھ ہی اُن کی مستورات کے الگ الگ مقبرے موجود ہیں۔ دیگر قلعہ جات قریباً ختم ہو چکے ہیں، بس آثار ہی باقی ہیں۔ کسی کی چار دیواری کے آثار ہیں تو کسی کی عمارت کے کچھ کھنڈرات۔ البتہ تمام قلعہ جات کے ساتھ بڑے بڑے قبرستانوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ کبھی یہاں بڑی آبادی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تمام قلعے دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھے۔ جب دریا اپنا وجود قائم نہ رکھ سکا تو قلعے بھی نہ رہے۔
قلعہ ڈیراور کے مقام پر اٹھارہ برس قبل چولستان میں جیپ ریلی کا آغازہوا تھا۔ اب یہ ریلی ایک میگا ایونٹ بن چکا ہے۔پہلے یہ دور روز کی ہوتی تھی، اب چار پانچ دن تک پھیل گئی ہے۔ خیموں کا شہر کئی روز قبل ہی آباد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ہلّے گُلّے ، سیر وسفر اور مہم جوئی کے شوقین لوگ جمع ہوتے ہیں۔ کہانی تو اُمراء کی ہی ہے، کہ اُن کے خیمے تمام سہولتوں سے آراستہ ہوتے ہیں، ٹورازم والوں نے بھی اب اپنے قدم بڑے مضبوطی سے جما لیے ہیں۔ لاہور ، اسلام آباد سے بہت سے لوگ یہاں کامیاب کاروبار کر کے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بھی روز گار کے کافی مواقع دستیاب ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں کا کرایہ وصول کر لیتے ہیں، کچھ خیموں کا کاروبار بھی کر لیتے
ہیں، کوئی عارضی ہوٹل بنا کر بھی کچھ کمائی کر لیتے ہیں۔ چیمبر آف کامرس اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا بھی انتظامیہ اور ٹورازم والوں سے بھر پور تعاون رہتا ہے۔
قلعہ ڈیراور بہاول پور سے ایک سو کلومیٹر کی مسافت پر ہے، جبکہ احمد پور شرقیہ سے قلعہ تک جانے والی سڑک ہر سال مرمت کرنے کا ہی چلن تھا، اب ایک آدھ سال سے سڑک کو ذرا بہتر کرکے بنایا گیا ہے، مگر جس طرح ریلی کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، اس سے وہاں جانے والے راستے نامناسب ہیں، جبکہ ریلی کے موقع پر لاکھوں لوگ یہاں پہنچتے ہیں۔ چولستان کا اپنا بہت زبردست کلچر ہے، وہاں کی مصنوعات ہیں۔ ریلی کے موقع پر سرکاری سطح پر بھی اِنہی چیزوں کا ذکر کرکے لوگوں کیلئے دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر صدمہ اُس وقت پہنچتا ہے، جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کوششیں اور منصوبہ بندی صرف ریلی کیلئے ، جس میں بے حد وسائل کا استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں سرکاری سطح پر ایسے ایونٹ ہوتے ہیں وہاں مراعات اور ٹھیکیداری وغیرہ کے ضمن میں بے حد کرپشن کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔مگر یہاں کی ثقافت اور سیر و تفریح کو مستقل بنیادوں پر ترجیح نہیں دی جاتی۔
اگرچولستان کے قلعہ جات کو جانے والے راستے بہتر کردیئے جائیں، سیاحوں کیلئے سہولیات میں اضافہ کرد یا جائے، سردیوں میں چولستان کو ٹورازم کیلئے پُر کشش بنایا جاسکتا ہے۔ اِس سے جہاں مقامی لوگوں کیلئے روز گار کے مواقع بہتر ہوں گے، وہاں ٹورازم میں بھی ترقی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ یہاں کے کلچر کو فروغ مل سکے گا، یہاں کے جانور جو قدرتی اور صحرائی جڑی بوٹیاں کھانے کے بعد بہترین گوشت اور دودھ کے حامل ہیں، کی تجارت کا اہتمام کیا جاسکے گا۔ چولستان میں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کی آمدو رفت کا سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے، اگر پاکستانی حکومت ذاتی مفادات سے ذرا اوپر کا سوچ کر اُن حکمرانوں سے چولستان میں ترقی کا سوچ لیں تو بہتری کے بے شمار امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ اِن اقدامات سے ریلی کے میگا ایونٹ کو بھی چار چاند لگ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button