ColumnQaisar Abbas

نو گزلمبی قبریں .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

دنیا بھر کی طرح ملتان اور اس کے نواح میں لمبی لمبی قبریں اپنی کہانیوں سمیت موجود بھی ہیں اور آباد بھی۔ جدید تحقیقی ذرائع ہونے کے باوجود یہ قبریں ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہیں۔ ہر قبر کی ایک کہانی اپنے ساتھ متوازی رد بھی رکھتی ہے ۔ تاریخی حوالے متنازع اور داستانیں افسانوں سے ملتی جلتی ہیں ۔ ان نو گزی قبروں میں ، سب سے آباد قبر مخدوم پورپہوڑاں اور کبیروالا کے درمیان واقع، علی اصحاب کی ہے جس پر دربار تعمیر کیا گیا ہے اور ملحقہ آبادی صاحب مزار کیلئے عقیدت بھرے جذبات رکھتی ہے ۔ علی اصحاب کا عرس ہر سال بالکل اسی طرح منایا جاتا ہے جیسے سرکار شہباز قلندرؒ اور حضرت داتا گنج بخشؒ کا منایا جاتا ہے ، مگریہ عرس منانے والے عقیدت مند بھی صاحب مزار کے شجرۂ اور تاریخ سے ناواقف ہیں ۔ یہ قبر کب بنی ؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا ۔ یہی صورتحال نو ، تیرہ اور اٹھارہ گزی دوسری قبروں کی ہے ۔ ان تمام لمبی قبروں کے بھید میں یہی یکسانیت ہے کہ کوئی ان کی تاریخ یا درست خاندانی پس منظر نہیں جانتا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس کی اولاد تھے اور ان کا قد لمبا تھا یا شخصی منزلت کی وجہ سے ان کی قبریں لمبی بنائی گئیں ۔
اجتماعی تدفین کی وجہ سے لمبی قبروں کی کہانی بھی روایات میں موجود ہے ۔ علی اصحاب کے دربار سے چند کلومیٹر دور ایک اور لمبی قبر خواجہ احمد الدین المعروف ابوبکر بخاری کی ہے جس پر نصب کتبہ پر تاریخ وصال دو سو ہجری کنندہ ہے۔ کہروڑ پکا شہر میں بھی نو گزی قبر موجود ہے ۔
سیالکوٹ ، لاہور اور چنیوٹ میں موجود لمبی قبروں کی کہانی بھی ایک جیسی ہے ، کہا جاتا ہے کہ 757 ھجری میں مدینہ سے آ کر ہندو راجہ سالوان سے لڑنے والے شہید یہاں دفن ہیں۔ دمشق سے پنتالیس کلومیٹر دور حضرت ہابیل کی قبر بھی غیر معمولی لمبائی کی حامل ہے ۔ غریب وال کی سیمنٹ فیکٹری کے قریب اٹھارہ میٹر لمبی قبر تباہ حال مندر کے ملبے کے اوپر بنائی گئی ہے اور مشہور ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت ہیم کی قبر ہے ، اسی قبر کے ساتھ ایک سو میٹر لمبائی کی حامل حیران کن قبر حضرت ہیم کے بھائی کے نام سے منسوب ہے ۔
تحقیق سے ثابت ہے کہ لمبی قبروں میں دفن مرحومین طویل القامت تو نہیں تھے ۔ عجائب القصص میں معارج النبوہ سے نقل کی گئی تفسیر بحرالمواج میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جس وقت زمین پر اترے تو ان کا قد آسمان تک لمبا تھا اور چلتے ہوئے ان کے ایک قدم سے دوسرے قدم تک تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہوتا تھا ۔ پھر اللہ تعالی نے حضرت آدم کا قد میانہ کر دیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام طویل القامت ضرور تھے، لیکن ان کے بارے میں بھی کوئی روایت ایسی نہیں ملتی کہ ان کا قد غیر معمولی طویل ہو ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے داماد ہیں۔ اگر حضرت شعیب علیہ السلام کا قد واقعتاً اتنا
طویل یعنی آٹھ گز یا چوبیس فٹ تھا تو ان کی صاحبزادی کا قد اوسطاً پندرہ فٹ تو ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نبوی عظمت کا لحاظ کرتے ہوئے احتراماً ان کی قبر لمبی بنائی گئی ہے۔
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق 1955 تک سب سے دراز قد آدمی ترکی کا سلطان کوسس تھا جس کا قد آٹھ فٹ آٹھ انچ تھا ۔ اس سے زیادہ لمبا آدمی کہیں موجود نہیں رہا تو پھر لمبی قبروں کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ بات واضح ہے کہ لمبی قبروں میں نو یا تیرہ گزے آدمی دفن نہیں ہیں ۔ ملتان میں پندرہ لمبی قبروں پر مجھے جانے کا اتفاق ہوا ۔ کوئی تاریخ یا کوئی شخص ان کے خانوادے یا تاریخ وفات کی شہادت نہیں دیتی ۔ دہلی دروازے کے باہر پیر گوہر سلطان کی بارہ گزی قبر ، اندرون پاک گیٹ محلہ جال ویڑا میں شیخ موسیٰ کی نو گزی قبر ، اندرون بوہڑ گیٹ محلہ درکھاناں میں پیر اودھم کی دس گزی قبر ، بیرون بوہڑ گیٹ میں نو گز ، اندرون حسین آگاہی میں تیرہ گز ، محلہ حمام میں نو گز اور قبرستان مائی پاک دامن میں تیرہ گزی قبریں مقامی لوگوں کیلئے جائے عقیدت تو ہیں مگر کوئی ان کی وجۂ تعمیر سے واقف نہیں۔
دو جنوری 1848 میں جب ملتان کے حاکم مول راج کے خلاف انگریز فوج نے کارروائی کی تو رائیڈر نام کا وقائع نگار بھی کارروائی میں شامل تھا ۔ رائیڈر دی جنرل رپورٹ آف مائی ٹریول میں لکھتا ہے کہ جب شہر میں زندہ لوگ مار دئیے گئے تو ہم نے ان کی لاشوں کو لمبے لمبے گڑھے کھود کر دبا دیا۔
ایک اور جگہ رائیڈر لکھتا ہے کہ کسی مخبر نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو خبر دی کہ ان لمبی لمبی قبروں میں دشمنوں نے بارود دبا رکھا ہے ، محلہ آغا پورہ میں ایک قبر کو کھولا گیا تو اندر سے ہڈیوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے۔ علما کا کہنا ہے کہ تاریخ میں کئی انبیا علیہ السلام اوران کی اقوام سے متعلق لکھا ہے کہ ان کے قد بہت زیادہ طویل تھے مگر تاریخی شہادت اس کے برعکس ہے ۔جدہ میں ایک قبرستان میں نوگزکی قبریں موجود ہیں۔ تاہم ہمارے یہاں موجود قبروں سے متعلق چونکہ کوئی مستند دستاویزات میسرنہیں ہیں۔
ان لمبی قبروں کی سو فیصد درست تحقیق اس لیے بھی نہیں ہو سکتی کہ مذہبی رجحان اور قبروں سے عقیدت نتائج تک پہنچنے کے رستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button