ColumnImtiaz Aasi

نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

قوم سانحہ اے پی ایس پشاور بھلا نہ پائی تھی کہ مسلمان ہونے کے دعویٰ داروں نے اسی شہرکی پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکہ کرکے پوری قوم کو رنجیدہ کر دیا۔ کسی کو علم نہیں دھماکا کرنے والے کون لوگ اور ان کا تعلق کس جماعت سے ہے۔پہلے ٹی ٹی پی والوں نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی انہوں نے خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے بعدازاں کہا کہ مساجد میں دھماکے ان کی پالیسی نہیں ۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں سانحہ اے پی ایس پیش آیا تو دہشت گردوںکو تختہ دار پر چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا سب سے پہلے جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے ڈاکٹر عثمان نامی دہشت گرد کو سنٹرل جیل راولپنڈی سے سنٹرل جیل فیصل آباد لے جا کر پھانسی دی گئی۔ چاروں صوبوں سے گرفتار دہشت گردوں کوساہیوال میں ہائی سکیورٹی جیل رکھا جاتا ہے جن کی سکیورٹی پر جیل ملازمین کے علاوہ دیگر اداروں کے اہل کارتعینات ہیں۔ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے قریباً دو سو دہشت گرد اسی جیل میںہیں۔اسامہ بن لادن کی ا طلاع دینے والا ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے مجرم اسی جیل میں ہیں۔ہائی سکیورٹی جیل میں دہشت گردوں کی حفاظت پر مامور جیل کے عملے کو دگنی تنخواہیں ملتی ہیں سکیورٹی اداروں کے ملازمین اور دہشت گردوں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو کروڑوں روپے ماہوار خرچ ہو رہے ۔ پولیس لائنز کی مسجد کے واقعہ کی مختلف ادارے تحقیقات کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے پاک افغان سرحد پر اربوں روپے لگا کر باڑ کس مقصد کیلئے لگائی گئی ہے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹوںکی موجودگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروںکے اہل کار متعین ہونے کے باوجود سرحد پار سے غیرقانونی لوگوں کی آمد ورفت کی روک تھام آخر کس کی ذمہ داری ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام صرف گندم اور ڈالروں کی نقل وحرکت روکنا نہیں ان کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔امریکی افواج افغانستان چھوڑ گئیں اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ گئے کہ افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والوں کوکہیں اور سے اسلحہ لینے کی ضرورت نہ
رہے۔وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی والوں کو بھارت تربیت دے رہا ہے۔مان لیا وہ بھارت سے تربیت لے کر آتے ہیں تو ہمیں تماشائی بنے کی بجائے اس کا توڑ کرنا چاہیے،پاکستان غریب ملک کھربوں روپے اداروں پر خرچ کرتاہے ۔جنرل راحیل شریف کے دور میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز ہوا تو دہشت گردوں کی بہت بڑی تعداد افغانستان کی طرف نقل مکانی کر گئی ۔دہشت گردی کہاں نہیں ہوتی امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد اور چین میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد وہاں کی حکومتوں نے کمال حکمت عملی سے دہشت گردی پر قابوپالیا جب کہ ہمارا ملک ماسوائے بیانات کے عملی طور پر کچھ نہیں کر سکا ۔
افغانستان سے آئے روز بغیر فلٹر کئے افغان باشندے پاکستان کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں ہمارا ملک کب تک افغانستان کے لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیتا رہے گا۔ جس طرح کے معاشی حالات سے ہم دوچار ہیں عوام دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں بے روز گاری عرو ج پر ہے دہشت گردی نے علیحدہ ڈیرے ڈال لیے ہیںان حالات میں حکومت پاکستان کو افغانوں کو فوری طور ان کے وطن واپس بھیجنا چاہیے، پولیس لائن پشاور کی مسجد کا واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کئی سبق چھوڑ گیا ہے۔پولیس کی وردی میں نامعلوم شخص کا پولیس وین میں بیٹھنا سوالیہ نشان ہے،دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے بدقسمتی سے سیاست دانوں کی نااتفاقی ملک اور عوام کیلئے مسئلہ ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت اور اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے یکسو ہونے کی اشد ضرورت ہے۔سالانہ بجٹ کی کثیررقم قانو ن نافذ کرنے والے اداروں پر خرچ ہوتی ہے جس کا مقصد سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ داخلی امن وامان قائم رکھنا ہے۔سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے کا موقع ملنا چاہیے ۔وزیراعظم کا یہ بیان خوش آئند ہے سیاسی اختلافات نپٹا لیں گے پہلے دہشت گردی کے معاملے میں سب کو یکسو ہونا چاہیے دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت پر دہشت گردوں کو چھوڑنے اور انہیں واپس خیبر پختونخوا میں آباد کرنے کا الزام دیتے ہیں۔ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا عمران خان اس کے کلی طور پر ذمہ دارہیں؟2014 کے نیشنل ایکشن پلان کامقصد کیا تھا دہشت گردی کے تواتر سے ہونے والے واقعات کی روشنی میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ضرورت نہیں تھی؟اے پی ایس کے معصوموں کا لہو ابھی خشک نہیں ہو پایا تھا کہ وطن دشمنوں نے اللہ کے گھر کو بھی نہیں چھوڑا۔پولیس لائنز کے شہدا کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔بس نیشنل ایکشن پلان پر ایک بار پھر عمل درآمد کا وقت ہے اب بھی دیر کر دی تو قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔خیبر پختونخواپولیس ملازمین کا احتجاج خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں لہٰذا اقتدار کو بچانے کی بجائے امن وامان کی فکر کریں۔حکومت نے کل جماعتی کانفرنس میں بشمول تحریک انصاف تمام سیاسی جماعتوںکو شرکت کی دعوت دی ہے عمران خان کو سیاسی اختلافات بھلا کر کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنانا چاہیے ۔ہمیں اس وقت جتنی قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل اختیار کرکے دہشت گردی کی لہر کو روکا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس کا بیان وہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک تک پہنچ گئے ہیں ۔مشکل کی اس گھڑی میں پولیس ملازمین کا حوصلہ بلند کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں احتجاج پر اُکسانے کا وقت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button