ColumnRoshan Lal

بے دریغ قرض کا بے درد استعمال .. روشن لعل

روشن لعل

 

(آخری حصہ)
ورلڈ بنک نے پنجاب اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی قائم کرنے کیلئے قرض فراہم کرنے کے ساتھ لائحہ عمل کے طور پر ایک فریم ورک بھی دیا تاکہ اس نئے ادارے کا انجام اصلاح آبپاشی کیلئے بنائے دو سابقہ ناکام اداروں جیسا نہ ہو۔ ورلڈ بنک نے پنجاب اریگیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی کو کامیاب بنانے کیلئے مختلف عارضی یونٹ قائم کرنے کا کہا اور یونٹوں کے مجموعے کو پنجاب اری گیشن سسٹم امپروومنٹ پراجیکٹ کا نام دیا ۔ اس پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کیلئے یہ لائحہ عمل دیا گیا کہ پرانے نہری نظام کو چلانے والے اری گیشن اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ کے سیٹ اپ میں بتدریج تبدیلیاں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ تمام انتظامات پیڈا کے سپرد کر دیے جائیں۔ محکمہ انہار کے برعکس پیڈا کیلئے طے کیا گیا کہ اس کا سٹاف اور تنظیمی ڈھانچہ مختصر ترین ہو گا کیونکہ نہروں کو پختہ کر کے فارمر آرگنائزیشنوں کو دینے کے بعد پیڈا کے ذمہ ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام نہیں ہوگابلکہ یہ کام کسانوں کی تنظیمیںخودکریں گی،البتہ ان کسان تنظیموںکی تشکیل کی ذمہ داری پیڈا کو سونپی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیاکہ ضلع یا بڑی نہر سے سیراب ہونے والے علاقے کی سطح پر ایک ایریا بورڈ قائم کیا جائے گا جہاں کسان تنظیمیں خود کو رجسٹر کرائیں گی۔
ورلڈ بینک کی سفارش پر پنجاب اری گیشن سسٹم امپروومنٹ پراجیکٹ کو نہری نظام کے تمام اجزااور مکمل ڈھانچے کی اصلاح کیلئے قائم کیاگیا۔ بڑی نہروں سے چھوٹے کھالوں کے آخری سرے تک پانی کی روانی سے فراہمی کیلئے بھاری رقم مواصلاتی نظام کی بہتری پر خرچ کرنے کیلئے مختص کی گئی تھی۔ اسی طرح اس پراجیکٹ پر عملدر آمد سے آگاہی اور نگرانی کیلئے مینجمنٹ اینڈ امپلی مینٹیشن یونٹ کے قیام کیلئے الگ سے بھاری رقم مختص کی گئی تھی۔ پراجیکٹ کے اس حصے یعنی پی ایم آئی یو میں کام پر موثر عملدر آمد اور پانی کی بہتر ترسیل کے انتظام کے سلسلے میں عملہ کی تکنیکی معاونت اور تربیت کیلئے بھی بھاری رقم علیحدہ سے رکھی گئی تھی۔ اس پراجیکٹ پر شفاف عملدرآمد اور موثر نگرانی کیلئے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کے چیئر مین کی سربراہی میں پراونشل پراجیکٹ سٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی ۔ پراجیکٹ میں شامل مختلف انتظامی اجزا کے باہمی تعاون کیلئے پیڈا کے منیجنگ ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک پراجیکٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی بھی بنائی گئی ۔ پراجیکٹ کے مکمل ہونے تک پیڈا میں ایک پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ قائم کیا گیا۔ اسی طرح مشاورتی خدمات کیلئے ایک کمیونٹی ڈویلپمنٹ اینڈ سپورٹ گروپ بھی بنایا گیا۔ ان کمیٹیوں اور یونٹوں کے علاوہ اس پراجیکٹ میں این جی اوز کے کام کی بھی گنجائش رکھی گئی تھی۔
ورلڈ بنک کی تمام شرائط احتیاطی تدابیر اور تجاویز کے باوجود پنجاب اری گیشن سسٹم امپروومنٹ پراجیکٹ کا بھی وہی حشر ہوا جو 1976کے آن فارم مینجمنٹ پروگرام اور 1982 کے اری گیشن سسٹم ری ہبیلی ٹیشن پروگرام کا ہو چکا تھا۔ اصلاح آبپاشی کیلئے بنائے گئے نئے پراجیکٹ کا مقصد پرانے نہری نظام میں موجود نہروں کو پختہ کر کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانا اور پانی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنا کر واجب ریونیو اکٹھا کرنا تھا۔ ورلڈ بینک کے اس پروگرام کے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر دو بڑی نہروں کی لائننگ اور پختگی کے بعد انہیں 2005تک مکمل کر کے کسانوں کی تنظیموں کے سپرد کرنا طے تھا۔ دونوں بڑی نہروں میں سے کسی ایک پر بھی تعمیراتی کام معینہ مدت میں مکمل نہ ہوسکا۔ معینہ مدت میں نہروں کی لائننگ کا کام مکمل نہ ہونے باوجود ورلڈ بنک کے نمائندوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ان کے کچھ حصے عجلت میں کسان تنظیموں کے سپرد کر دیئے گئے ۔اس عجلت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نہری نظام کی جو بہتری نہروں کی پختگی اور لائننگ سے مشروط تھی وہ کچی نہروں کو کسانوں کے سپرد کر نے سے کس حد تک پوری ہوئی ہو گی۔
پنجاب میں نہری نظام کی بہتری کا جو پروگرام ورلڈ بینک کے قرض تک محدود تھا اسے جب مقررہ مدت میں مکمل نہ کیا جاسکا تو اس میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک، جاپان اور ترکی کا قرضہ بھی شامل ہوگیا۔ نہروں کی لائننگ کا کام معینہ مدت میں مکمل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کیونکہ عجلت میں کسان تنظیموں کے حوالے کیا گیا تھا اس لیے ان سے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہ ہوسکا۔ جو لوگ نہروں کی لائننگ معینہ مدت میں مکمل نہ کر سکے بعد ازاں انہوں نے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی تمام تر ذمہ داری کسان تنظیموں پر عائد کر دی ۔ 2005 کے بعد 2008 تک کسان تنظیموں کے انتخابات ہوتے رہے جس میں محکمہ انہار پنجاب کے اعلیٰ افسران کی مداخلت بھی جاری رہی۔اس طرح کی کارروائیوں کے تسلسل میں 31 دسمبر 2008 کو تمام کسان تنظیموں کو فارغ کر دیا گیا۔ اس کے بعدنئے الیکشن کرانے کی بجائے ایس ڈی او حضرات کو کسان تنظیموں کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا گیا۔ ورلڈ بنک کے قرض کے تصرف سے قائم کیے گئے جس نئے نہری نظام کو کسانوں کے منتخب نمائندوں نے چلانا تھااسے قرضوں میں لی گئی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی محکمہ انہار کی افسر شاہی کے سپرد کر دیا گیا۔دسمبر2008 کے بعد ایک سے زیادہ مرتبہ کسان تنظیموں کا انتخاب ہومگر ہر مرتبہ انہیں مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی کام کرنے سے روک دیا گیا۔ قریباً دو دہائیوں تک اس قسم کی کارروائیاں یہاں پنجاب اری گیشن سسٹم امپروومنٹ پراجیکٹ کے نام پر جاری رکھی گئیں اور پھر آخر کار مئی 2019 میں جاری کیے گئے ایک آرڈیننس کے تحت پیڈا کو ختم کر نے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اب کسان تنظیموں کی بجائے کھال پنچایت کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔جس آرڈیننس کے تحت پیڈا کو ختم کیا گیا بعد ازاں وہ آرڈیننس بھی اسمبلی سے پاس نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گیا ۔یو ں نہ کھال پنچایت کمیٹیاں بنانا ممکن ہو سکا اور نہ ہی کسان تنظیمیں قائم رکھنا ممکن رہا۔
سطور بالا میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بیرونی قرض کے طور پر لیے گئے کئی ملین ڈالر کے فنڈ خرچ کر کے پنجاب ایریگیشن امپروومنٹ پراجیکٹ پر کام کرنے والے افسر کس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ ان افسروں کو شاید ہی اس بات کا احساس ہو کہ ان کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے قرض میں لیا گیا قیمتی زر مبادلہ خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ پیڈا قائم رہا اور نہ ہی اصلاح آبپاشی کے پراجیکٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکے۔ اس پراجیکٹ سے مطلوبہ نتائج تو حاصل نہ ہو سکے مگر اس کی کمیٹیوں اور یونٹوں میں بیٹھے لوگ بھر پور مالی مراعات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بھاری تنخواہیں بھی وصول کر تے رہے۔ وطن عزیز میں بیرونی قرضے کس قدر بے دردی سے استعمال کیے جاتے ہیں زیر نظر تحریر میں اس کی چھوٹی سی ایک مثال پیش کی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button