Ali HassanColumn

سکیورٹی غفلت، ایک سو افراد کی جان لے گئی .. علی حسن

علی حسن

 

ایک بار پھرکلیجہ چیرنے والا دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ 30جنوری بروز پیر کو پشاور میں پولس لائن کی مسجد میں نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران خود کش دھماکہ ہوااور تعداد بڑھتے بڑھتےایک سو سے زائد ہوگئی۔ دھماکہ خیز مادہ کی قوت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسجد کی چھت گر گئی اور ایک حصہ شہید ہوگیا۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی۔ تحریک طالبان پاکستان نے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے خالد خراسانی کے قتل کابدلہ لیاہے۔مگر رات گئے ترجمان طالبان بیان سے منحرف ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پالیسی نہیں کہ ہم مساجد اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنائیں،حملے سے ہمارا تعلق نہیں۔سی سی پی او کا کہنا ہے کہ پولیس لائن میں ایسا واقعہ سکیورٹی کوتاہی ہے۔ جس مسجد میں دھماکہ کیا گیا وہ پولیس لائنز صدر کا علاقہ ریڈزون میں ہے جو حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے، قریب حساس عمارتیں بھی ہیں جبکہ سی ٹی ڈی کا دفتر بھی پولیس لائنز میں ہی ہے، اس علاقے میں پشاور پولیس کے سربراہ اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا دفتر بھی ہے۔پولیس لائن میں ہزار سے ڈیڑھ ہزار افرادرہائش رکھتے ہیں۔ پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش بم دھماکہ سکیورٹی اداروں کیلئے سوالیہ نشان بن گیا ہے ۔خودکش حملہ آور پولیس لائن میں کیسے داخل ہوا؟ خیبر روڈ، سنٹرل جیل سیکرٹریٹ سے پولیس لائنز جانے والے 3 مقامات پر پولیس کی ناکہ بندیاں ہیں۔ پولیس لائن کے مین گیٹ پر دو مقامات پر ناکہ بندیاں ہیں جہاں تعینات اہلکار پولیس لائنز جانے والے اہلکاروں اور افراد کی چھان بین کرکے انہیں اندر جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ مسجد میں جب نمازی جاتے ہیں تو ان پر نظر رکھنے کیلئے بھی پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں اسی طرح سنٹرل جیل پشاور کی جانب سے پولیس لائن آنے والوں کی بھی تین مقامات پر چھان بین کی جاتی ہے۔آئی جی پولس معظم جاہ انصاری کا حادثہ والے روز کہنا تھا کہ مسجد میں دھماکا سکیورٹی کی خامی ہے،ایسا کیوں ہوا؟ تحقیقات کررہے ہیں دوسرے روز پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایاکہ خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں موٹر سائیکل پر آیااس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ موٹر سائیکل پر انجن اور چیسز نمبر جعلی تھا۔ موٹر سائیکل کو ڈرامہ کر کے سائیڈ پر لے گیا اور اس نے پولیس لائنز پہنچ کر حوالدار سے پوچھا مسجد کہاں ہے۔ دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے، خیبر روڈ سے فوٹیج میں خودکش حملہ آور کا پتا چلا جس نے ماسک پہنا ہوا تھا، جائے وقوع سے خودکش حملہ آور کا ملنے والا سر اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والا حملہ آور ایک ہی ہے۔ اب کچھ ہی کیوں نہ کہا جائے۔ یہ اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ حادثہ سکیورٹی کی غفلت کے باعث پیش آیا۔ افسران غور ہی نہیں کرتے ہیں کہ اہم مقامات پر سپاہی سے چوکیداری یا نگرانی کرانے کی صورت میں ایسے ہی حادثات ماضی میں صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، کراچی سمیت سندھ بھر میں پیش آچکے ہیں، کیوں نہیں تعلیم یافتہ اور ذہین افسران کو نگرانی پر معمور کیاجاتا ہے؟ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک دو دن پہلے سے مسجد میں موجود تھا۔ دھماکے کا سہولت کار پولیس لائنز کے اندر کا آدمی تھا، پولیس کا بھی خیال ہے خود کش حملہ آور ایک دو دن سے وہیں رہ رہا تھا اس نے ریکی کی اور موقع دیکھ کر دھماکا کر دیا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے قومی اسمبلی میں سانحہ پشاور پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میں پشاور سے ہوں، ہمارے 100 سے زائد لوگ شہید ہوئے ہیں صرف 100 لوگ نہیں ہیں ان کے ساتھ ان کے خاندان بھی ہیں، یہ دہشت گردی کون کر رہا ہے، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، میں پرسوں پشاور میں تھا، سرکاری گاڑی کے باوجود مجھے ریڈ زون میں روکا گیا، مجھ سے شناختی کارڈ مانگا گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں دوسرے درجہ کا شہری ہوں۔ جب تک پنجاب میں کوئی بندہ نہیں مرے گا یہ لوگ سنجیدہ نہیں لیں گے۔
نا جانے ان کا اشارہ کس کی طرف ہے، اور پنجاب میں کسی بھی بندے کی ہلاکت کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں کیوں یہ تاثر ہے کہ پنجاب کا بندہ ہی مرے گا تو سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ حکمرانوں اور حکومتوں کا بلوچستان میں ہونے والے حادثوں اور واقعات کے دوران بھی ایسا ہی رویہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور دیگر ادارے کسی بھی واقعہ سے نمٹنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ایسا تو ہمیشہ ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بم دھماکہ ہو، سڑک پر بڑا حادثہ ہو، آگ لگنے کی بڑی کارروائی ہو، زلزلہ ہو، سیلاب ہو، بھاری بارش ہو، اس کے بعد وسائل کی عدم دستیابی اور افسران کے ساتھ عدم رابطے کی وجہ سے پولیس کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشاور د ھماکہ کے بعد بھی ایسا ہی ہوا۔ سہولتوں اور رابطے کے فقدان کے باعث زخمی کئی گھنٹے ملبے تلے مدد کیلئے پکارتے رہے، پولیس اور سرکاری اداروں کے پاس مشینری نہیں تھی، پولیس وائرلیس کے ذریعے تمام تھانوں کو پرائیویٹ کرین کا بندوبست کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ دھماکے کے بعد عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا جس کے ملبے تلے درجنوں زخمی پھنس گئے تھے ۔ہسپتال میں زخمیوں کیلئے بستر کم پڑ گئے ۔ گھنٹوں کے بعد لاشیں پوسٹ مارٹم کیلئے مردہ خانے منتقل کی جا سکی تھیں۔
سانپ گزرنے کے بعد ہمیشہ لکیر پیٹی جا تی ہے۔ ماضی کی باتوں کو دہرانے سے صورت حال تو بہتر ہونے سے رہی۔ کام کی بات کرنی چاہیے، سیاسی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس میں بہتری لائی جانی چاہیے۔ پولیس کو مناسب انداز میں ضروری ساز و سامان سے لیس کریں۔حادثہ کے بعد جیسا ہمارے ملک میں ہوتا ہے، مذمتی بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سارے لوگ اپنے اپنے انداز میں اور طریقے سے مذمت کرتے ہیں۔ پولیس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ حادثہ کے چند دنوں بعد حکومت، پولیس اور تمام ذمہ دار ادارے بھول بھال جاتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان جو پشاور میں ہی16 دسمبر 2014 میں پیش آنے والے بربریت اور سفاکی سے بھر پور حامل واقعہ کے بعد تیار کرایا گیا تھا۔ اس واقعہ میں سکول بچوں کا مقتل گاہ بنا دیا گیا۔ بچوں کو ذبح کیا گیا تھا۔ بیس نکاتی ایکشن پلان بہت زور شور کے ساتھ تیار کیا گیا تھا۔ ایکشن پلان کا مقصد ہی ملک سے دہشت گردی کی بیخ کنی کرنا تھا۔ 2014 کے بعد سے 2023 تک کئی واقعات ہوئے، ہر واقعہ کے بعد ایکشن پلان کا تزکرہ دہرایا گیا لیکن تا حال ایکشن پلان کے نتائج تو سامنے نہیں آسکے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم نے کہا کہ اعلیٰ افسران کام کرنے کیلئے تیار ہی نہیں وہ گفتگو کے دوران رو پڑے۔ سرکاری افسران کے رویہ کی ایسی صورتحال کا سامنا سارے ملک ہی کو ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button