ColumnZameer Afaqi

لاہور سے کرتار پور دربار صاحب .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پاکستان اور بھارت دو ایسے ہمسائے ہیں جن کی طویل ترین سرحدیں تو آپس میں ملتی ہیں مگر آپس میں ملتے نہیں، حالانکہ اگر ان دونوں ممالک کے مابین عوامی سطح پر باہمی احترام کے رشتے اور رابطے استوار ہو جائیں تو دونوں ملکوں کے عوام کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے ایک طرف تجارتی میدان میں ہم ایک دوسرے سے مستفید ہوسکتے ہیں تودوسری جانب امن اور سکون میسر آنے سے دنوں ملکوں کے عوام تعمیر و ترقی کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں ۔دیر بدیر ایسا ہونا ہی ہے جس کیلئے گاہے کوششیں جاری رہتی ہیں لیکن چند انتہا پسند عناصر کی وجہ سے امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سبو تاژ کر دیا جاتا ہے۔
کرتار پور ڈیرہ بابا نانک راہداری کے حوالے سے پہلی بار 1998 میں انڈیا اور پاکستان کے حوالے سے مشاورت کی گئی تھی اور پاکستان نے کرتار پور دربار کی یاترا کیلئے بھارت کو پیش کش کی تھی کہ یہاں باڑ لگا کر ایک کوریڈور بنادیتے ہیں تاکہ یاتری صبح آئیں اور شام کو واپس چلے جائیں، بھارت نے اس کا مثبت جواب نہ دیا لیکن سابق حکومت کے دور میں یہ راہدری کھل گئی۔بھارت نے اپنی ریاست پنجاب کی سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں واقع گرودوارہ دربار صاحب تک سکھ یاتریوں کو رسائی دینے کیلئے ایک خصوصی راہداری قائم کرنے کی منظوری دی ۔ پاکستان نے اس بھارتی فیصلے کا خیرمقدم کیاہے ۔کرتارپور کوریڈورکے اقدام پر بھارت سمیت دنیا بھر کی سکھ قوم نے خوشی کا اظہار کیا ہے ، اس سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آنے کی امید ظاہر کی گئی اورامن کی کوششوں کو تقویت بھی ملنے کا اظہار کیا گیا ، راہداری کی تعمیر سے سکھ یاتر یوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مالی اور سفری آسانی ہو ئی جبکہ پاکستان میں سیاحت اور صنعت کو فائدہ ہو ا ۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1920 سے 1929 کے درمیان 1,35,600روپے کی لاگت سے پٹیالہ کے مہاراجہ سردار پھوبندر سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ سنہ 1995 میں حکومت پاکستان نے بھی اس کی دوبارہ مرمت کی تھی۔تقسیم ہند کے وقت یہ گرودوارہ پاکستان کے حصے میں آیا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد قریباً 56 سال تک یہ گرودوارہ ویران رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں کے کشیدہ تعلقات کے سبب یہ گرودوارہ عرصہ دراز تک یاتریوں کا منتظر رہا۔ گرودوارہ صاحب سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیوجی مہاراج کی یاد میں بنایا گیا تھا۔گورو نانک کی پیدائش 1499 عیسوی کو ننکانہ صاحب میں ہوئی اور ان کے والد کا نام مہتا کلیان داس اور ماں کا نام ماتا ترپتا تھا۔گورو نانک 1521 کو اس مقام پر تشریف لائے اور کرتار پور کے نام سے ایک گاؤں کو آباد کیا، 1539ء تک آپ نے یہاں قیام کیا اور کھیتی باڑی بھی کی۔کرتار پور وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ یہیں ان کی ایک سمادھی اور قبر
بھی ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کیلئے ایک عقیدت کے مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ گرودوارہ تحصیل شکر گڑھ ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کی مغربی جانب واقع ہے، راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد ہے۔گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقام ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک دور دراز گاؤں میں ہے۔
شکر گڑھ کے موضع کرتار پور میں دربار بابا گورو نانک دیو جی، پاک بھارت بارڈر سے محض ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور محض 30 منٹ میں پیدل طے کرکے سرحد پار سے لاکھوں عقیدت مند یاتری درشن اور دیگر مذہبی رسومات ادا کر سکتے ہیں ۔نارووال ضلع کی حدود میں واقع اس گرودوارہ تک پہنچنے میں لاہور سے 130 کلومیٹر اور قریباً تین گھنٹے ہی لگتے ہیں لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ تعلقات کی تاریخ نے اس سفر کو مزید طویل بنا رکھا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں بسنے والے لاکھوں سکھوں کو ویزے کے انتظار، سکیورٹی اور سکروٹنی کے بعد واہگہ کے راستے سفر اور بھاری بھر کم اخراجات کے بعد گرودوارہ کا درشن میسر آتا تھا۔ دربار کے سامنے سرحد پار بھارتی شہر ڈیرہ بابا گورو نانک میں ایک درشن استھان بنایا گیا ہے جس پر کھڑے ہو کر سرحد پار سکھ اس دربار کا دیدار کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے گرودوارے
کے درشن کیلئے آنے والے لاکھوں سکھ یاتریوں کو ہر ممکن سہولیات اور سکیورٹی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
لیکن دوسری جانب پاکستان کے طول عرض سے جانے والے افراد کیلئے ناروال سے کرتار پور کو ایک ہی سٹرک ہے جو آگے شکر گڑھ کو جاتی ہے،طرفہ تماشہ یہ ہے کہ نارووال سے کچھ آگے سڑک بنائی جارہی ہے جس پر پتھر پڑے ہیں اور بمشکل ایک ہی گاڑی گزر سکتی ہے اب دونوں اطراف سے آنے والی ٹریفک جس میں ٹرک بسیں اور ٹریکٹر بھی شامل ہیں، پھنس جاتے اور یوں وہاں گھنٹوں ٹریفک پھنسی رہتی ہے ،یہاں پر کوئی کانسٹیبل یا،ٹریفک پولیس والا بھی نہیں ہوتا لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی کوشش کرتے ہیں ٹریفک کو درست کرنے کی، لیکن جب ٹریفک بری طرح پھنس جائے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ چند روز پیشتر( اورنگ زیب ملک ،محمود گیلانی ایڈوکیٹ،ان کی بیگم اور فرخ اورنگ زیب صاحب کے صاحبزادے )کے ہمراہ ہم کرتار پور گئے اور ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ،جاتے ہوئے بھی اور آتے ہوئے بھی، لیکن ابھی ہمارے پیچھے گاڑیاں کم تھیں ہم واپس ہو لیے خیال تھا،ڈسکہ پہنچ کر وہاں سے لاہور کی طرف آیا جائے اس دوران ہم نے اپنے ایک دوست انور خان کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا کریں انہوں نے پوچھا کہ اس،وقت کہاں ہیں ہم نے اپنی لوکیشن بتائی تو انہوں نے پوچھا کرتا پور سے آگے جا چکے ہیں یا پیچھے ہیں ہم نے بتایا کہ دو کلومیٹر پیچھے ہیں جو وہاں لگے سائن بورڈ سے پتا چلا انہوں نے کہا کہ آپ کے بائیں طرف ایک چھوٹا سا ریلوے پھاٹک ہے اس طرف سے ہو لیں یوں ہم ادھر سے نارووال کی طرف واپس ہوئے دس بارہ کلو میٹر اندر دیہاتی علاقے سے ہوتے ہوئے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم نارووال روڈ پر چڑھے اور یوں رات گئے لاہور پہنچے۔ اتنی ہم سڑک کا نہ تو کوئی متبادل ہے اور نہ کوئی راہنمائی، اگر سڑک بنانا مقصود ہے تو پھر کوئی متبادل راستہ مہیا کیا جائے۔
جس راستے سے ہم نارووال پہنچے اگر اسے ہی بہتر کر دیا جائے تو کرتار پور جا نے والے لوگ تکلیف سے بچ سکتے ہیں کیونکہ مین سڑک کو بنتے ابھی کافی دن لگیں گے اس وقت تک متبادل راستے کے طور پر اس سڑک کو استعمال کے قابل بنا نا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ایک اور مسئلہ کرتار پور میں بے جا سکیورٹی کا بھی ہے کسی کو بھی شک کی بنیاد پر گھنٹوں تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس سے لوگوں کو ا نتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کرتار پور بابا صاحب کے درشن کیلئے کیونکہ ادھر بھارت سے یا بیرون ملک سے سکھ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ آتے ہیں ادھر سے پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ جاتے ہیں جو وہاں آپس میں گھل مل جاتے ہیں تصاویر کھینچتے ہیں گپ شپ لگاتے ہیں جو ایک قدرتی امر ہے، بعض اوقات ایسے لوگ جن کی سوشل میڈیا سے دوستیاں ہیں وہ بھی مل جاتے ہیں جسے ایک اچھا عمل سمجھاجانا چاہیے کیونکہ اس طرح سے دونوں ممالک کے عوام میں میل جول بڑھنے سے ایک اچھا ماحول بن رہا ہے جسے مزید اچھا بنانے کیلئے وہاں پر کام کرنے والے سٹاف کی تربیت کی اشد ضرورت ہے تو دوسری جانب سکیورٹی کے معاملات کو بھی نرم کرنے کی ضرورت ہے۔دنوں ملکوں کے عوام کے آپسی میل جول سے ماحول پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ امن مشن کی بحالی کیلئے مزید ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے دونوں ملکوں کے شہری آپس میں میل جول بڑھا سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button