CM RizwanColumn

مریم نواز کا شاندار استقبال .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

مریم نواز کا پاکستان واپسی پر شاندار استقبال ثابت کرتا ہے کہ وہ اگر پورے پاکستان کی نہیں تو کم از کم نون لیگ کے حامیوں اور ووٹروں کی اُمید ضرور ہیں۔ نون لیگ کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے ان کے استقبال کیلئے اپنے اپنے حلقوں سے فی حلقہ چند سو آدمی لاکر گو کہ ان کا استقبال شاندار کیا لیکن استقبال، جلسہ اور اجتماع اور چیز ہوتا ہے اور الیکشن کے دن ووٹرز کا گھر سے نکل کر پولنگ سٹیشن میں جاکر غنڈہ گردی اورماحول میں جاکر ووٹ ڈالنا بالکل دوسرا معاملہ ہے۔ گو کہ مریم نواز کو ایک شاندار استقبال دیکھنے کو ملا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مریم نواز کو بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ کرنے کیلئے میدان میں اتارا گیا ہے۔ ایک طرف شہباز شریف کی آٹھ ماہ کی خاموش اور مصلحت کش ناکام مرکزی حکومت کے اعمال کا حساب کتاب چکانا مشکل ہے تودوسری طرف کمزور اور ملک کی بدترین معاشی حالت پر جائز اور بھرپور تنقید اور غریب عوام کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سن کر توانا، بھرپور اور پرامید لفاظی کے ساتھ ساتھ عملی سہولیات کا تقاضا ایک پہاڑ کی صورت میں کھڑا ہے۔ پھر یہ کہ جماعتی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان کی روزانہ کی بنیاد پر کمپین کا مقابلہ صرف تنہا مریم نواز کو کرنا ہے۔ اوپر سے سرکاری اور طاقتور حلقوں کی جانب سے مدد کی صورتحال بھی غیر یقینی اور دگرگوں ہے۔ تین ماہ تک لندن میں اپنے والد اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ قیام کے بعد پاکستان واپسی پر انہیں جس طرح ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ایک جانب وفاق میں بالعموم مخلوط حکومت اور خاص طور پر مسلم لیگ نون کو معاشی بحران کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا منظر نامہ پیدا ہو رہا ہے۔ ایسے میں ان کی واپسی کو انتخابات کیلئے تیاری سے جوڑا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی قیادت کے مطابق وہ پارٹی کی تنظیم نو کریں گی جس سے نون لیگ مضبوط اور پارٹی متحرک ہو گی۔ آنے والے الیکشن کیلئے جو ٹارگٹ مقرر کئے گئے ہیں وہ پورے ہوں گے۔ جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ نواز شریف کب آئیں گے تو ان کیلئے جواب ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی پنجاب کے الیکشن رزلٹ پر منحصر ہے گو کہ نون لیگ کے بعض پارٹی رہنما اور سیاسی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کی اگلے الیکشن میں کامیابی کیلئے میاں محمد نواز شریف کا پاکستان آنا ازحد ضروری ہے تاہم نواز شریف کی واپسی کی بجائے فی الحال مریم نواز کو کچھ سیاسی اہداف
کے ساتھ پاکستان بھیجا گیا ہے جن میں سب سے پہلا اور بڑا ہدف پنجاب میں ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ نون کی بھاری اکثریت سے کامیابی ہے جس کیلئے وہ پنجاب اسمبلی کی دو سو سیٹوں پر کام کریں گی۔ مریم نواز مختلف حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اراکین پر بھی کام کریں گی اور اگر وہ یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر نواز شریف واپس آئیں گے اور اگلی سیاسی مہم کا آغاز کریں گے۔یعنی نواز شریف کی وطن واپسی پنجاب کے الیکشن رزلٹ پر منحصر ہے۔ اس لیے یہ مریم نواز کا بڑا سیاسی امتحان ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اب سیاسی مخالفین کا مقابلہ بھی ہر طرح سے ڈٹ کر کیا جائے گا جس کیلئے زیادہ تر چیزیں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہیں۔ یعنی نون لیگ کا اندرونی اتحاد اور تمام تر بڑی قیادت کی معاملہ فہمی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس کے باوجود اگر کچھ لیگی قائدین اس یقین کا اظہار کر رہے ہیں کہ پنجاب کے ضمنی انتخاب سے قبل نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے تو وہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ اب نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ امر حددرجہ اہم ہے کہ نواز شریف کی ضمنی انتخاب سے قبل وطن واپسی کی نوید سنانے والے اور نہ آنے کی خبر دینے والے نون لیگی قائدین کے بیانات میں تضاد کی وجہ سے مسلم لیگ نون کے کئی رہنما اور ووٹر ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں۔ اگرچہ جماعت کی قیادت علاج کی غرض سے لندن میں موجود نواز شریف کی
واپسی کو ڈاکٹروں کے مشوروں سے مشروط کرتی ہے، تاہم ملک میں معاشی مشکلات اور سیاسی تنقید کا سامنا کرتی نون لیگ کے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ نواز شریف فوری طور پر پاکستان واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے قانونی مسائل کو حل کئے بغیر معاملات کا بہتری کی طرف جانا مشکل ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے پاکستان میں نہ ہونے سے پارٹی میں مسئلے پیدا ہوئے تھے۔ پارٹی کے لوگوں میں تشویش بھی پائی جاتی تھی لیکن پھر مریم نواز نے اپنے دورہ لندن سے قبل اس دوران پارٹی کو سنبھالا اور بڑے بڑے جلسے کئے۔ عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن ان کا بیشک علاج کی غرض سے ہی سہی بیرون ملک چلے جانا پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
سیاست ایک کل وقتی کام ہے خاص طور پر اس صورت میں بھی کہ نون لیگ کا سب سے بڑا مخالف عمران خان نون لیگ کو روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے چیلنجز کا ہدف دے رہا ہے اور اگر اب بھی مریم نواز، حمزہ شہباز، سلمان شہباز، شہباز شریف اور نواز شریف کا یہی انداز سیاست رہا تو پی ٹی آئی نون لیگ کو پنجاب میں بھی ہڑپ کر جائے گی۔ اب پارٹی کی چیف آرگنائزر بننے کے بعد مریم نواز کیلئے ایک اہم چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے سینئر قائدین اور نوجوانوں کو کس طرح ایک ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ انہیں ہر حوالہ سے بہت زیادہ احتیاط سے چلنا ہوگا اور نہ صرف یہ کہ دن رات جدوجہد کر کے پارٹی کے اندر موجود اختلافات کو ختم کرنا ہو گا بلکہ پارٹی کو منظم، مضبوط، فعال اور متحرک بنانا ہو گا۔ تمام پارٹی قائدین کو متحرک کرنا ہو گا۔ یوسی لیول کے کارکن سے لے کر مرکزی اور قومی سطح کے قائدین تک کو ایک بیانیے، ایک پالیسی اور ایک اعتماد کی لڑی میں پرونا ہوگا۔ تاکہ پارٹی میں پائے جانے والے ہر قسم کے اختلاف ختم ہوں۔ مایوسی اور اہداف کا دھندلا پن ختم کرنا ہو گا۔ مریم نواز کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پچھلے پانچ سال میں نون لیگ کو صرف عمران خان نے ہی نہیں خود نون لیگ کی بے عملی نے بھی خوب مارا ہے۔ سوشل میڈیا کے میدان میں نون لیگ کو حد سے زیادہ بداعتمادی اور بداعمالی نے نقصان پہنچایا ہے، عوامی رابطوں کے حوالے سے بھی نون لیگ کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکی۔ ان تمام قباحتوں کے باوجود اگر نون لیگ آج بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے تو وہ محض اس وجہ سے کہ نون لیگ کا ووٹر اپنی پسندیدہ جماعت سے بہت زیادہ لگاؤ اور خلوص کا جذبہ رکھتا ہے اور باشعور ہونے کی وجہ سے عمران خان کے پراپیگنڈہ کا شکار نہیں ہوا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت مریم نواز کو ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔
بالفرض نواز شریف نے اپنی وطن واپسی کو پنجاب کے ضمنی الیکشن کے بعد کامیابی کے حامل نتائج سے مشروط کر رکھا ہے تو نتائج اگر جزوی یا کلی ناکامی کے آتے ہیں تو کیا پھر نواز شریف اگلے عام انتخابات سے پہلے پاکستان واپس آئیں گے یا نہیں اور پھر بھی نہیں آتے تو پھر ملکی سیاست میں ان کا ذاتی طور پر کردار محدود ہو جائے گا اور مریم نواز کو زیادہ اہم اور ذمہ دار سمجھا اور تسلیم کیا جائے گا اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر وہ موجودہ ضمنی انتخاب میں بہتر اور حوصلہ افزا کارکردگی دکھاتی ہیں۔ شاید نواز شریف اور مسلم لیگ نون نے مریم نواز کو اب پارٹی قیادت کی منتقلی اس اُمید پر کی ہے کہ وہ ایک بڑی عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آئی ہیں اور جب بھی قیادت کی ایسی منتقلی ہوتی ہے تو پارٹی میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے اور یہی مسلم لیگ نون میں بھی ہو رہا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ پارٹی چھوڑ کر بھی چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اوپر اور کچھ لوگوں کو نیچے کر دیا جاتا ہے۔ پارٹی کے وہ لوگ جو مریم کے والد کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں شاید اب ان کا خیال یہ ہے کہ مریم ہمارے سامنے جونیئر ہے۔اس ضمن میں اگر بینظیر بھٹو کی مثال دیکھیں تو جب انہوں نے پارٹی کو لیڈ کیا تھا تو وہاں بھی سنیئر لوگوں کو مسئلے ہوئے، پرانے لوگوں کیلئے نوجوان اور نئے خون کو قبول کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور اگر لیڈر خاتون ہو تو مردوں کیلئے یہ بات قبول کرنا بھی بعض اوقات زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ سنیئرز اپنے سے جونیئر کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کی سیاست میں اپنے آپ کو منوانے کیلئے خواتین کو دس گنا زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ امید تو یہی ہے کہ مریم نواز اس وقت اپنی پارٹی میں موجود منقسم گروپوں کے درمیان اختلافات کو کافی حد تک حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ بہرحال آنے والے دن مسلم لیگ نون اور خود مریم نواز کیلئے آسان نہیں ہوں گے کیونکہ موجودہ نون لیگی حکومت نے جس قسم کے معاشی فیصلے کئے ہیں اس سے وہ عوام میں غیر مقبول ہوئے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف سے عمران خان کے پرزور حملے تابڑ توڑ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں مریم نواز کیلئے عوام کو مسلم لیگ نون کی کارکردگی کے بارے میں بتانے کا چیلنج آسان نہیں ہو گا۔
ماضی کی بات اور تھی، مسلم لیگ نون کی سیاست دو بھائیوں پر تھی۔ وفاق میں نواز شریف تھے تو پنجاب میں کام کرنے کیلئے شہباز شریف تھے، وہ ایک کامیاب جوڑی تھی۔ مریم نواز کیلئے یہ چیز بھی ایک چیلنج ہو گی کہ وہ اپنے آپ کو متبادل کے طور پر کیسے کامیاب بنائے گی۔ پچھلے دنوں پارٹی میں کئی اختلاف بڑھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ کئی سنیئرز کو مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے پر بھی شدید اعتراض تھا جو اب تک پایا جاتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کچھ سنیئر رہنما پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کو بھی تیار ہو گئے تھے لیکن پھر معاملات کو سنبھالا گیا۔ لاہور ایئرپورٹ پر مریم نواز نے شاہد خاقان عباسی کو اچھے لفظوں میں پیغام دیا ہے اس کے مثبت نتائج ہی نون لیگ کو نفاق سے بچا سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں نون لیگ کے پاس دینے کو کیا بیانیہ ہے یہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔ اب تک تو جو معلوم ہوا ہے وہ یہی ہے کہ وہ پرانے بیانیے کو ہی لے کر چلیں گے جس میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی سیاسی مداخلت پر بات ہو گی، حالانکہ اگر اب نون لیگ ایک نیا بیانہ نہیں دیتی تو آنے والے الیکشن میں ان کیلئے عمران خان کا مقابلہ کرنا بھی بہت مشکل ہوگا۔ اگر بات کی جائے پنجاب کے گیارہ حلقوں کے سابقہ ضمنی انتخاب کی تو تب تک مسلم لیگ نون ایک زعم میں تھی کہ پنجاب ان کا ہے لیکن پھر نتائج مختلف آئے اور اب تو صورتحال یکسر مختلف ہے کیونکہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کی پارٹی نے ایک نئی سیاسی طاقت پکڑ لی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ نون کیلئے ضروری ہے کہ وہ پرانے زعم سے نکلیں اور میدان میں آنے سے پہلے اپنے اندرونی معاملات بہتر کریں۔ بہرحال لاہور ایئرپورٹ پر مریم نواز کا شاندار استقبال ہوا ہے مگر ان کیلئے چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور سہولیات بہت کم۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button