Ali HassanColumn

سخت اقدامات کی فوری ضرورت .. علی حسن

علی حسن

 

پاکستان کو جس طرح کی معاشی صورت حال کا سامنا ہے، اس پر کیا کلام کیا جا سکتا ہے۔ بس کچھ خبروں کے دوبارہ مطالعہ کی ضرورت ہے البتہ یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ نامعلوم کیوں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا، موجودہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ بھاری بھر کم کابینہ میں شامل لوگ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہے، حکومت کو کچھ نہ کچھ کرنا تو پڑے گا۔ حکومت کو بہت زیادہ وقت ملا تھا کہ وہ صورت حال کو قابو میں لانے کیلئے عملی اقدامات کرتی ۔ موجودہ صورت حال چند ماہ میں پیدا نہیں ہوئی۔ کیا سب ہی لوگ ملک کے دیوالیہ ہونے کے انتظار میں ہیں؟پاکستان نے دنیا بھر میں اپنے سفارتخانے کے تمام عملے کو غیر ملکی کرنسی میں ادائیگیاں روک دی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے وزارت خزانہ نے ڈالر میں ادائیگی کی منظوری دینے سے روک دیا ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان کے متعدد سفراء کو کرائے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کچھ عمارتیں خالی کرنے کو کہا گیاہے۔ ڈالر کی کمی نے پاکستان میں پاکستانی سفارت خانوں کے مشن روک دیئے ہیں۔یاد رہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں روز بروز کمی آتی جارہی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گرگئے۔اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر 9 سال کی کم ترین سطح 3.67ارب ڈالر تک گرگئے۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائز صرف 18 دن کی درآمدات کیلئے کافی ہیں۔اسٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 20 جنوری کو ختم ہوئے ہفتے میں مجموعی طور پر 99 کروڑ ڈالر کم ہوئے۔ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 20 جنوری تک 9.45 ارب ڈالر رہے، اسٹیٹ بینک کے ذخائر 92 کروڑ ڈالر کم ہوکر 3.67 ارب ڈالر رہے جو صرف تین ہفتے کی امپورٹس کیلئے کافی ہوں گے۔کمرشل بینکوں کے ذخائر 6.76 کروڑ ڈالر کم ہوکر 5.77 ارب ڈالر رہ گئے۔اس سے پہلے فروری 2014 میں اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ڈالر کی سطح اتنی گری تھی ۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) مالیاتی محصولات اور جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان کوبدترین ممالک میں شامل کرتے ہوئے 190 ممالک میں 180 ویں نمبر پر رکھا ہے، پاکستان مالیاتی آمدنی اور جی ڈی پی کے تناسب کے مطابق 190ممالک میں سے آخری 10 میں شامل ہے۔جنوبی ایشیائی ملک جوکہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے معاشی پریشانیوں کا سامنا کررہا ہے جبکہ مالیاتی آمدنی اور جی ڈی پی کا تناسب 12.1 فیصد ہے۔خطے کے دیگر ممالک میں، بنگلہ دیش 9.6 فیصد کے تناسب کے ساتھ 183ویں نمبر پر ہے جبکہ سری لنکا کی مالی آمدنی سے جی ڈی پی کا تناسب 8.8 فیصد اور ایران کا 8.3 فیصدہے۔ صومالیہ فہرست میں 7% کے ساتھ 190 ویں نمبر پر سب سے نیچے تھا۔ خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش کی شرح 9.6 فیصد ہے اور اس کا نمبر 183 ہے۔ مالی طور پر دیوالیہ ملک سری لنکا کی مالی آمدنی جی ڈی پی کا تناسب 8.8 فیصد ہے اور اس کا نمبر 186 ہے جبکہ ایران کا تناسب8.3فیصد ہے۔مالیاتی آمدنی سے جی ڈی پی کے تناسب کیلئے آئی ایم ایف کی تیار کردہ فہرست میں لیبیا 68.2%، ناروے 63.7%، کویت54.9%، فرانس53.3% اور فن لینڈ 51.9% ٹاپ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
پٹرول 35 اور ڈیزل 35 روپے بڑھا کر آئی ایم ایف کو خوش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں پٹرول 11 فیصد تک مہنگا ہوا لیکن شہباز شریف کی حکومت نے پٹرول 17 فیصد تک مہنگا کیا ہے۔وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق ڈیزل فی لیٹر آئل پر لیوی ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا۔مٹی کے تیل، لائٹ ڈیزل آئل پر لیوی ٹیکس میں کمی کی گئی ہے جبکہ پٹرول پر لیوی ٹیکس 50 روپے لٹر پر ہی برقرار ہے۔ڈیزل پر پٹرولیم لیوی 5 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر لیوی 35 روپے سے بڑھا کر 40 روپے کر دی گئی ہے۔پاکستان میں ڈالر کے ایکسچینج ریٹ بڑھنے سے بھی پٹرولیم مصنوعات مہنگی کی گئی ہیں۔یکم فروری کی بجائے 29 جنوری کو ہی پٹرولیم مصنوعات کے ریٹ بڑھائے گئے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے دور میں پٹرول مہنگا ہونے پر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا لیکن سحاق ڈار کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعدنون لیگ کے رہنمائوں کو چپ لگ گئی ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ گذشتہ سال اکتوبر کے مہینے سے لے کر 29 جنوری تک ایک مرتبہ بھی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 19 سے 20 روپے کی کمی کی گئی تھی ۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں 29 سے 30 روپے کمی کی گئی ۔
وفاقی حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں نجی بینکوں سے 1300 ارب یا 1.3کھرب روپے کے قرضے لیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔گزشتہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے اس عرصے کے دوران صرف 320 ارب روپے کا قرض لیاتھا۔پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے عوام گزشتہ 9 ماہ میں عوام پر مہنگائی کے بم گرانے کیساتھ ساتھ ملکی خزانہ بھی خالی کردیا۔وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ 6 ماہ کے دوران نجی بینکوں سے بھارتی قرضے لینے کا انکشاف ہوا ہے۔اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے یکم جولائی 2022 سے 14 جنوری 2023تک 6 ماہ کے دوران نجی بینکوں سے 1300ارب روپے کے قرضے حاصل کیے ہیں۔پچھلی حکومت نے گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں صرف320ارب روپے کے قرضے لیے تھے۔اس عرصے کے دوران نجی شعبے کے قرضے لینے میں 42 فیصد کمی واقع ہوئی۔ گزشتہ 6 ماہ کے نجی شعبے سیکٹر کا قرضہ قریباً 410 ارب روپے رہا جو کہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 707 ارب روپے تھا ۔
سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ گردش میں ہے کہ وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کی بیٹی کی شادی میں سونے کے سکے لٹائے گئے۔ یہ بھی طنز کیا گیا ہے کہ جہاں سونے کے سکے لٹا ئے جائیں وہ ملک بھلا کیسے ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ ایک ماہ کے دوران ہی دالوں کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ کا امکان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button