ColumnRoshan Lal

اے امید تمہیں ڈھونڈیں کہا ں سے .. روشن لعل

روشن لعل

 

کوئی تمہید باندھے بغیر اگر صاف بات کی جائے تو وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو شے ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی اس کا نام امید ہے۔ امید کی بجائے جو شے یہاں فراوانی میں دستیاب ہے اس کا نام مسائل ہے۔ عجیب بات ہے کہ جس قدر یہاں مسائل موجود ہیں اسی قدر ان کے حل کی خواہشیں بھی پائی جاتی ہیں مگر امیدیںجو کبھی خال خال نظر آجایا کرتی تھیں اب ناپید محسوس ہوتی ہیں۔ امیدوں کا ناپید ہونا یہاں صرف کسی ایک علاقے یا کسی ایک مکتبہ فکر اور سیاسی گروہ کے لوگوں تک محدود نہیں۔ یہ صورتحال یہاںہر سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ فرد واحد سے لے کر تمام معاشرتی گروہوں تک یہاں ہر کوئی مسائل کے حل کی خواہشیں تو پالے ہوئے ہے مگر ان خواہشوں کی بر آوری کیلئے اپنی طرف سے نہ تو چھوٹی سے چھوٹی قربانی دینے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی حصہ ڈالنے کیلئے تیار دکھائی دیتا ہے۔اگر خاص طور پر سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو ان کے اکثر بڑے سمجھے جانے والے رہنما اپنے مخالفین کو تمام ملکی مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کا چورن تو بیچ رہے ہیں مگر کوئی بھی ایسا لائحہ عمل پیش نہیں کر رہے جس سے ملکی مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کی جاسکیں۔ یہ بات تو یہاں قریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک کے موجودہ مسائل کیاہیں مگر یہ احساس شاید ہی کسی کو ہے کہ مسائل کس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے یہاں لوگ امید کا دامن تھامنے کی بجائے خواہشوں کے ایسے ابلاغ سے مرعوب ہو جاتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔
عام طور پر خواہش اور امید کو باہم مترادف سمجھا جاتا ہے مگر ایسا ہر گز نہیں۔ دراصل خواہش ایسا تصور ہے جس میںکسی مادی بنیاد کی موجودگی کے بغیر ہی توقعات کی تکمیل کے خواب دیکھے یا دکھائے جاتے ہیں جبکہ امید ایک ایسی حقیقت ہے جس میںکسی موجود کے سہارے آگے بڑھنے اور حالات بہتر کرنے کی سعی کی جاتی ہے ۔خواہش اگر خوابوں کی دنیا ہے تواس کے برعکس امید راہ عمل ہے۔ خواہشوں کی تکمیل کو جادوئی عمل سے وابستہ کیا جاسکتا ہے مگر امید کو نہیں۔کچھ پانے کی خواہش کے ساتھ سکہ فوارے کے تالاب میں پھینک کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جاسکتا ہے مگر کسی کوپانے کی امید کرنے کیلئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے حصول کیلئے جستجو کی جائے۔ خواہش ایک ایسا سراب ہے جس کی جانب سفر کا حاصل مستقل پیاس برداشت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر امید ایک ایسی توقع ہے جس کے سہارے شدید ترین پیاس برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ کسی زلزلے یا سیلاب کی آفت میں تباہی کا شکار ہو نے کے بعد خواہشوں کے اسیر تو اپنی جائیداد کے نقصان پر روتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کاش یہ آفت ان پر نازل ہی نہ ہوتی مگر پر امید لوگ اپنی جان بچ جانے پرشکر ادا کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ نہیں رہا اسے زندگی کے سہارے پھر سے دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ خواہشیں اگر توقعات تک محدود رہنے کی حجت ہیں تو امیدیں توقعات کی تکمیل کیلئے منصوبہ سازی اور عمل کا نام ہیں۔
اب ذکر ہو جائے ان ملکی مسائل کا جن کا حل پیش کرنے کی بجائے عوام کو یہاں خواہشوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی کشتی کا مسافر بنا یا جارہا ہے، جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو شاید دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو اس وقت پاکستان کو درپیش نہ ہو۔ بیرونی قرضے، تجارتی خسارہ، غربت، ناخواندگی، توانائی کا بحران، بد عنوانی، سیاسی عدم استحکام، معاشرتی عدم برداشت، بیرونی مداخلت، دہشت گردی، معاشی عدم استحکام، آبادی میں اضافہ، افراط زر، بیروزگاری صحت اور پانی کی کمیابی اس وقت ملک کے بڑے مسائل ہیں۔ ان مسائل کا سامنا دنیا کے کئی دیگر ملکوں کو بھی ہے مگر جس طرح پاکستان میں یہ مسائل شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں اس کی
مثال شاید کہیں اور موجود نہیں ہے۔ مسائل کی یہ شدت ملک میں کس قدر افراتفری، انتشار اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے اس کا احساس نہ یہاں مستقل اداروں اور نہ ہی ان سیاسی رہنمائوں کو ہے جن کے قول و فعل سے یہ تاثر پیدا ہوتا رہتا ہے انہیں ملک اور عوام کے مفاد کی بجائے صرف اور صرف اپنی حکمرانی کی خواہشیں عزیز ہیں ۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران جب بیرونی دنیا کے رویوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وہ پاکستان کو دیوالیہ ہوتے ہوئے دیکھنے کی ہر گز کوئی خواہش نہیں رکھتے اسی وقت اپنی حکمرانی کی خواہشیں پالتے رہنے والے سیاستدانوں کے بیانات سے یہ تاثر ابھر اہے کہ انہیں اس بات کا قلق ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ فی الحال کیوںٹل گیا ہے ۔ اس قسم کے رویوں کی وجہ سے ہی پاکستان کو جنیوا ڈونر کانفرنس میں 10 بلین ڈالر امداد کے اعلانات کے باوجود بھی یہاں حالات بہتر ہونے کی امیدیں پیدا ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 10 بلین ڈالرا امداد کے اعلانات کے باوجود بھی پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرات سے پوری طرح باہر نہیں آسکا ، اس امداد کو چاہے کچھ اور نہ کہا جاسکے مگر ملکی معیشت کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کی بحالی کا انجکشن ضرور سمجھا جاسکتا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس امداد کی مد میں اعلان کی گئی کل رقم میں سے 3 یا 4 بلین ڈالر آئندہ چھ ماہ تک پاکستان کو دستیاب ہو جائیں گے ، اس رقم کو اگر ملک کی شکستہ معیشت کیلئے صرف عارضی سہارا سمجھا جائے اور معیشت کی مکمل تعمیر و مرمت کیلئے مشکل فیصلے کرنے اور ان پر عملدرآمد یقینی کو بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں تو امید رکھی جاسکتی ہے کہ ہمارا سفر مسائل کے حل کی طرف شروع ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی امید کا بر آنا ناممکن نہیں ہے مگر ملک میں نظر آنے والے سیاسی انتشار کی موجودگی میں بہتری کی امیدیں وابستہ کرنا بے سبب نظر آتا ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے مشکل فیصلوں پر عملدرآمد کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔ قبل ازیں ملک کے مراعات یافتہ طبقوں کو مشکل فیصلوں کی زد میں لانے کے اعلانات تو ہوتے رہے مگر ان پر عمل درآمد کی بجائے چھری باربار غریبوں کی گردنوں پر ہی چلائی گئی۔ اب بھی اگر مراعات یافتہ طبقات پر ناجائز مرعات کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو پھر جنیوا کانفرنس کے ذریعے ملنے والی امداد بیمار ملکی معیشت کیلئے عارضی سہارے کے علاوہ کچھ اور ثابت نہیں ہو سکے گی۔ یاد رہے کہ اگر یہاں موجود سیاسی انتشار کو ختم کرنے اور مراعات یافتہ طبقات کو ٹیکس کی مد میں ان پر عائد فرائض کی ادائیگی کا پابند نہ بنایا گیا تو اس ملک میں امید کی کوئی ایسی بنیاد فراہم نہیں ہو سکے گی جس پر وہ زینے استوار کیے جاسکیں جو یہاں موجود مسائل کی چوٹیاں سر کرنے کیلئے معاون ثابت ہوں ۔ افسوس کہ اپنے ا قوال میں اس ملک کو وطن عزیز کہتے رہنے والوں کے افعال میں کچھ ایسا نظر نہیں آتا کہ جس سے بہتری کی امیدیں وابستہ کی جاسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button