ColumnJabaar Ch

لُٹ گیا کوچہ جاناں میں خزانہ دل کا۔۔۔ جبار چودھری

جبار چودھری

 

پنجاب اسمبلی میں اعتماد کاووٹ لینے میں چودھری پرویز الٰہی کی کامیابی ،پھر اسمبلی کی تحلیل اورنون لیگ کی پے در پے شکستوں کے تناظر میں پیر نصیرالدین نصیر گولڑوی صاحب کی ایک غزل کے یہ اشعاربار بار ذہن میں آرہے ہیں ۔
وہ بھی اپنے نہ ہوئے، دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہترتھا، نہ آنا دل کا
ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم
ہم دیکھتے رہ گئے ہاتھ سے جانا دل کا
پیرنصیر الدین نصیر کی یہ غزل شہنائے قوالی استادوں کے استاد نصرت فتح علی خان کی خوبصورت آوازاوردُھن میں محفوظ ہے ۔چودھری پرویز الٰہی سنیں یا رانا ثنا اللہ اورنون لیگی ہمنوااس کو اپنا قومی ترانہ بنالیں یہ یکساں مزہ بھی دے گی اور سب کے حسب حال بھی رہے گی۔نون لیگ کی پنجاب میں سیاسی ہزیمت پر لطیفہ یہ ہوا کہ بڑے میاں صاحب اور مریم نوازنے لندن میں بیٹھ کرپارٹی کی صوبائی قیادت پربرہمی کا اظہار کیاہے،نوازشریف صاحب نے رانا ثنااللہ کو تین بار فون کیا ۔وجوہات پوچھیں، رانا صاحب ان کو کیا وجہ بتاتے حالانکہ رانا صاحب کو وضاحت ان سے مانگنی چاہیے تھی کہ وجہ تو موصوف خود ہیں،لندن سے تو گویا چپک ہی گئے ہیں،ان کی بیماری اورعلاج ایک وقت تک قابل قبول بہانہ تھا سو چل گیا۔اب تو سوائے جیل جانے کے خوف کے سوا اورکیا ہے؟اس طرح کی وضاحتیں مانگنا نہ ان کوزیب دیتا ہے اور مریم نوازکو کہ پارٹی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے اور یہ خود لندن میں۔شریف خاندان کے دوسرے سپوت جو وزیراعلیٰ بننے کیلئے ہمہ وقت پنجاب میں دستیاب لیکن یہاں اتنی بڑی مشق اور پھر اس میں شکست ہوگئی اور حمزہ شہبازملک میں ہی نہیں۔مجبوریاں ہوں گی لیکن عوام کو ان مجبوریوں سے چنداں سروکار نہیں کہ سیاست میں اعتماد،عدم اعتماداورانتخابات جیسے لمحات جب بھی آتے ہیں لیڈرکو وہ اپنے درمیان بلکہ اپنے سے آگے کھڑااور لڑتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
سیاست ہو یا جنگ ہار جیت اہم ہوتی ہے، لیکن قدربہادری سے لڑنے والوں کی ۔یہ دنیا ویسے بھی بہادراوربزدل دونوں کو یاد رکھتی ہے لیکن یاد رکھنے کے الفاظ یکسر مختلف۔لڑائی میں بہادری اور بزدلی چوائس بن کرسامنے آتی ہے لیکن بہادری کو چننے والایادرکھا جاتا ہے،چاہے ہارے ہوئے لشکر میں ہی کیوں نہ ہو۔بزدلی کمزوروں کے گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں۔پنجاب میں اسمبلی کی تحلیل کوروکنے کی ناکام کوشش بزدلی کی چوائس تھی اوربدقسمتی دیکھیں کہ نون لیگ کی قیادت میں پی ڈی ایم نے یہی راستہ چنا۔عمران خان نے چھبیس نومبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا مگر یہ الگ بات کہ اس وقت عمران خان کوبھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی شکل کیاہوگی ،رکاوٹیں کیاہوں گی، اس وقت اس اعلان کو لانگ مارچ ختم کرنے کیلئے خود کو فیس سیونگ دینے کا بھی کہا گیا۔فیس سیونگ بھی ہوگی کہ اس کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے ۔ اس تحلیل کے فیصلے کے حق اور مخالفت میں ڈھیروں دلائل کے ڈھیر لیکن اس بات سے انکارنہیں کہ فیصلہ بہادری والا تھا۔اس بہادری کے جواب میں لوگ بہادری کی توقع کررہے تھے لیکن
اگر نون لیگ پاکستان و لندن کے عمائدین اسی دن اس فیصلے کا بہادری سے استقبال کرتے۔ مقابلے میں اعلان کرتے کہ عمران خان صاحب کاہے کی مشاورت جلدی کریں اسمبلی تحلیل کریں ہم مقابلے کیلئے تیارہیں تو پنجاب میں نون لیگ کا سیاسی قداونچا اورممتاز ہوتا لیکن باردیگرعرض کہ بہادری اوربزدلی چوائس، اورخوف میں مبتلالوگوں کی چوائس ہمیشہ بزدلی اورفرار۔کچھ چودھری پرویز الہٰی نے بھی نون لیگ کی ہمت بندھائی ایسے اشارے اندرکھاتے کہ مشہورہی کردیا کہ جان جائے لیکن اسمبلی نہ جائے۔نون لیگ نے کبھی عدم اعتماد اور کبھی اعتماد کا بزدلانہ کھیل شروع کردیا۔اعتماد کے ووٹ میں کیا ہوا کس طرح ہوایہ سب آپ کو معلوم ۔چلیں اگر راستہ لیناہی لیا تھا تو جیت کا یقین کرکے لیتے لیکن ’’کچا ‘‘کام کرکے پنجاب کے ووٹرزاور اپنے کارکنوں کو کمزوری اور اقتدارسے چمٹے رہنے کا پیغام دے بیٹھے ہیں۔اب نوازشریف پوچھ رہے ہیں کہ بتایاجائے دھکا کس نے دیا تھا؟آگے سے جواب آتا ہے میاں صاحب پاکستان آکردیکھ لیں کون کون دھکے دے رہا ہے لیکن بڑے میاں صاحب نے کب کبھی بہادری کا فیصلہ کیا ہے ساری سیاست ہی مصلحتوں کے سپرد۔اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی اندرہی اندردباتے رہے۔یہاں تک کہ پانامہ میں اقتدارسے نکال دیے گئے اس دن پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس رکھی۔سب کہہ رہے تھے آج میاں صاحب نہیں چھوڑیں گے۔ وہ بولیں گے لیکن میاں صاحب یہ کہہ کرٹال گئے کہ وقت آنے پر بتائیں گے ۔پھر اتنا وقت آیا کہ باجوہ سے حساب مانگا ۔انہوں نے ایسا حساب کتاب بناکردیا کہ لندن سے ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
بات کچھ ہاتھ آنے اور ہاتھ سے جانے کی ہورہی تھی تو وہی کرتے ہیں۔پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی اور نگران حکومت کیلئے بھاگ دوڑ شروع ہے ۔اب نون لیگ بندکمروں کے اجلاسوں میں ایک دوسرے سے سوال کناں کہ اگر یہی نتیجہ نکلنا تھا تو اس اعتماد کے ووٹ کا کیا فائدہ ملا؟
کہ۔۔ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا۔۔
دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی ۔انہوںنے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں کیا وہ بھی اسمبلی کی تحلیل سے بھاگ رہے تھے لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ تھا ہی نہیں۔اگر وہ عمران خان سے بغاوت کرکے اسمبلی کی تحلیل سے پھر جاتے تو اگلے سیٹ اپ میں خالی ہاتھ رہتے ۔اب اتنی بارگین تو کرہی لی کہ اگر اگلے وزیراعلیٰ نہ بھی بن سکیں تو اپنی پارٹی کیلئے کچھ نشستوں کا سامان دوبارہ کرجائیں۔چودھری پرویز الہٰی نے بھی نہ نہ کرتے اعتماد کا ووٹ لیا۔ عدالت بھی گئے ۔پہلے ہی دن ووٹ نہ لے کر کمزورہونے کا پیغام وہاں سے بھی آیا لیکن آخر میں کامیابی نے کمزورحکمت عملی پر پردہ ڈال دیا کہ فتح حکمت عملی کی خامیاں چھپادیتی ہے جبکہ شکست عیاں کردیتی ہے۔
بات کچھ ہاتھ آنے یا نہ آنے کی ہو تو شہباز شریف کے ہاتھ حکومت لیکربھی خالی کے خالی۔نوماہ پہلے جب عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو عمران خان سخت دباؤ میں تھے ۔ گزرے چارسال کی بدترین کارکردگی کا بوجھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں تھے۔پی ٹی آئی سے لوگ دور بھاگ رہے تھے اورنون لیگ کے ٹکٹ کیلئے لمبی لائن۔اس وقت نوازشریف نے حکومت سنبھالنے کی بجائے فوری الیکشن میں جانے کا فیصلہ کیالیکن شہبازشریف اورحکومت میں آنے والوں نے انہیں وہ تصویر دکھائی کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک ایسی کارکردگی ہوگی کہ نون لیگ کی عوام میں مقبولیت دوچندہوجائے گی۔ نواز شریف کا وہ فیصلہ بہادروں والا تھا لیکن شہبازشریف نے اس وقت بھی تھوڑے سے لالچ میں کمزوری دکھائی دوسری طرف عمران خان جو دباؤ میں تھے وہ للکارتے ،چنگھاڑتے ہوئے سڑکوں پر آگئے ۔ایسی بلند آواز کہ لوگوں کویقین دلاگئے کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی ۔آج شہبازشریف وزیراعظم ہوکربھی کٹہرے میں اورعمران خان اپنی حکومت کے دوران بدترین معاشی کارکردگی کے باوجود بھی بری الذمہ۔
بقول پیر نصیرالدین نصیر ساری مشق کے بعد بھی کسی کے ہاتھ کیاآیا؟اب آگے اور امتحان ہیں۔ کراچی میں نہ نہ کرتے بلدیاتی الیکشن ہوگئے۔ایم کیوایم کے بائیکاٹ میں پنجاب میں نون لیگ جیسی کمزوری سامنے آئی۔میدان کسی اور کا ہوگیا۔اب پنجاب اور کے پی میں الیکشن کا معرکہ لیکن نواز شریف واپس آنے کو تیار نہیں۔ مریم لڑیں گی دیکھ لیتے ہیں کہ حکمت عملی بہادروں والی ہوگی یا وہی رونا دھونا اورکمزورفیصلے!
پیر نصیرالدین نصیر کی اسی غزل کے مزیددو اشعار۔
دل لگی ،دل کی لگی بن کے مٹادیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یارب نہ لگانا دل کا
حسرتیں خاک ہوئیںمٹ گئے ارماں سارے
لُٹ گیا کوچہ جاناں میں خزانہ دل کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button