ColumnM Anwar Griwal

سفید پوش سے بہتر میز پوش! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

آج صبح سویرے گیارہ بجے جب ہم بیدار ہوئے، تو ناشتے کا ہتھوڑا لئے خاتونِ اوّل سرہانے کھڑی تھیں۔ سچ جانئے کہ ہمیں نیند سے بیدار بھی اسی ’’ہنگامے ‘‘ کی وجہ سے ہونا پڑا۔ کچی نیند سے ہڑبڑا کر اٹھے تو سب سے پہلی بات ناشتے کی ہی تھی۔ اگرچہ یہ فیصلہ گزشتہ شا م ہی ہونا چاہیے تھا کہ صبح ناشتہ کیا ہوگا؟ مگر اتوار کی کہانی عام دنوں سے مختلف ہوتی ہے۔ آپس کی بات ہے ،ہم نے تو یہی محسوس کیا ہے کہ دنیا کا اہم ترین ایشو ’’اج کیہہ پکائیے‘‘ ہے۔ جس سے ہر سفید پوش اور شریف آدمی کو واسطہ پڑتا ہے۔ بہت غریب کو تو دال اور آلو کے شوربے سے فرصت نہیں ملتی کہ اُسے اِدھر اُدھر کی سوجھے۔ آلو بھی اُچھلتی ہوئی گیند کی طرح ہے، کبھی قیمت آسمان پر کبھی زمین پر، آلو جیسا بھی ہے، غریب کا بہت بڑا معاون ہے، اگر اِسے ’’معاونِ خصوصی‘‘ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ حکمرانوں کے معاونین کا عہدہ تو قومی خزانے کو لوٹنے میں معاون بنتا ہے، جبکہ آلو غریب کا اصل مدد گارہے۔ بات ناشتے سے چلی تھی، پہنچ گئی آلو تک۔ آ لو کے ضمن میں غریب تو ویسے ہی بدنام ہے ، اب یہ سارے مسائل غریب کی بجائے ’’سفید پوش‘‘ کے ہیں۔ سفید پوشی ایک بھرم کا نام
ہے، کہ حقیقت میں کچھ ہوتا ہے، دکھائی کچھ اور دیتا ہے۔ کتنے غم ہیں کہ وہ دل میں چھپاتا ہے ، وہ اپنے اوپر کتنا جبر کرتا اور دراصل کتنا صبر کرتا ہے۔ وہ دال روٹی کھاتا ہے اور سفید کپڑے پہنتا ہے، دیکھنے والا یہی جانتا ہے، کہ ’’سب اچھا ہے‘‘۔دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔
یہ بھی مت جانئے کہ محترمہ ناشتہ کرنے کا حکم دے رہی تھیں، تحکمانہ لہجے میں تو ناشتہ زہر مار ہی کیا جاسکتا ہے، مگریہاں حکم ناشتے کے بندوبست کا تھا۔ تعمیلِ ارشاد کے بغیر گزارہ بھی نہیں، کہ مقتدر لوگ حکم چلانے کے عادی ہوتے ہیں، اور ہم ہیں کہ غلامی کے ایسے خوگر ہوئے ہیں کہ حکم عدولی کا تصور ذہن کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ باہر نکلے تو سفید پوشی کا خیال آیا، دھوتی
کرتا تو اپنا قومی نشان ہے، مگر یار لوگ اس لباس کو اگر غربت کے زمرے میں نہیں بھی لیتے تو کم از کم دھوتی پوش کو اَن پڑھ ضرور جانتے ہیں۔ چونکہ اخلاقیات کا چہلم گزرے بھی عرصہ ہوگیا ہے، اپنے معاشرے میں گالی گلوچ اور تضحیک کا سلسلہ مستقل حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے، اس لئے اب کسی کو اَن پڑھ کم اور جاہل وغیرہ زیادہ جانا جاتا ہے، اُسی نسبت سے اُس کو کم تر جانا جاتا ہے۔ یوں ہمیں سفید پوشی کے ساتھ اپنے پڑھے لکھے ہونے کا بھرم بھی قائم رکھنا پڑتا ہے۔
یہ بھی نہ جانا جائے کہ ’’خاتونِ اول‘‘ ناشتہ تیار کرنے کا حکم دے رہی تھیں، گھر کا ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ ہونے کے باوجود ناشتہ تیار کرنے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔جو بھائی گھروں میں ناشتہ یا دیگر کھانے پکانے کی خدمات سرانجام دیتے ہیں، وہ بھی دل چھوٹا نہ کریں، ’’ہر مظلوم‘‘ کو کوئی نہ کوئی خدمت سرانجام دینا ہوتی ہے، محنت سے مہارتیں حاصل ہو ہی جاتی ہیں، بعض لوگ صرف ساگ بنا سکتے ہیں، اور بعض کو صرف باتیں بنانی آتی ہیں، چلیں کچھ نہ کچھ تو آتا ہے، باتیں بھی تو ہر کوئی نہیں بنا سکتا۔ باتیں بنانے والے کو اس پریشانی کا سامنا بھی ہوتا ہے کہ کہ باتیں سننے والا بھی کوئی ہو، ایسا صابر سامع مل جانا بھی قسمت کی بات ہوتی ہے، بعض تو قسمت کے ایسے دھنی ہوتے ہیں کہ اسے ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو سننے پر مجبور ہوتے ہیں، ماتحت ہو، یا غلام یا پھر بے بس بے چارہ۔ باتیں کرنے والے کئی لوگ سامنے والی کی ذہنی پہنچ کے محتاج نہیں ہوتے، اُن کا کام باتیں کرنا ہے، کوئی سمجھے یا نہ ، یہ اُن کا مسئلہ ہی نہیں۔ بہر حال ناشتہ کا کچھ سامان تو ہم نے خرید لیا اور بہت کچھ باتوں سے پورا کرنے کی کوشش کی، چونکہ باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا،اس لئے بہت سی باتیں ہمیں بھی سننی پڑیں۔ گویا کچھ کھانے کی چیزیں کھائیں، کچھ غصہ کھایا (مقتدر پارٹی نے) اور کچھ صبر کے گھونٹ بھرے (جن پر غصہ نکالا گیا تھا)۔
سفید پوشی کا بھرم اب نہیں بچتا، اِس روز روز کی کھچ کھچ سے ہم نے اپنے (یعنی سفید پوشوں کیلئے) ایک راستہ نکالا ہے، کہ ہم لوگ سفید پوشی سے توبہ کرلیں، گہرے رنگ کے کپڑے پہنیں، سردیوں میں تو گہرے رنگ کے کپڑے ہفتہ بھر بھی زیبِ تن کر کے حاسدین کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے، لیکن یہ خیال بھی آتا ہے کہ سفید پوش تو جیسے کیسے کرکے گہرے کپڑے پہن لیں گے، وقت بھی گزر جائے گا، مگر اِن لوگوں کیلئے حکومتوں کے تیور کچھ اچھے نہیں لگتے، بات کپڑوں تک ہی محدود نہیں، پیٹ بھی پالنا ہے، چھوٹے سے گھر کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے،بچوں کی تعلیم بھی اخراجات مانگتی ہے، زندگی کے اور بھی بہت سے تقاضے ہیں جنہیں نبھانا ہوتا ہے،جب حکومتیں سفید پوش کے تن سے کپڑا پھاڑنے پر آمادہ ہے، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ اِس وقت ملک کی بے حد خراب معاشی حالت پرمرکز اور تمام صوبوں کی حکومتیں ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ سارا قصور کسی ایک حکومت کا نہیں، اس میں سب شامل اور ملوث ہیں۔ جو حکومت جس حکومت پر بھی ملبہ ڈالے ، ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ وہ سارا ملبہ ’’سفید پوش ‘‘ اور غریب پر ہی آکر گرتا ہے۔ اشرافیہ خواہ وہ مقتدر طبقات ہوں یا پھر معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ ، ہمیشہ ظلم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ سفید پوش سے تو میز پوش ہی بہتر ہے جس پر ہر چیز سلیقے سے سجائی جاتی ہے اور اس کے روز و شب انواع اقسام کی نعمتوں کی ہمراہی میں گزرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button