ColumnNasir Sherazi

مرغ نہیں پاکستان بچائیے .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

دیسی مرغ نے کیا کمال قسمت پائی ہے جب تک زندہ رہتا ہے عیش کرتا ہے ذبح ہونے کے بعد بھی اس کے حصے میں نیک نامی آتی ہے۔ باریک سی آواز میں پہلی بانگ دیتا ہے تو مالک متوجہ ہوجاتا ہے اور فوراً ہی اس کے حرم میں متعدد مرغیاں داخل کردی جاتی ہیں اب تو اصول بن چکا ہے کہ مرغبانی کرنا چاہتے ہیں تو کم ازکم چار مرغیاں اور ایک مرغ لیں پھر انڈوں کی فکر ہوگی نہ گوشت کی۔ گھر کی مرغی کودال برابر سمجھ لیں تو بھی ذائقہ مرغی کا ہی ملتا ہے، دال تو خواہ مخواہ بدنام ہوتی ہے، دیسی مرغ اپنی ذمہ داری خوب نبھاتا ہے، اسے کھانے کے لیے کچھ ڈالیں کبھی تنہا نہیں کھائے گا بلکہ بہ آواز بلند اپنی جملہ بیگمات کومطلع کرے گا جو بھائی چلی آئیںگی، انہیں خوش آمدید کہے گا جو کسی کونے میں دبکی بیٹھی ہوگی اسے خود لینے چلا جائے گا، جب تک لقمہ ان کی چونچ تک نہ پہنچے گا یہ کھائے گا نہیں صرف چونچ میں پکڑ کر اِدھر اُدھر کرتارہے گا، یہ غیرت کا پیکر نظر آتا ہے، مرغیوں کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اس پر کوئی حرف نہیں آنے دیتا، انہیں چیلوں اور بلیوں سے بچاتا ہے کوئی مرغی کڑک ہوجائے تو بھی اس کا خوب خیال کرتا ہے اور کڑک پن ختم ہونے تک اُسے دن یا رات کے کسی پہر تنگ نہیں کرتا، اُسے ہر دم اپنی عزت کا خیال رہتا ہے، سر اٹھاکر چلتا ہے، کلغی کی شکل میں سر پر رکھے تاج کو مٹی میں نہیں رولتا، ہمیشہ اونچی آواز میں مرغیوں سے مخاطب ہوتا ہے، اپنے اخلاق و کردار سے اپنے گھرانے کی سربراہی کرتا ہے تمام مرغیاں اس کے حکم کی تعمیل کرکے خوشی محسوس کرتی ہیں، کیونکہ یہ ہر معاملے میں انصاف سے کام لیتا ہے، مرغیاں اسے پیر سمجھ کر اس کی خدمت کرتی ہیں اس کے آگے چوں چرا نہیں کرتیں۔ اسے تو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے اشرف المخلوقات ہونا چاہیے تھا لیکن خدا نے یہ مقام حضرت انسان کے حصے میں رکھا ہے جسے بہت کچھ دینے کے ساتھ ساتھ عقل سلیم دی اسے علم بھی دیا لیکن یہ معاملات اتنا بھی کھرا نہیں جتنا دیسی مرغ۔
ولایتی مرغ کہنے کو تو ولایتی کہلاتا ہے لیکن یہ دیسی مرغ کی نسبت ہر معاملے میں بہت پیچھے ہے، اب اس کا رنگ سفید ہوتا ہے مزید اس کے پلے کچھ نہیں ہوتا یہ جتنا مرضی صحت من ہو دیسی مرغ کا مقابلہ نہیں کرسکتا، زیادہ عرصہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، بھاگ دوڑ تو بالکل اس کے بس کی بات نہیں، چار مرغیاں تو بہت دور کی بات اس سے ایک مرغی بھی بہ مشکل ہی سنبھالی جاتی ہے۔ یہ حد درجہ ڈرپوک واقع ہوا ہے مرغی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتا یہی وجہ ہے کہ مرغی اس پر حکم چلاتی ہے یہ صرف تعمیل کرتا ہے اس کی جرأت نہیں کہ مرغی کے ساتھ بلند آواز سے بات کرسکے، مرغی کھاپی کر جو بچا کچھا اس کے سامنے رکھ دے چپ چاپ کھالیتا ہے، گھر میں ولایتی مرغی راج کرتی ہے یہ صرف حکم بجالاتا ہے، یوں سمجھ لیجئے مرغی پیر ہوتی ہے یہ مرید کے درجے پر فائز ہوتا ہے، ولایتی مرغی اپنی مرضی سے جہاں چاہے پھرتی رہے اس کی مجال نہیں یہ پوچھے کہ کہاں گئی تھی کہاں پھر پھراکر دن گذار کر اب گھر آئی ہو، اس کی مرضی ہو تو مرغ پر ایک نگاہ غلط ڈال کر پھر کہیں نکل جائے اور رات بھر واپس نہ آئے، ولایتی مرغ اس سے کچھ نہیں پوچھ سکتا، ولایتی مرغی بلاناغہ انڈا دیتی ہے جبکہ مرغ انڈے گننے میں خوش ہوتا ہے اور مرغی کے معاملات میں کوئی روک ٹوک نہیں کرتا بلکہ اس کی طرف سے قریباً آنکھیں بند ہی رکھتا ہے، ولایتی مرغ رن مرید ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی کمائی پر عیش کرتا ہے، یہی بڑی وجہ ہے کہ معاشرے میں اسے وہ عزت وہ مقام حاصل نہیں جو دیسی مرغ کو حاصل ہے۔
مرغ دیسی ہو یا ولایتی اس کی کسی آڈیو یا ویڈیو سے معاشرے میں طوفان نہیں آتا، وہی کام انسان کرلے جو مرغ دن دہاڑے کرتا رہتا ہے تو ایسا طوفان آتا ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا، وجہ اس کی صرف ایک ہے، مرغ جو کچھ کرتا پھرتا ہے ، اُسے اسی کام کے لیے پیدا کیاگیا ہے جبکہ انسان کو صرف اس کام کے لیے پیدا نہیں کیاگیا لیکن انسان نے اپنے آپ کو خود بے آبرو کرلیا ہے، ستم بالائے ستم انسان اپنے ان کرتوتوں پر شرمندہ نہیں ہورہا اگر کبھی کسی نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ تم یہ مرغوں والی حرکتیں کرتے رہے ہو تو بجائے اس کے کہ گردن اور آنکھیں نیچی کرتا، دبی ہوئی آواز میں کہتا ہاں مجھے اپنی مرغیانا حرکتوں پر افسوس و شرمندگی ہے، جواب میں کہتا ہے ہاں میں یہ سب کچھ کرتا تھا، بات یہیں ختم ہوجاتی تو پھر بھی ٹھکانے لگتی آڈیو اور ویڈیو ثبوت پیش کردیئے کہ سب کام جاری ہی نہیں رکھے بلکہ زیادہ زور و شور سے اس شوق کو بام عروج تک پہنچایا، ایک ویڈیو میں وہ تین مرغیوں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے مرغیاں تو دیسی ہیں لیکن ان پر تعلیم وتربیت کے دوران ولایتی رنگ غالب آچکا ہے، مرغ کا بھی یہی حال ہے اس کا تعلق تو ایک غیر ترقی یافتہ دیہاتی علاقے سے تھا لیکن وہ بھی ولایت کا اسیر ہوگیا، گذشتہ کئی برسوں سے وہ دیسی مرغ ہونے کا دکھاوا کرتا رہا ہے لیکن اندر سے سو فیصد ولایتی مرغ بن چکا ہے، بتانے والے بتاتے ہیں کہ ولایت نے اُسے امریکی کی کٹوری تک پہنچایا جبکہ امریکہ نے کئی برس تک اسے دانہ کھلانے کے بعد مرغ دنگل میں اُتارا، ابتدا میں تو اس نے خوب اچھل کود کرکے اپنے مخالف پر حملے کیے لیکن جلد ہی اس کا سانس پھول گیا، کان زخمی ہوگئے اور چونچ بھی، وہ کچھ نہ کرسکی جس کے لیے اسے طویل عرصہ تک تیز کیاگیا تھا، اسے اپنی شکست کا یقین ہوچکا ہے لیکن ڈھٹائی آڑے آرہی ہے، وہ شکست تسلیم نہیں کرنا چاہتا، برسوں قبل وہ دنگل کے ریفری پر بے پناہ اعتماد کرتا تھا اور دنیا کو دکھاتا تھا کہ دیکھو ریفری نے انگلی کھڑی کردی ہے، اب ریفری نے پورا بازو اٹھادیا ہے مگر وہ اِدھر نہیں دیکھ رہا، پہلے دنگل میں اُسے سخت زخم آئے ہیں جو نہ نظر آنے والے زخم ہیں، نظرآنے والے زخم گہرے ہیں نہ شدید لیکن اس نے ان پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں حالانکہ یہی تو وہ زخم تھے جو دنیا بھر کو دکھانے والے تھے، اس کے طبیب اور اس کے پیر نے اسے مشورہ دیا ہے کہ وہ علاج کے بہانے ولایت نکل جائے، کچھ ریسٹ کرے، کچھ موج میلہ کرے اور وقت کا انتظار کرے شاید کچھ وقت گذرنے کے بعد وقت اس پر مہربان ہوجائے، وہ ولایت جانے کے لیے تیاریاں کررہا ہے لیکن اس ادا کردہ لفظ اب اس کے پائوں کی زنجیر بنے ہیں، وہ کبھی دوسروں کو فرار ہونے کے طعنے دیتا تھا اب وہ غصے میں اس کا پیچھا کریں گے، اس کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس نے کبھی اپنے آپ کو میدان کا مرغ سمجھا ہی نہیں تھا وہ تو اپنے آپ کو ٹائیگر سمجھتا تھا ایسا ٹائیگر جسے بھیڑوں کے ریوڑ کا سردار بنادیا جائے تو بھیڑیں بھی ٹائیگر بن جاتی ہیں۔
ملک بھر میں ایک خاص کاروباری طبقہ دہائی دے رہا ہے کہ مرغ کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے اس کے گوشت کی قیمت 520 روپے فی کلو ہوچکی ہے، عوام پر 142 کروڑ روپے روزانہ کا بوجھ آگیا ہے لہٰذا سویا بین کے جہازوں کو کلیئر کیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ اس طبقے نے ملک اور اس کے بسنے والوں کو جی بھر کے لوٹا ہے، اہل پاکستان مرغ کے گوشت کی بجائے دال سبزی کھالیں گے، مریں گے نہیں، یہ وقت مرغ بچانے کا نہیں ملک بچانے کا ہے، پس ملک بچائیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button