Columnمحمد مبشر انوار

درپیش مسائل اور سیاست .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

پاکستان کو بلاوجہ بحرانوں کی سرزمین نہیں کہا جاتا بلکہ اس کے پس پردہ ایسے تلخ حقائق موجود ہیں کہ جن کے باعث پاکستان ہمیشہ سے ہی مسائل کے بھنور میں ڈوبا رہتا ہے۔ ان مسائل سے نبرد آزما ہونا اتنا بھی مشکل نہیں کہ کئی ایک ممالک ان سے بھی زیادہ گھمبیر مسائل سے عہدہ برآء ہو چکے ہیں تاہم پاکستانی مسائل قدرتی آفات کی بجائے اس کی اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں ،جس میں ذاتی انا ،ضد اور ذاتی مفادات شامل ہیں۔ان عناصر کے باعث ریاست پاکستان ایک جمود کا شکار نظر آتی ہے اور اس کا سفر منجمد نظر آتا ہے گو کہ حرکت انتہائی تیز دکھائی دیتی ہے لیکن یہ حرکت پاکستان کو دلدل سے نکالنے کی بجائے اس میں مزید دھنساتی نظر آتی ہے۔اس وقت عالمی سطح پر جو معاملات نظر آتے ہیں،ان میں ریاستوں کی اولین ترجیح اپنے شہریوں کو خوراک اور ایندھن کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے کہ ایک طرف روس اور یوکرین کی جنگ عروج کی طرف بڑھ رہی ہے یا یوں سمجھ لیں کہ فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھتی نظر آ رہی ہے اور دوسری طرف چین کی تبت میں پیشقدمی مسلسل جاری ہے۔اصل مسئلہ روس اور یوکرین کی جنگ کا ہے کہ جہاں سے دنیا کی اکثریت کو گندم فراہم کی جاتی ہے،اس کی بندرگاہیں اس وقت روس کے قبضہ میں ہیں اور روس کی مرضی کے بغیر گندم کی فراہمی ممکن نہیں ہو رہی ۔گندم کا ایک شدید ترین بحران سامنے کھڑا نظر آ رہا ہے اور عالمی رہنما اس کو حل کرنے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں لیکن اس کے لئے روس کی شرائط مانے بغیر کوئی چارہ نظر نہیںآتا ،اس کا حل کیا نکلے گا ،فی الوقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ یہی صورتحال ایندھن کے حوالے سے درپیش ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی
اکثریت روس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور امریکی خواہشات کے برعکس،تیل پیدا کرنے والاہر ملک،اپنی معاشی صورتحال اور ممکنہ مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیل کی پیداوار میں اضافہ کے لئے تیار نہیں ۔روس ،گو کہ عالمی مارکیٹ کے برعکس ،اپنا تیل ارزاں نرخوں پر بیچ رہا ہے لیکن روس کی نئی مارکیٹ یورپ کی بجائے ایشیائی ممالک نظر آتے ہیں اور وہ یورپ کو سبق سکھانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر آتا ہے کہ کسی طرح یورپ پر امریکی اثرورسوخ کو زائل کرسکے۔
بہرکیف پاکستان جیسے ملک کے لئے ،اس وقت ایندھن اور خوراک کے دو بڑے مسائل سامنے کھڑے ہیں،ایک ایسا ملک جسے زرعی ملک کا درجہ رہا ہو،آج ناعاقبت اندیش اور کوتاہ قیادتوں کے غلط فیصلوں کے باعث،خوراک کے لئے دوسرے ممالک کا مرہون ہے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ اس سے متصل بھارتی مشرقی پنجاب ہے کہ جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے پانچ گنا بڑے ملک کی خوراکی ضروریات کو 80-90فیصد بھارتی مشرقی پنجاب پورا کرتا ہے،جبکہ پاکستان کو اس وقت خوارک کے لالے پڑے نظر آتے ہیں۔ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو گندم درآمد کرنا پڑتی ہے،یہ امر ایک زرعی ملک کے لئے انتہائی باعث شرم ہے لیکن ارباب اختیار کے نزدیک یہ ہزیمت کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔پاکستان کو اللہ رب العزت نے بے پناہ وسائل سے نواز رکھا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے ان میسرقدرتی و ارزاںوسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے،بیرون ملک سے مہنگے داموں وسائل کو درآمد کرنا صرف اس لئے موزوں خیال کیا کہ اس سے ان کی ذاتی تجوریاں بھری جا سکیں۔ماہرین کے مطابق پاکستان تقریبا پچاس ہزار میگا واٹ کی پن بچلی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ،جو انتہائی سستے داموں میسر ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی کہیں یا بد نیتی کہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے یہ سستی بجلی پیدا کرنے کی بجائے ،فرنس آئل سے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی کا انتخاب کیااور ایسے معاہدے کئے ہیں کہ جن سے ریاستی وسائل کو انتہائی بے رحمی و بیدردی سے خسارے کی کان میں جھونکا ہے۔دوسری طرف بھارت ہے کہ جس نے سندھ طاس معاہدے کے بعد آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف اپنے حصے کے دریاؤں کا پانی ذخیرہ کر رکھا ہے بلکہ اسی معاہدے کی رو سے پاکستان کے حصہ میں آنے والے دریاؤں کے پانی کو بھی ذخیرہ کرنے کا پلان کئے بیٹھا ہے۔ ان ذخائر سے بھارت نہ صرف سستی ترین بجلی پیدا کررہا ہے بلکہ پورا سال اپنے کھیتوں کو سرسبز و شاداب رکھ کر اپنے شہریوں کے لئے وافر خوراک کا بندوبست رکھتا ہے نیزضرورت سے زیادہ خوراک بیرون ملک برآمد کر کے زر مبادلہ کے ذخائر بھی حاصل کرتا ہے۔زرعی
تحقیق کے مراکز قائم کر کے اپنے کسانوں کو نہ صرف بہترین بیج فراہم کرتا ہے بلکہ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے سستی کھاد بھی مہیا کرتا ہے تا کہ اس کا کسان خوشحال ہو اور ملک میں کسی بھی طرح خوراک کمیاب نہ ہو۔
بھارت آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خوارک کی ضروریات اپنے ملک سے ہی پوری ہوتی ہے،بدقسمتی سے پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی دو اعشاریہ آٹھ تین فیصدکی شرح سے بڑھ رہی ہے،جو موجودہ حالا ت میں بہت زیادہ ہے۔ بطور اسلامی ریاست ،یہاں شرح آبادی پر بات کرنا بہت دشوار ہے لیکن حقائق سے نظریں بھی نہیں چرائی جا سکتی کہ ماضی کی حکومتوں نے سرسبز کھیتوں کھلیانوں کو سیمنٹ ،سرئیے اور ریت سے تبدیل کرکے ،خوراک میں خود کفالت کو دوسروں کا محتاج کردیا ہے۔آج پاکستان اپنے شہریوں کو خوراک مہیاکرنے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اور عالمی حالات ایسے ہیں کہ اگر معاملات فوری حل نہیں ہوتے تو عین ممکن ہے کہ پاکستان اپنے شہریوں کے لئے گندم حاصل نہ کر پائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ انتہائی مہنگے داموں یہ گندم حاصل کی جائے۔کیا ملکی معاشی صورتحال اس مہنگی گندم کو درآمد کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟کہ اس وقت بھی شنید ہے کہ سبزیوں ،خوردنی تیل کے سینکڑوں کنٹینر پورٹ پر کھڑے،ان اشیائے صرف کے زیاں کے منتظر ہیں کہ حکومت پاکستان ؍سٹیٹ بنک آف پاکستان ان کنیٹنرز کو کلیئر کرنے کے لئے ایل سیز کھولنے سے قاصر ہے۔بارہا ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کے کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ نہ صرف یہاں آبی ذخائر ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کئے جائیں،نئی ہاؤسنگ سوسائیٹز پر پابندی لگائی جائے اور شرح آبادی کو قابو کرنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں تا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے مسائل میں اضافہ نہ ہو ۔بدقسمتی یہ ہے کہ آبی ذخائر تعمیر نہ کرنے کے پس پردہ اشرافیہ کے ذاتی مفادات کارفرما ہیں ،مہنگے بجلی گھروں سے بجلی پیدا کرنے کا ہنگامی انتظام محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں شروع ہوا لیکن آج یہ حکمرانوں کے لئے سونے کی کان جبکہ ریاست پاکستان کے لئے وبال جان بن چکے ہیں،طرہ تماشہ یہ کہ اننجی بجلی گھروں سے کئے گئے بد نیتی پر مبنی معاہدے،مسلسل ریاست پاکستان کے وسائل ہڑپ کئے جا رہے ہیں۔ آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے اکثر ناقدین موجودہ آبی ذخائر کے متاثرین کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان کو ہنوز زمینوں کے معاوضہ سے محروم رکھا گیا ہے تو کیا صرف اس وجہ سے نئے آبی ذخائر تعمیر نہیں ہونے چاہئیں یا اس مسئلے کو حل کرکے نئے آبی ذخائر تعمیر کئے جائیں؟یا صرف اس بنیاد پر اشرافیہ کو ملکی وسائل لوٹنے کی کھلی چھٹی ملنی چاہئے؟اسی طرح سونا اگلتی زمینوں کو ریت سیمنٹ سرئیے میں تبدیل کرنے سے کون روکے گاکہ طاقتور خود ا س کھیل میں شامل ہیں اور ہاؤسنگ سوسائٹز سے مال بنایا جا رہا ہے۔اس وقت بھی بدقسمتی اشرافیہ و طاقتوروں کے نزدیک اولین ترجیح اپنا اپنا اقتدار بچانا نظر آ رہا ہے ،اپنی انا و ضد کی تکمیل اہمیت کی حامل جبکہ دروازے پر دستک دیتے ان مسائل کی طرف کسی کی توجہ نظر نہیں آتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button