ColumnNadeem

جاوید چودھری کے انکشافات مگر سوال اٹھتا ہے .. ندیم زعیم

ندیم زعیم

 

جاوید چودھری کا انکشافات سے بھرپور کالم پڑھ کر حیرت یہ ہوئی ہے کہ کس انداز میں ریٹائرڈ جنرل باجوہ اپنے یک طرفہ موقف کو پروموٹ کر رہے ہیں اور ظاہر ہے آج بھی وہ اپنے الوداعی قول کے مطابق گمنامی کی زندگی میں نہیں گئے۔ کالم کا مرکزی نقطہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عمران خان نے کم از کم تین بار آرمی چیف جنرل باجوہ کو مختلف اوقات میں اس وقت توسیع کی آفر بھیجی یا دی جب وہ عوامی جلسوں میں انہیں میر جعفر اور میر صادق کہہ رہےتھے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے ان دنوں کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو عمران یہ کہتے بھی نظر آئے کہ وہ سیاستدانوں کا احتساب نہیں کرپائے کیونکہ نیب ان کے کنڑول میں نہ تھا بلکہ کسی اور (اسٹیبلشمنٹ ) کے نیچے کام کررہا تھا جسے بعد میں واشگاف الفاظ میں انہوں نے اس طرح سے بیان کیا کہ نیب کو باجوہ صاحب کنڑول کرتے تھے جسے چاہتے پکڑا دیتے اور جسے چاہتے چھڑوا دیتے اور ایک وقت میں تو سابق وزیراعظم نے یہاں تک بیان کیا کہ سابق آرمی چیف مجھے کہتے تھے کہ احتساب کو چھوڑیں اورمعیشت پر کام کریں ۔ واپس آتے ہیں کالم کی طرف تو جب ساری طاقت یعنی عدلیہ، بیورو کریسی اور پولیس حتی کہ ساری پولیٹیکل انجینئرنگ کا کنٹرول جنرل باجوہ اورانکی اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھا تو عمران خان کو اپنی حکومت بچانے اور امپورٹڈ حکومت گرانے کیلئے کس سے ملاقات کرنی چاہیے تھی؟
کالم کے مطابق جنرل باجوہ نے توسیع کی آفر کو تین بار قبول کرنے سے انکار کیوں کیا جبکہ وہ پہلے ہی توسیع پر بیٹھے ہوئے تھے لہٰذا اسے ہائی ویلیوز کے ساتھ جوڑنا تو درست نہ ہوگا،تو پھر آفر کو قبول نہ کرنے کی وجہ اس وقت کے حالات میں چھپی تھی۔ سابق آرمی چیف کے پاس کوئی ایسا آپشن موجود ہی نہ تھاکیونکہ اس وقت کی سیاسی انجینئرنگ (عدم اعتماد کی تحریک) میں صاف صاف اسٹیبلشمنٹ نظر آرہی تھی اور سارا ملبہ جنرل باجوہ پرگرنے والا تھا روزانہ فوج جسے معتبر ادارے کو سوشل میڈیا پر برابھلا کہا جارہاتھا۔ ٹوئیٹر اسپیسزپر آرمی کے ادارے کا دفاع مشکل ہوگیا تھا ایسے وقت میں صحافیوں پر مقدمات کرائے جارہےتھے توتوسیع کی قبولیت سے ایک بڑا عوامی بلکہ فوجی ردعمل بھی آسکتا تھا ۔
کالم کے مطابق جنرل باجوہ وزیراعظم عمران خان کو کبھی پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بنانے کا مشورہ دیتے رہے تو کبھی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جگہ علیم خان کو لانے کیلئے مبینہ انٹیلی جنس رپورٹس کا استعمال کرتے رہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آرمی چیف کا وہ کونسا فیصلہ تھا جس کو اپنے زیر تسلط نہیں سمجھ رہے تھے؟ اور وہ سیاست اور حکومتی معاملات میں کس حدتک ملوث اور مداخلت کررہے تھے۔
جنرل باجوہ نے جاوید چودھری کے اس کالم کے ذریعے یہ بھی بتا دیا کہ وہ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے خلاف نہیں تھے تو پھر ایک ماہ تک جنرل عاصم منیر کے نام کے بغیر سمری بھیج کر ڈٹے کیوں رہے کیونکہ جنرل باجوہ عاصم منیر کی جگہ کسی اور کوآرمی چیف چاہتے تھے اور وہ نام جاوید چودھری نے کالم میں نہیں لکھاکیونکہ لکھ دیتے تو جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسا انٹرویو کراتے نہ ملاقات کا موقع ملتا لہٰذا اسے ’’یمبیڈڈ جرنلزم‘‘کی بہترین مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔جس میں میڈیا کو ایک ٹول کے طورپر استعمال کرتے ہوئے اپنے اثرورسوخ میں مخصوص حقائق دکھائے جاتےہیں اور وہ سارے حالات کی پیڈنگ کرنے کی بجائے بتانے والے کی لائنوں پرچلتے ہوئے سٹوری چھاپ دی جاتی ہے۔ ان حالات میں ایک بات حقیقت ہے کہ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے مشکل فیصلے کے پیچھے ڈٹ جانے والی واحد شخصیت کا نام نواز شریف ہے جنہوں نے جنرل باجوہ کا دبائو بھی برداشت کیا ۔
عمران خان کی سیاست کا اولین مقصد اسٹیٹس کو کی کرداروں کا احتساب کرنا ہے یعنی کرپشن کے پیسے کی ریکوری اور ملک کیلئے کئے گئے کرپٹ فیصلوں کا حساب کتاب اور اس کیلئے نئے آرمی چیف کا بھی’’لائیک مائنڈڈ ‘‘یعنی ہم خیال ہونا ضروری تھا لہٰذا آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع کی آفر کی گئی تاکہ الیکشن کے بعد پورے مینڈیٹ کےساتھ نیا وزیراعظم آئے اور نیا آرمی چیف تعینات کرے اور اُس وقت یقینی طور پر الیکشن کرا دئیے جاتے تو عمران خان کی مقبولیت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا لہٰذا یہاں بھی عمران خان کی حکمت عملی اگلے چند ماہ کیلئے غلط نہ تھی لیکن کالم میں اسے ایسے لکھا گیا جیسے عمران جنرل باجوہ کی قابلیت کے اسیر تھےیا خوامخواہ وہ انہیں اپنی رجیم چینج آپریشن کا ذمہ دار ٹھہرا کر میر صادق اور میر جعفر کے القابات سے نوازرہے تھے بلکہ وہ مستقبل کو دیکھ کر اپنی سیاسی راہوں کا تعین کرتے دکھائی دئیے ۔فوج کے ڈیکورم کو توڑتے ہوئےلیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس کیلئے کیوں اور کس نے بھیجا کیا ترجمان پاک فوج ڈی جی آئی ایس پی آر کے بات پرعوام کو یقین نہ تھا؟
جاوید چودھری کے کالم میں ایک اور سٹوری نےقابل غور جگہ لی وہ تھی کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے ملک محمد احمد کے ذریعے میاں نواز شریف کو بھی پیغام بھیج دیا کہ وہ اب آفرز کے باوجود توسیع نہیں لینا چاہتے ۔اس میں بھی سیاق وسباق کی ضرورت ہے کہ پہلی بات یہ کہ کیا عمران خان کی یہ بات سچ ہےکہ جنرل باجوہ دونوں اطراف رابطے میں تھے اور کیا مریم نواز کا جانا اور اسحاق ڈار کا مقدمات ختم کرکے لندن سے واپس آنا انہی رابطوں کی ایک کڑی تھی تو پھر نیوٹرل والی کہانی کہاں گئی؟ بہرحال جنرل باجوہ نے ملک محمد احمد کے ذریعے نوازشریف کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ وہ توسیع نہیں لے رہے سوال یہ ہے کہ جنرل باجوہ کو نوازشریف کو پیغام پہنچانے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی کیا وہ بھی توسیع کے حق میں تھے ؟
نوازشریف جن کی حکومت رخصت کرنے اور انھیں سزا دلانے کے پیچھے ہمیشہ جنرل باجوہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتارہا،درحقیقت انکا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘اور’’مجھے کیوں نکالا ‘‘صرف جنرل باجوہ کو ہی بلیم کرتاتھا لیکن جب وہ ریٹائرڈ ہوئےتو مریم نواز کا کوئی بیان سامنے آیا نہ نوازشریف نے انکی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھایا عوام کی نظروں سے ہٹ کر یہ سمجھوتے کب ہوئے ؟
اگر باجوہ صاحب کو یہ لگتاہے کہ ان کے خلاف ٹرینڈ بننے سے ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو انھیں اپنی طاقت میں کئے گئے فیصلوں پرایک دفعہ نظر دہرانا ہوگی ۔پاک فوج کا امیج کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا جتنا کھل کرفوج نےآپ کے دور میں طاقت کا استعمال کیا اتنا ۔۔ڈکٹیٹرشپس۔۔آمریتوں کے ادوار میں بھی نہیں ہوا ۔پالیسیوں کے یوٹرن جنہیں چور بنا کر پیش کیا انھیں حکومت دے دی۔ ادارے اس حد تک کمزور کردئیے کہ پولیس افسران ،عدلیہ اور بیوروکریٹس یہ کہنے پر مجبور ہوگئےکہ ہمیں اوپر سے آرڈر ہیں اور ہم جائز ناجائز کے لئے مجبور ہیں یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ صحافیوں کے ذریعے ایسی کہانیاں پلانٹ کرنے سے کیاآپ کے چھ سالہ دور کےفیصلوں کے داغ دھل پائیں گے ؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button