ColumnImtiaz Aasi

قومی یکجہتی کی ضرورت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

قوموں پر مشکلات کوئی نئی بات نہیں قوم کسی معاملے پر متحد ہو جائے تو بڑی سے بڑی مشکل سے نکلا جا سکتا ہے۔آرمی چیف عاصم منیر نے ٹھیک کہا ہے ہمارا ملک اس وقت نازک موڑ پر ہے۔ بھلا اس میں شک والی کون سی بات ہے ایک طرف ہم معاشی بدحالی کا شکار ہیں تو دوسری طرف ہمیں داخلی امن کاسامنا ہے۔ہم جمہوریت کے بہت حامی ہیں یہ پارلیمانی جمہوریت کا کیا دھرا ہے مشکل کی اس گھڑی میں سیاسی جماعتیں یکجہتی کا مظاہر ہ کرنے سے قاصر ہیں۔وفاقی حکومت نے توانائی بچت پلان کا اعلان کیا تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے اس منصوبے پر عمل درآمد سے انکار کر دیا ہے جو افسوناک بات ہے۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے توانائی بچت پلان کے ضمن میں پنجاب اور خیبر پختونخواکے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی تھی جبکہ صوبوں کا موقف ہے انہیں اس سلسلے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔عجیب تماشا ہے ۔اگرچہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر تو نہیں ہوتی سیاسی جماعتوں میں اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن جس طرح کی صورتحال سے ہمارا ملک دوچار ہے سیاسی جماعتوں کو اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔وفاق میںعمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد اصولی طور پر صوبوں میں خواہ کسی جماعت کی حکومت ہے چھیڑ خانی کی ضرورت نہیں تھی لیکن پی ڈی ایم اور خصوصاً مسلم لیگ نون جو پنجاب کو کسی وقت اپنا گڑھ سمجھتی تھی اسے چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کسی صورت میں گواراہ نہیں ۔ایک ایسے وقت جب پرویز الٰہی کوعمران خان کی جماعت کی بھرپور حمایت حاصل ہے شریف خاندان نے پنجاب میں حکمرانی کو زندگی موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔چلیں عمران خان جلد انتخابات کے انعقاد کیلئے پنجاب اور کے پی کے اسمبلی تحلیل کرنے کی تیاریوں میں تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو گورنر نے ڈی نوٹیفائی کر دیا ۔اب وزیراعلیٰ کو اعتماد کو ووٹ لینا پڑے گا سوال تو یہ ہے پنجاب حکومت درست سمت چل رہی تھی تو مسلم لیگ نون کو آئندہ انتخابات کا انتظار کرنے میں کون سا امر مانع تھا۔
قومی توانائی بچت پلان کوئی برائی نہیں ایسے وقت میں جب پنجاب میں حکومت گرانے کی جدوجہد جاری ہے اور ساتھ وفاقی حکومت پنجاب حکومت سے تعاون کی خواستگار ہے ۔پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں کا وفاق سے عدم تعاون تو سمجھ میں آتا ہے تعجب ہے ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں وفاق سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔افسوس تو اس پر ہے مشکل کی اس گھڑی میں سیاست دانوں ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کی کوئی سبیل نکالنے کی بجائے اقتدار کا بھوت سوار ہے نہ کسی کو ملک کی فکر ہے اور نہ غریب عوام کی مشکلات سے سروکارہے بس اقتدار کا حصول ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہمارا ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے نہ صوبائی حکومتیں اور نہ ہی تاجر برادری تعاون کے لئے تیار ہے ۔وفاقی حکومت کو توانائی بچت پلان کا اعلان کرنے سے پہلے صوبائی سطح پر حکومتوں کے ساتھ تاجر برادری سے مشاورت بے حد ضروری تھا۔وزیراعظم شہبا ز شریف جن کا اپنا تعلق تاجر برادری سے ہے خاص طور پر پنجاب میں تاجر برادری کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے ۔میاں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں تاجر برادری سے ہر ممکن تعاون کیا جس کے جواب میں تاجر برادری نے بھی ان کی حکومت سے بھرپور تعاون کیا لیکن ایک ایسے وقت میں جب ہمارا ملک معاشی بھنور میں ہے تاجر برادری کے عدم تعاون کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ایک اور حوصلہ فزاء خبر یہ ہے عمران خان دور کے ایف بی آر کے ایک سابق چیئرمین شبر زیدی کی پیش گوئی ہے نئے انتخابات سے پہلے مارچ میں نگران سیٹ اپ بن جائے گا جس کے بعد عام انتخابات جولائی میں ہوں گے ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا ہے آئندہ آنے والی نئی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کرے گی۔اس سے پہلے مسلم
لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف نے پارٹی کارکنوں کو انتخابات کی تیاری کا سگنل دے دیا ہے اور گورنر ہاوس پنجاب اور اسٹیٹ گیسٹ ہاوس کو عام کارکنوں کے لئے کھولنے کی ہدایت دے دی ہے تاکہ عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے۔انتخابات تو آخر ایک روز ہونے ہیں لیکن اس نازک وقت میں حکومت اور اداروں کو سخت فیصلے کرنا پڑیں گے تاکہ وطن عزیز کو کسی طریقہ سے معاشی اور داخلی خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے ۔پی ڈی ایم کی حکومت کو بھی چاہیے وہ ملکی مفاد کے پیش نظر اپنے ذاتی اختلافات بھلاتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ راہ و رسم نکالنے کی کوئی سبیل نکالیں تاکہ انتخابات سے پہلے معاشی صورت حال کی بہتری اور انتخابی اصلاحات کا مسئلہ حل ہو جائے تاکہ عین انتخابات سے قبل کوئی اعتراض باقی نہ رہے۔عمران خان کو بھی چاہیے وہ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی فکر کریں اسی میں ملک وقوم کی بھلائی ہے ۔تازہ ترین حالات میں وفاقی حکومت کے توانائی بچت پلان پر پوری طرح عمل درآمد کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی ہے۔وفاقی حکومت اس منصوبے پر عمل سے پہلے کسی طرح سابق وزیراعظم کو اعتماد میں لیتی تو اسے توانائی بچت پلان پر عمل درآمد میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اس نازک وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ہر صورت میں وفاقی حکومت کے توانائی بچت پلان پر عمل درآمد کے لئے وفاق سے تعاون کرنا چاہیے ۔اس میں کسی جماعت کایا کسی سیاست دان کو کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ ملک کا مفاد مضمر ہے۔تاجر برادری کو بھی چاہیے وہ ملک کے معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں ملک ہے تو ہم ہیں ملک ہے تو کاروبار زندگی بھی ہے۔ہمارا ملک واقعی نازک موڑ پر کھڑا ہے لہٰذا اس کڑے وقت میں جیتنی یک جہتی کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ ہمارے ملک کو جلد معاشی گرداب سے نکالے۔ امین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button