Ali HassanColumn

ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش .. علی حسن

علی حسن

 

حال ہی میں سندھ کے مقرر کردہ گورنر کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کو متحد کرنے پر سر گرم ہیں۔ تمام دھڑوں کے سربراہوں سے علیحدہ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور سب لوگوں کو متحد ہونے کا درس دے رہے ہیںکہ ہم سب کو متحد کرنے کی صرف کوشش کرسکتے ہیں، کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہی فیصلہ کرلیں۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اس وقت شہر کی بھلائی میں سب کو ایک ہونے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے کو ٹھیک کرنے کی بجائے شہر کو ٹھیک کرنا ہے۔ ایک اور انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ٹوٹی سڑکیں ، گندی گلیاں ، ابلتے گٹر ، ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے ، کوئی مسیحا نہیں آئے گا ہمیں خود ہی آگے بڑھنا ہو گا ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں ختم کرنا ہو گی ، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کراچی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ان کے اس عمل سے سندھ اور خصوصی طور پر کراچی کی سیاست میں ایک مرتبہ بھونچال کی سی کیفیت آگئی ہے۔ اپنی کوششوں کے بار آور ہونے کیلئے انہوں نے پی ایس پی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا ، دھڑوں کو متحد کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے وزیراعظم شہباز شریف سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور کراچی کے سیاسی مسائل پر بات چیت کی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر کامران ٹیسوری اپنی کوششوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کراچی کی سیاست مختلف ہو جائے گی۔ پی ایس پی کے دفتر کے دورے کے موقع پر مصطفیٰ کمال اور کارکنان نے گورنر سندھ کا استقبال کیا۔اس موقع پر انیس قائم خانی، اشفاق منگی اور نیک محمد بھی موجود تھے ۔ ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال، ایم کیو ایم کے دھڑوں کے اتحاد اور دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اور دیگر رہنماؤں کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دی۔مصطفیٰ کمال بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی ایک جماعت ملک کے مسائل نہیں کرسکتی ہے ۔ قومی مفاد کیلئے اپنی ذاتی سیاست کو پیچھے رکھنا ہوگا ، پاکستان کو مسائل سے صرف کراچی ہی نکال سکتا ہے ۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سے فرداً فرداً ملاقاتیں کی تھیں اور متحدہ کے دھڑوں کو متحد کرنے پر زور دیا تھا۔
مبصرین کا قیاس ہے کہ مشترکہ سیاسی جدوجہد کیلئے پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اپنی پارٹی کو ایم کیو ایم میں ضم کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کے ووٹروں کے تبدیل شدہ مزاج کو دیکھتے ہوئے مقتدر حلقوں نے ایم کیا ایم کو متحد کرانے کی ذمہ داری گورنر کو سونپی ہے۔ کراچی کے گزشتہ مہینوں میں ہونے والے دو ضمنی انتخابات میں ووٹروں کا جھکائو تحریک انصاف کے امیدواروں کے حق میں تھا جو ان کی کامیابی کی صورت میں نکلا تھا۔ سینئر تجزیہ کار محمد مالک نے ایک چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو ہروانے کیلئے ایم کیو ایم متحد کی جارہی ہے۔ عمران خان بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کے گروپوں کو اسٹیبلشمنٹ اکٹھا کر رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کو نقصان پہنچایا جائے۔ایم کیو ایم پاکستان پی ٹی آئی جب اتحادی رہے تو بھی ایم کیو ایم مطمئن نہیں رہی۔ انہیں عمران خان کی طرف سے تحفظات ہی رہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے الزام لگایا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جو معاہدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہورہا اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ہم حکومتی اتحاد میں رہ کر لڑیں گے یا الگ ہوکر۔
کامران ٹیسوری ایم کیو ایم میں شمولیت کے بعد فاروق ستار کی وساطت سے پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ ) کے ٹکٹ کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر پارٹی میں ہیجان پیدا ہو گیا تھا اور ٹیسوری کو انکار کرنے کے بعد فاروق ستار نے اپنا گروپ ایم کیو ایم بحالی کمیٹی قائم کر لیا تھا۔ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے یکجا ہونے پر بعض سیاسی حلقے قیاس کر رہے ہیں کہ کیا کراچی میں پرانی ایم کیو ایم بحال ہونے جا رہی ہے۔ با خبر سیاسی حلقے اس گمان کا اظہار کر رہے ہیں کہ اتحاد میں شامل ہونے والوں کے درمیان ذمہ داریاں بھی طے کر دی گئی ہیں۔ عامر خان ملک سے چلے گئے ہیں، کہا جاتا ہے انہیں شٹ اپ کال دے کر ملک سے باہر چلے جانے کیلئے کہا گیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دبئی چلے گئے ہیں۔ وہاں ان کا کاروبار ہے۔ کراچی کی سیاست میں فی الحال ان کا کوئی کردار نہیں رکھا گیا۔ نئے سیٹ اپ میں خالد مقبول ہی پارٹی کے کنوینر رہیں گے جس پر بظاہر کسی کو اعتراض نہیں ۔انیس قائم خانی پارٹی کے تنظیمی کام کے اور فاروق ستار پارلیمانی پارٹی کے نگراں ہوں گے۔ کہا جارہا ہے کہ سب اپنے کاموں میں خود مختار ہوں گے۔ ماضی میں ایم کیو ایم کی تنظیم میں ایسی کوئی سوچ نہیں رہی ہے جس کے تحت مختلف کام کرنے والے لوگ خود مختار رہے ہیں۔
مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے کراچی میں پارٹی دفتر میں اراکین سینٹرل کمیٹی اور نیشنل کونسل کے ساتھ اجلاس کیا ہے جس میں صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ شنید ہے کہ انہوں نے پارٹی کے ذمہ داران کو پیش کش کی کہ اگر انہیں اعتراض نہیں تو ان کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں۔ دوسری صورت میں وہ اپنا سیاسی مستقبل اختیار کرنے میں با اختیار ہوں گے۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی پی ایس پی کے قیام کے بعد سے ایم کیو ایم کے خلاف محاذ کھولے ہوئے تھے اور تنظیم کھڑی کر لی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ مطلوبہ نتائج فوری سامنے نہیں آ سکے۔انہوں نے اپنی تمام کوششوں کے بعد بھی دیکھ لیا کہ اردو بولنے والے حلقوں نے انہیں پزیرائی نہیں بخشی۔ جو بھی انتخابات ہوئے ان میں پی ایس پی کا شمار کم سے کم ووٹ لینے والوں میں ہوتا ہے۔ یہ غور کرنا ہوگا کہ ووٹر ایم کیو ایم سے برگشتہ ہیں۔ کیا ووٹر ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی حکمت عملی سے مطمئن نہیں، کیا اردو بولنے والے ووٹر پیپلز پارٹی کی حکومت کے ان اقدامات سے نالاں ہیں جسے وہ دیوار سے لگانے کا عمل قرار دیتا ہے۔ یہ بھی غور طلب معاملہ ہے کہ کیا اردو بولنے والا ووٹر ان تمام عناصر پر اعتماد کرے گا جو ایم کیو ایم کو متحد کر رہے ہیں۔ بقول پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر سعید غنی پتنگ پر چپیاں لگائی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی اس پر زور دے کر کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے تمام دھڑوں کا اتحاد کراچی کے استحکام کیلئے بہت ضروری ہے اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ البتہ ہمیں کامیابی اس وقت ملے گی جب ہم انفرادی سوچ سے نکل کر اجتماعی مفادات کیلئے فیصلے کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں موجودہ پارٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔کیا متحد ایم کیو ایم ماضی کی طرح نتائج دینے والی ایم کیو ایم ثابت ہو سکے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button