ColumnImtiaz Ahmad Shad

ملکی ترقی میں نسل نو کا کردار .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

سال نو ، نسل نو کیلئے کس قدر قیمتی ثابت ہو گا، اس کافیصلہ ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کی ترجیحات پر منحصر ہے لہٰذا دیکھنا ہو گا کہ کس قسم کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔دانشمندی اسی میں ہے کہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے منصوبہ بندی کی جائے اور انہیں مواقع فراہم کئے جائیں۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ ڈور اس کی نئی نسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے،جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل کر عمارت وجود میں آتی ہے،اسی طرح ملک کی تعمیر میں ہر نوجوان کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔نوجوانوں کی اسی اہمیت کے پیش نظر آج کل ہر سیاسی جماعت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ان کے جلسے میں شریک ہوں، ان کے حامی ہوں۔ نسل نو کی ترقی، انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں، ان کے حالات تبدیل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، جس کا مطلب ملک کو فکری، معاشی، تعلیمی، معاشرتی اور دیگر کئی اعتبار سے تنزلی سے ترقی اور بہتری کی جانب لے جانا ہوتا ہے، مگر کوئی بھی جماعت اپنے اعلان اور منصوبے کو اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی، جب تک اسے نسل نو کا تعاون میسر نہ آجائے۔ہر جماعت اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے نوجوانوں کے تعاون کی محتاج ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، جب نوجوان مخلص ہوکر اپنے ملک و قوم کیلئے محنت اور جدوجہد کرنے لگتے ہیں تو مثبت تبدیلی، ترقی اور بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا، کامیابی ان کے قدموں کی دھول ضرور بنتی ہے۔ نوجوان ہی وہ قوت ہیں، جو اگر ارادہ کرلیں تو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کو اوج ثریا پر پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ کامرانی ان اقوام کی قدم بوسی کرتی ہے جن کے نوجوان مشکلات سے لڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ خوش حالی ان اقوام کے گلے لگتی ہے، جن کے نوجوانوں کے عزائم آسمان کو چھوتے ہیں۔ ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔
اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں،تو یقین کیجیے کہ تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے۔ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ نسل نو ہی ملک میں مثبت تبدیلی لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا آئی ٹی کا، معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی مسائل، کسی بھی شعبے میں نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ وہ کسی بھی قوم کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر نوجوانوں میں یہ شعور بیدار ہوجائے کہ ملک و قوم کو بام عروج پر پہنچانے کیلئے ان کی اہمیت کیا ہے اور وہ اپنی تمام تر توجہ ملک کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کر دیں، تو ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل تو ویسے ہی حل ہو جائیں۔ سابق امریکی صد ر فرینکلن ر وز ویلٹ نے کہا تھا کہ ہم نوجوانوں کیلئے مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے، مگر ہم مستقبل کیلئے اپنے نوجوانوں کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر نوجوانوں میں یہ شعور اجاگر ہوجائے کہ ملک کا مستقبل ان کے ہی ہاتھوں میں ہے، ان ہی کے کاندھوں پر قوم کی ترقی کا دار ومدار ہے، وہ ہر برائی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تو ملک میںمثبت تبدیلی آتے دیر نہیں لگے گی۔ اگر نوجوان ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کریں، زندگی کے ہر شعبے میں جاکر بہترین کردار ادا کریں۔پاکستان کی اکثریت آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے،بد قسمتی سے آج کل ہر دوسرا نوجوان یہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ یہاں ہمارے لیے آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں، نظام درست نہیں ہے، لاقانونیت کا راج ہے اور ترقی کے مواقع فقط ان لوگوں کو میسر ہیںجو ریاست پاکستان کو دیمک کی ماند چاٹ رہے ہیں۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری نسل نو ترقی کے صرف خواب دیکھتی ہے ،عملی طور پر وہ بھی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں بلکہ شارٹ کٹ تلاش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آج جب ہم ملک کے حالات دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شاعر مشرق اور بانی پاکستان کا خواب صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اس کو شرمندہ تعبیر صرف نوجوان ہی کرسکتے ہیں۔ صرف اعتراضات کرکے یا تنقید کرکے ملک کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا، ہماری نسل نو آج مختلف شعبوں سے وابستہ ہے، اگر ہر نوجوان اپنے اپنے شعبے میں دیانت داری، محنت اور یکسوئی سے کام کرے، تو آہستہ آہستہ تمام شعبوں سے خود ہی ساری برائیاں ختم ہو جائیں گی۔اس بات سے تو انکار ممکن ہی نہیں کہ ملک میں تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، اس لیے اگر واقعی ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرانا چاہتے، اس کی خامیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا آپ بہتر بنائیں۔ اس کیلئے علم کو عام کرنے کی سعی کرنا ہو گی، قوم کے درد کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا ہو گا۔ اگر نوجوانوں کی دلچسپی کا مرکز قومی مسائل ہوں،تو قومی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے بآسانی چھوٹے بڑے معاملات سے نمٹا جاسکتا ہے۔ نوجوان ہمت، عزم و حوصلے سے سرشار ہوتے ہیں، اگروہ ہر قسم کی بدعنوانی کو ختم کرنے کی ٹھان لیں،برائی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا پختہ عزم کرلیں، تووہ یقیناً ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ صرف تنقید نہ کریں، بلکہ قدم قدم پر اپنی اصلاح بھی کریں۔ ساراسارا دن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دوسروں پر تنقید کرنے کے مشورے دینے کے بجائے خود آگے بڑھ کر بہتری لانے کی کوشش کریں۔ دوسرے لوگوں کیلئے خود کو مشعل راہ بنانے کیلئے مہذبانہ رویے کو اپنانا ہو گا۔ بات بات پر سیخ پا ہوکر اپنا اور دوسروں کا نقصان کرنے کے بجائے تحمل سے ہر مشکل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ کسی بھی چیز میں تبدیلی آتے،اگرچہ کچھ وقت لگتا ہے، لیکن تبدیلی آتی ضرور ہے۔ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، ہربڑی کام یابی کیلئے محنت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے، یک دم کچھ نہیں ملتا، اگر مسلسل محنت و جدوجہد کی جائے تو ضرور تبدیلی آتی ہے اور کام یابی بھی مقدر بنتی ہے۔ یہ معاملہ بھی خود میں وسعت رکھتا ہے کہ عصرِ حاضر میں صرف جذبات اور جوش کی ضرورت نہیں، بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے دانشمندی اور ہوش سے کام لینا انتہائی اہم ہے۔ سیاستدانوں کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ان کی نورا کشتی کی وجہ سے نسل نو ذہنی تنائو کا شکار ہو چکی ہے۔سال نو کا آغاز یقیناً نئے عزم اور نئے ارادوں سے کیا جانا چاہیے مگر اس پہلو کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ عزم اور ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے راہ ہموار کرنا اہل اقتدار کا کام ہوتا ہے۔ مگر افسوس وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والے آڈیوز اور ویڈیوز کے ایسے کھیل میں مصروف ہیں کہ نسل نو کی بھلائی کے بجائے بربادی شاید ان کا غیر اعلانیہ مقصد ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button