ColumnNasir Sherazi

بھولی بھاگنے والی ہے! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

بھولی بھالی لڑکی نے رات دستر خواں پر بیٹھے ماں باپ ، بہن بھائیوں کے درمیان بیٹھے واضح لفظوں میں بتادیا کہ صبح ہم میں سے ایک شخص موجود نہیں ہوگا، اہل خانہ میں سے کسی نے تفصیل جاننے کی کوشش نہ کی، سب خواب خرگوش کے مزے لینے لگے تو وہ پروگرام کے مطابق نصف شب کے قریب بیدار ہوئی، مال و زر سمیٹا اور آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی صبح سب بیدار ہوئے تو اُسے گھر میں موجود نہ پاکر سب اس کی روحانیت کے گن یوں گانے لگے کہ وہ تو صاحب کرامت تھی، اُسے ایک شخص کے نہ ہونے کی خبر سب سے پہلے ہوچکی تھی، ملک کے کونے کونے سے ڈیفالٹ کی خبریں آرہی ہیں لیکن محکمہ خزانہ کی بھولی بھالی قوم کو تسلیاں دے رہی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا، یہاں تک تو بات ٹھیک تھی، اب اِس بھولی نے یہ کہہ دیا ہے کہ ہم ہوں یا نہ ہوں ملک آگے جائے گا، گویا بھولی کسی بھی وقت کل پاکستان کو سوتا ہوا چھوڑ کر فرار ہوسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے آشنا کا بروقت پتا لگالیا جائے، گمان یہی ہے کہ وہ لندن کا رخ کرے گی، لندن اس کے علاوہ ہر بھولے اور ہر بھولی کا دوسرا گھر جانا جاتا ہے۔
بھولی جب پاکستان کے آگے جانے کا کہتی ہے تو اس بات کو بھی برداشت کرلینے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن اس کے بعد وہ خاموش ہوجاتی ہے، معیشت اور معاشیات کے ماہرین چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ پاکستان آگے جاکر ایک گہرے گڑھے میں گرنے والا ہے، بھولی اس پر خاموش ہوجاتی ہے۔
ملکی معیشت کو درپیش خطرات کا ادراک کرنے کے لیے گذشتہ ایک ہفتے سے تواتر کے ساتھ اجلاس منعقد ہورہے ہیں جس میں گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہنے کے حوالے سے غوروفکر جاری ہے لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے آنکھ دیر سے کھلی ہے جب آنکھ کھلی تو سمجھ سو گئی، جس فنانشل ایمرجنسی یا ہنگامی اقدامات کا بے دلی سے اعلان کیا جارہا ہے یہ قدم مستعدی کے ساتھ اقتدار سنبھالتے ہی اٹھانے چاہیے تھے۔ ڈالر دو سو روپئے تک لانے کی کوششوں اور اعلانات کے ساتھ اڑھائی روپئے سے آگے نکل گیا، کوئی اسے پکڑ سکا نہ اب وہ مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ بھولی کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان بھنور میں پھنس چکا ہے، حالات ہیں لیکن وہ اور موجودہ حکومت معاشی تجربوں کے ذمہ دار نہیں۔ اس موقعہ پر بھولی سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ اگر آپ بگڑی معاشی صورتحال کو سنبھال نہیں سکتے، نو ماہ کے اقتدار اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے بعد کوئی ذمہ داری لینا نہیں چاہتے تو پھر کیا ویڑیویں لینے آئے تھے؟ بھولی کے مطابق لوگ ڈرے ہوئے
ہیں کوئی سونا خرید رہا ہے تو کوئی ڈالر جبکہ بیشتر ایسے ہیں جو ڈالر بذریعہ ہنڈی دھڑا دھڑ ملک سے باہر بھیج رہے ہیں، لوگوں کا ڈر اتارنا ان میں اعتماد بحال کرنا حکومت کا کام ہے، ہنڈی دولت کو بیرون ملک بھیجنے کا غیر قانونی ذریعہ ہے اگر اس پر قابو نہیں پایا جاسکا تو یہ سرکار کی ناکامی ہے۔ مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کے اہل خانہ بیرون ملک سے روپیہ بھیجتے ہیں تو ان پر خاصی کٹوتی کرلی جاتی ہے، وہ ہنڈی کا ذریعہ اختیارکرتے ہیں اگر قومی بینک سے باہر آنے والی ان رقوم پر کٹوتی کرنا چھوڑ دیں اور یہ خدمت بلامعاوضہ فراہم کریں تو ہنڈی کا کاروبارختم ہوسکتا ہے، مزید برآں ڈالر کی سمگلنگ اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک مارکیٹ میں پرائیویٹ منی چینجر بیٹھے ہیں یہ مافیا سرکاری سرپرستی میں عفریت بنا ہے، یہ یک جنبش قلم ان کے لائسنس ختم کرکے معاملات نیشنل بینک آف پاکستان کے حوالے کردیئے جائیں تو ڈالر کنٹرول میں آجائے گا۔ ہر شخص حکومتی پالیسی اور ترجیحات کے مطابق قومی بینک سے ڈالر حاصل کرسکے گا کیونکہ نیشنل بینک کی برانچیں ہر چھوٹے بڑے شہر کے ہر کونے میں موجود ہیں۔
ملک کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے سرکاری اللے تللے ختم کرکے گھر سے مثال پیش کرنا ضروری ہے ، تمامممبران قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹ کروڑوں روپے خرچ کرکے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، ان کی تنخواہیں فوراً بند کی جائیں، قوم کے ہر فرد سے قربانی کا تقاضا کرنے کی بجائے قوم کے ان لیڈروں سے قربانی لی جائے جن کا کہنا ہے کہ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔ قوم کو یقین ہے کہ خدا کی بارگاہ میں یہ عبادت فوراً قبول ہوگی اور ان شخصیات کو خدا کی طرف سے اجر عظیم ملے گا۔
لگژری گاڑیوں اور اشیائے پرتعیش پر پابندی لگائی مگر ٹھیک پندرہ روز بعد اٹھالی گئی کیونکہ مافیا سرکار کے بیڈ روم میں گھس چکا تھا، قوم کو لیپ ٹاپ کا لولی پاپ دے کر بہلانے کی بجائے اس کھلواڑ سے اجتناب کیا جائے۔ مہنگے ترین اور جدید ترین سیل فون کے علاوہ سامان میک اپ پر عرصہ دراز کے لیے پابندی لگائی جائے۔ یوں کئی ہزار ارب ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ سامان میک اپ کی پابندی کا دوہرا فائدہ ہوگا اصلی چہرے سامنے آئیں گے، ملمع اترے گا تو لوگ جعلی پریوں کے ہاتھوں بے وقوف بننے سے بچ جائیں گے، زیادہ بہتر ہوگا کہ میک اپ کو جرم قرار دے دیاجائے، اس ایک چیز کوجرم قرار دیاجائے تو معاشرے سے کئی جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے۔
کچھ اداروں میں لوٹ مار کوقانونی تحفظ حاصل ہے اس کے لاکھوں، کروڑوں ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کو مفت کی بجلی، گیس اور ٹیلی فون کی سہولت میسر ہے یہ فی الفور ختم کی جائے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن پر نظر ثانی کی جائے۔ کئی دہائیوں سے یہ مذاق جاری ہے کہ کچھ اعلیٰ درجے کے ملازمین کی آخری تنخواہ ہی ان کی پنشن قرار دی گئی ہے جو دس لاکھ کے قریب ہے۔
ملک بھر میںتنخواہوں کے سکیل دوبارہ ترتیب دیئے جائیں۔ بائیس گریڈوں کی بجائے دس بارہ گریڈ بنائے جائیں تاکہ بہت غریب اور بہت امیر کے درمیان فرق بڑھنے کی بجائے کم ہوسکے۔ کم ازکم تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ، زیادہ سے زیادہ تنخواہ بشمول تمام الائونسز چھ لاکھ اور پنشن تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جبکہ سپیشل گریڈ ختم کیے جائیں
ملک میں پیدا ہونے والی چیزوں کا تعلق ڈالر سے نہیں ہے لہٰذا ڈالر کی مہنگائی کو جواز بناکر ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کرنے والے دکاندار بالخصوص سپر سٹور مافیا پر کڑا ہاتھ ڈالاجائے اور حد منافع کا تعین کیا جائے۔
قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے غیر ملکی ماہرین معیشت کے تجزیوں کو اہتمام کے ساتھ قومی پریس میں جگہ دے کر نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگایا جائے، ایک امریکی سرمایہ کاری بینک گولڈ مین ساکس کی رپورٹ کو اہمیت دی جارہی ہے کہ پاکستان 2075 تک دنیا کی چھٹی معیشت بن جائے گا، ملکی صورت حال یہ ہے کہ بجلی و پانی کی قلت،سوئی گیس کے ذخائر کے خاتمے کے ساتھ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ادراک نہ ہونے کی صورت میں اقتصادی بحران شدید تر ہوچکا ہوگا۔ پاکستان کے نرخرے پر امریکہ و اسرائیل کا پائوں ہوگا اسے دنیا کے نقشے پر قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا، بھولی کو چاہیے ملک و قوم کو بھول بھلیوں میں نہ الجھائے، رات کی تاریکی میں نہ بھاگے، دن کے اجالے میں چلی جائے۔ قومی ٹیکنوکریٹ حکومت بہتر آپشن ہے۔ حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار نہ کیاگیا تو سمجھ لیجئے بھولی بھاگنے ہی والی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button