ColumnJabaar Ch

کرائے کی معیشت! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

میں کالم لکھنے بیٹھا ہی تھاکہ ایک دوست نے واٹس ایپ گروپ میں ایک تحریر شیئر کردی۔ میں نے اس کو پڑھا تو لگا کہ پاکستان کے حالات اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں یہ تحریر یقینی طورپرایک فکشن ہی ہے ۔کوئی سچا واقعہ ہرگز نہیں ہوگا لیکن جس طرح تصویر کشی کرکے اس کو پاکستان کے حالات سے جوڑاگیاہے وہ حقیقت کے قریب ترین ہے۔ تحریرکچھ یوں تھی کہ۔
’’پرانے زمانے میں کسی پہاڑی کے دامن میں ایک گائوں آباد تھا۔ جب بھی کوئی مسافر گاڑی حادثے کا شکار ہو کر پہاڑ سے گر جاتی توگاؤں کے لوگ جاکر اس کا سامان لوٹ لیتے۔یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
اگر اس طرح کے واقعات رک جاتے یا تاخیر کا شکار ہوتے تو وہاں اس طرح کی دعائیں مانگی جاتیں کہ ’’اے پروردگار بہت عرصہ ہوا ہے کوئی گاڑی نہیں گری ۔ اب کوئی باراتیوں سے بھری بس گرا دے جن کی عورتیں سونے سے لدی ہوئی ہوں، کوئی ایسی کار کھائی میں گرادے جس میں برطانیہ سے کوئی امیر شخص واپس آرہاہو۔ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر ہم سے کوئی بھول ہوئی ہو تو رحم کا معاملہ کر ورنہ ہمارے بچے بھوکے مر جائیں گے‘‘ پشتو کہاوت ہےکہ ’’دا چا پہ شر کی دا چا خیر یی‘‘جس کا ترجمہ ہے’’کسی کے شر میں کسی کی خیر ہوتی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس تحریر کو پاکستان کے حالات یا تاریخ سے جوڑا گیا ہے یہ بھی دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کچھ کمی بیشی ضرورہوگی لیکن زیادہ ترواقعات ایسے ہی ہیں ۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم نے دوسروں کے شر میں اپنی خیر منائی ہے۔ ہم نے خود سے کچھ نہیں کیا ۔نہ اپنے ادارے مضبوط کئے نہ انڈسٹری بنائی نہ برآمدات بڑھائیں۔ تعلیم صحت اور انصاف کسی شعبے پر محنت نہیں کی کہ شعبے پیسا مانگتے ہیں ۔ باقی کہا نی بعد میں سناتا ہوں۔ تعلیم اور صحت کی بات آئی تو بھارتی پنجاب میں میرے ایک بہت ہی خوبصورت دوست رہتے ہیں ان کا نام احباب گریوال ہے ۔ احباب گریوال کا تعلق عام آدمی پارٹی سے ہے ۔ میری ان سے بات ہوتی رہتی ہے، ایک دن پوچھ لیا صحت اور تعلیم پرکتنا خرچ کرتے ہیں ۔گریوال صاحب کی بات سن کرمیرے طوطے ہی اڑگئے ، کہا کہ بجٹ کا تیس فیصد تک لگادیتے ہیں، میں نے اس نشست کی گفتگو جلد ختم کردی کہ کہیں یہ نہ پوچھ لیں کہ آپ کے ہاں کتنا بجٹ تعلیم اور صحت پر خرچ ہوتا ہے ۔کیا بتاتا کہ ہم بمشکل چار پانچ فیصد تک ہی اس شعبے کیلئے رکھتے ہیںاور پوائنٹ سکورنگ کیلئے صحت کارڈ جیسے پروگرامز پر سیاست کرتے ہیں۔خیر واٹس ایپ میں موصول تحریر کو آگے بڑھاتے ہیں ۔مجھے اس تحریر کے مصنف کا علم نہیں ورنہ اس کا نام لکھ کر کریڈٹ بھی دیتا ۔پھر بھی جس نے بھی یہ الفاظ لکھے ہیں میں اس کو کریڈت دیتا ہوں ۔
’’پچاس کی دہائی میں ہم نے ’’سیٹو‘‘ اور’’سینٹو‘‘ کے مزے اڑائے۔ساٹھ کی دہائی میں سردجنگ میں امریکہ کا ڈارلنگ بن کر طیاروں کو اڈے دیکر ڈالر بٹورے۔ستر کی دہائی میں بھٹو صاحب نے عرب اسرائیل جنگوں میں جے کانت شکرے کا کردار نبھایا اور ڈائیلاگ بول بول کر مفت تیل کے مزے اڑائے۔اسی کی دہائی میں روس افغانستان والے کھاتے میں ہم نے خوب ’’ریمبو تھری‘‘ بنا کر باکس آفس پر پیسے بنوائے۔ نوے کی دہائی میں کسی کا شر ہمارے ہاتھ نہیں آیا اور ہماری حالت بہت پتلی ہوگئی۔دو ہزار کے بعد رحمت خداوندی نے پھر جوش مارا اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔اس شر کا جام لیکر ہم خوب جھومے، اسلحے اور ڈالروں کی برسات ہوئی۔اپنے بندے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرتے رہے اور فی بندہ ہزاروں ڈالر وصول کرتے رہے ۔یہ دھنداخوب چلا ہماری معیشت ابھری ۔ڈالر ساٹھ روپے پر جمارہا ۔
یہ جنگ ہمارے اپنے گھر آئی تو ہم نے پھر امریکہ کی مدد مانگی اور ڈرون حملے کروائے۔اس جنگ میں اپنے ستر ہزار شہر ی جھونک دیے ۔فوجی جوانوں اور افسروں کی قربانیاں الگ۔ ہماری کوئی جگہ، کیا مسجد ،کیا کلیسا۔ کوئی بھی جگہ ایسی نہ رہی یہاں دھماکا نہ ہوا ہو۔ہم نے اس عذاب کے خاتمے کیلئے کئی آپریشن کیے ۔ دوہزار سولہ سترہ میں دہشت گردی پر کسی حد تک قابوپایا پھر سقوط کابل ہوا۔ہم نے یہاں خوشیاں منائیں۔ طالبان کے افغانستان پر قبضے کو اپنی فتح کے طوپرمنایا۔ اس کو غلامی کی زنجیریں توڑنے سے تشبیہ دی اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہ فتح پھر ہمارے گلے پڑگئی ہے۔ملک عزیزمیں دہشت گردی دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور ہم ایک بار پھر آپریشن کرنے جارہے ہیں۔
کوئی آٹھ سال ہوگئے ہیں ۔ شاید خدا ہم سے ناراض ہے اور ہمارے اردگرد کوئی شر نہیں ہورہا۔ حالت بہت خراب ہے ڈالر ڈبل سنچری کراس کر گیا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔اس تحریر کا اختتام اس دعا پر کیا گیا ہے ۔
اے تمام جہانوں کے مالک امریکہ کا ایران پر حملہ کروادے۔چین اور امریکہ کی کوئی زبردست سرد جنگ شروع کرادے۔سعودی اور حوثیوں کی لڑائی ہمارے مکران ساحل تک پھیلا دے۔روس اور یوکرین کی لڑائی میں ہمیں فریق بنادے۔پروردگار ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر تو رحم کا معاملہ نہیں کرے گا تو ہم بھوکے مر جائیں گے ۔
اس تحریر سے قطع نظر آپ پاکستان کی معیشت کو دیکھیں گے تو آپ کو یہی کچھ ملے گا۔وجوہات کئی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اقتدارکالالچ ہی رہا۔ ہمارے ہمسائے میں واقع ملک بھارت جس کو ہم سب اپنے دشمن کے طورپرجانتے ہیں اس ملک نے ہمارے ساتھ رہتے ہوئے ترقی کی ۔ وہاں غربت ہمارے سے کہیں زیادہ تھی لیکن وہاں منموہن سنگھ جیسے لوگ تھے ۔واجپائی جیسے اسٹیٹس مین تھے ، جن کی اپنی زندگی انتہائی سادہ لیکن بھارت کا نقشہ بدل دیاان لوگوںنے۔منموہن سنگھ ہندوستان کے وزیراعظم بننے سے پہلے وزیرخزانہ تھے تو انہوں نے ملک میں ایسی ایسی معاشی اصلاحات کیں کہ ہندوستان کی تقدیربدل گئی۔اسی کی دہائی میں سونے کی سمگلنگ ہندوستان کی متبادل معیشت بن گئی تھی۔سونے کی سمگلنگ روکنے کیلئے جو معاشی اصلاحات منموہن سنگھ نے کیں صرف اگر ان کا ہی مطالعہ کیا جائے تو معاشی خود انحصاری حاصل کی جاسکتی ہے،لیکن ہم نے کبھی معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑاکرنے کی طرف سنجیدہ قدم ہی نہیں اٹھایا۔ قرضوں اور امدادکی ایسی لت پڑی کہ حکمرانوں کی عیاشیوں میں کبھی رکاوٹ آئی اور نہ ہی کبھی معیشت کی حالت بدلی۔حالات پہلے بھی اچھے نہیں تھے لیکن پچھلے ایک سال میں معیشت مسلسل کھائی میں گرتی جارہی ہے۔ دسمبر دوہزار اکیس میں مہنگائی کی شرح بارہ فیصد تھی جو ایک سال میں بڑھ کرتیس فیصد ہوچکی ہے۔دسمبر دوہزاراکیس میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرسترہ ارب ڈالر تھے جو ایک سال بعد کم ہوکرصرف چھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔دسمبر دوہزار اکیس میں ایک ڈالرایک سو سترروپے کا تھا جو ایک سال بعد بڑھ کردوسوچھبیس روپے کاہوچکا ہے۔یہ کچھ موٹے اعداوشمار ہیں ۔جو معاشی تباہی کی ہولناک داستان بیان کررہے ہیں۔ اس وقت اس تباہی کی ذمہ داری نون لیگ اور اس حکومت کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نون لیگ الیکشن کا نام سنتے ہی دوڑ لگادیتی ہے ۔ حکومت کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے تو عمران خان کا مطالبہ مان کر الیکشن کروائے تاکہ سیاسی بے یقینی کاخاتمہ ہو۔ یاپھر دعامانگے کہ کسی عالمی طاقت کو ہماری ضرورت پڑ جائے اورہم ایک بار پھر کسی کو اپناآپ کرائے پر دے کر کچھ ڈالر کماسکیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button