ColumnRoshan Lal

زرداری پر پھر نشانہ بازی .. روشن لعل

روشن لعل

 

آج کل میڈیا پر دو مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے ان کالموں کا بہت چرچا ہے جو خاص پس منظر رکھنے والے دو مختلف صحافیوں نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ سے کی گئی الگ الگ ملاقاتوں میں ہونے والی مبینہ گفتگو کا حوالہ دے کر لکھے۔ان دونوں کالموں میں جو کچھ لکھا گیااس کا لب لباب یہ ہے کہ جنرل(ر) باجوہ نے بحیثیت آرمی چیف جو دو این آر او دیئے ان میں سے ایک2017 میں عمران خان کے لیے تھااور دوسرے سے 2021 میں آصف علی زرداری مستفید ہوئے۔ ان دونوں کالم نگار وں نے جنرل (ر)باجوہ سے منسوب گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تو بتا دیا کہ عمران خان کو کیوں اور کیسے این آرو دیا گیا مگر ایسی کوئی تفصیل بیان نہیں کی کہ آصف علی زرداری کو ایسا کونسا این آراو دیا گیا جسے عمران خان کے این آر او کے ہم پلہ ہونے کا تاثر دیا جارہا ہے۔ ان کالم نگاروں نے عمران خان کو دیئے گئے این آر او کی جو تفصیل بیان کی اسے کسی راز سے پردہ اٹھانے کے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جو کچھ بتایاگیا وہ تو پہلے سے ہی زبان زد عام تھا۔ کون نہیں جانتا کہ کہ سپریم کورٹ نے جن بنیادوں پر میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا ان کا اطلاق عمران خان کی نااہلی کے کیس پر کرنے سے گریزکیا گیاتھا۔ عمران خان کی طرح جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی ۔ ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے اگر ان
دونوں کو ایک ساتھ صادق و امین قرار دے دیا جاتا تو پہلے سے جانبداری کے الزام کی زد میں موجود عدلیہ کے متعلق یہ رائے مزید پختہ ہو جاتی کہ اس کے ایوانوں میں فیصلے انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ پسند ناپسند کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کے لیے اپنی واضح جانبداری کو مبہم بنانے کے لیے جہانگیر ترین کو نواز شریف کی طرح نااہل قراردے کر عمران خان کے لیے صادق و امین کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا۔ عمران خان کو صادق وامین قرار دیئے جانے کے جس فیصلے پر یہاں گزشتہ پانچ برس سے تحفظات کا اظہار ہو رہا تھا، مذکورہ دونوں کالم نگاروں نے ان تحفظات پرتصدیق کی مہر لگاتے ہوئے صرف یہ اضافہ کیا ہے کہ عمران خان کو اگر نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا تو اس میں عدلیہ صرف ایک مہرہ تھی ، جبکہ اصل کردار ادا کرنے والے جنرل (ر) باجوہ تھے ۔ عمران خان کو نااہلی سے بچانے اور صادق و امین قرار دلوانے کے لیے جنرل (ر) باجوہ نے جو کردار ادا کیا اسے مبینہ طور پر انہوں نے عمران کے لیے اپنی طرف سے جاری کیا گیا، این آر او قرار دیا ۔
مذکورہ دونوں کالم نگارں نے اپنی جن تحریروں میں عمران خان کو جنرل (ر) باجوہ کی طرف سے دیئے گئے این آر او کا ذکر کیا ہے ان تحریروں کو کسی طرح بھی انکشافات پر مبنی تحقیقی کہانیاں تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کہانیوں میں کوئی تحقیقاتی مواد شامل کرنے کی بجائے صرف پہلے سے زبان زد عام باتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ مذکورہ دونوں صحافیوں کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ آصف علی زرداری کو جنرل (ر) باجوہ کی طرف سے دیئے گئے مبینہ این آر او کے متعلق کھوج لگاتے اور ایسی باتیں سامنے لے کر آتے کہ اگر زرداری صاحب کو کوئی این آر او دیا گیا تھا تو وہ کونسا ایسا کیس تھا جس کا سامنا کرنے کی بجائے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ جیلوں میں گزار کر اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کوغلط ثابت کرنے والے زرداری نے این آر او لینا قبول کیا۔ مذکورہ تحقیقاتی صحافیوں نے تو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی 2021 میں آصف علی زرداری کو جو مبینہ این آر او جاری کیا گیا اس کا پس منظر کیا تھا مگر یہاں یہ ضرور بتایا جائے گا کہ سال2021 کے دوران آصف علی زرداری نے عدالتوں میں کون کونسے کیسوں کا سامناکیا۔
فروری 2021 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی اکائونٹ کیس میں آصف علی زرداری کی اس ضمانت کی توثیق کی تھی جسے قبل ازیں عبوری طور پر منظور کیا گیا تھا۔ جولائی 2021 میں یہ ہوا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے اس جواز کے تحت زرداری صاحب کی قبل از گرفتاری ضمانت منظور کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ وہ بذات خود عدالت میں حاضر نہیں ہوئے تھے۔ زرداری صاحب کے وکیل نے کہا تھا کہ وہ بیماری کی وجہ سے عدالت حاضر نہیں ہوسکتے لہٰذا ان کی عبوری ضمانت منظور کی جائے ۔ وکیل نے یہ استدعا بھی کی تھی نیب نے زرداری صاحب کو ایک کیس میں انکوائری کے لیے طلب کر رکھا ہے او رکیونکہ نیب نے پہلے بھی انہیں انکوائری کے بہانے طلب کر کے گرفتار کر لیا تھا اس لیے حفظ ماتقدم ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی گئی ہے۔ عدالت کی طرف یہ استدعا مسترد کیے جانے پر جب بیمار آصف علی زرداری بنفس نفیس عدالت میں پیش ہوئے تو پھر انہیں عبوری ضمانت دی گئی تھی جو سات ماہ کے دوران مختلف عدالتی پیشیوں کے بعدجنوری 2022میں مستقل بنیادوں پر منظور ہوئی۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ پاکستان میں جس طرح پسندیدہ لوگوں کو خفیہ پر این آر او دیئے جاتے رہے اسی طرح ناپسندیدہ بے گناہوں سے انصاف کا حق بھی چھینا جاتا رہا ۔ آصف علی زرداری شاید واحد ایسی مثال ہے جسے کوئی خفیہ نہیں بلکہ باقاعدہ قانونی تقاضے پورے کر کے ایک این آر او دیا گیا تھا مگر جب یہ این آراو ختم کر دیا گیا تو وہ عدالتوں میں اپنی صفائی پیش کر کے باعزت بری ہوئے تھے۔ اب جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ زرداری صاحب کو 2021 میں کوئی خفیہ این آر او دیا گیا تھا انہیںیہ ضرور بتانا چاہیے کہ جس بندے کا نام نہ پانامہ سکینڈل، نہ پنڈورا پیپر ز سکینڈل اور نہ ہی براڈ شیٹ سکینڈل میں آیا اسے کیونکہ این آر او کی ضرورت پیش آگئی۔ جس آصف علی زرداری کو زبردستی این آر او دیا جارہا ہے اس کے وکیلوں کے مطابق عمران خان کے دور میں زرداری صاحب پر بنائے گئے تمام مقدمات ابھی تک اس وجہ سے عدالتوں میںلٹکے ہوئے ہیں کیونکہ استغاثہ ان کے موکل کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر پارہا۔
یہاں آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ جن صحافیوں نے زرداری صاحب پر خفیہ این آر او لینے کا الزام لگایا ہے ان کی سابق صدر پر نشانہ بازی کی پرانی عادت ہے۔یہ صحافی آصف علی زرداری کو اپنے نشانے پر رکھنے کے تو ماہر ہیں مگر نہ جانے کیوں انہیں جنرل (ر) باجوہ جیسے لوگوں سے کی گئی خصوصی ملاقاتوں میں یہ پوچھنا یاد نہیں رہتا کہ جب میاں نوازشریف خاص میڈیکل رپورٹوں کی بنیاد پر علاج کرانے کے لیے لندن گئے تھے تو ان کی لندن روانگی کیا کسی این آراو کے بغیر ہی ممکن ہو گئی تھی۔جو صحافی بار بار آصف علی زرداری کو نشانہ بنانے کے ماہر ہیں وہ نہ جانے کیوں یہ مہارت میاں نوازشریف کے لیے استعمال کرنے سے گریز کر جاتےہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button