ColumnImtiaz Ahmad Shad

پاکستان میں انتخابات اور ان کا انجام .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

جمہوریت میں عوامی رائے کو جانچنے کا سب سے اہم آلہ انتخابات ہوتے ہیں ،اب تک پاکستان میں پندرہ عام انتخابات ہو چکے کیا ابھی تک ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ عوام کی رائے کیا ہے؟ اور عوامی رائے کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، تواہم یاد رہے کہ آزادی سے پہلے 1935 کے ایکٹ کے تحت 1946 میں عام انتخابات ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی علاقوں سے منتخب اراکین اسمبلی پر مشتمل دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی جن کی تعداد 69تھی ان اراکین اسمبلی کو صوبائی اسمبلی کے ارکان نے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر منتخب کیا تھا۔ 1946 کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات محدود رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوئے تھے، حکومت نے بہاولپور، پختونخوا، خیر پور اور بلوچستان سے چار ارکان نامزد کیے۔ 1949میں صوبائی اسمبلیوںنے دستور ساز اسمبلی کیلئے چھ مزید ارکان منتخب کیے اور اراکین اسمبلی کی کل تعداد 79ہوگئی جن میں سے 31 وکیل، 27زمیندار،9تاجراور12پروفیشنل تھے،1951 میں پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ پنجاب میں 50فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ مسلم لیگ نے 197 میں سے 143نشستیں حاصل کیں جبکہ اسے مشرقی پاکستان میں صرف دس نشستیں حاصل ہوسکیں۔ یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 اور کانگرس نے 24 نشستیں حاصل کیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے جون 1955کو پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا۔1960 میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں 75283 بی ڈی اراکین نے حق رائے دہی استعمال کیا اور جنرل ایوب خان پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ بی ڈی ممبران نے 1962میں اراکین قومی اسمبلی کا انتخاب کیا جن کی تعداد 156 تھی جن میں چھ خواتین شامل تھیں۔ 1965 میں جنرل ایوب خان اور مادر ملت فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی معرکہ ہوا بی ڈی ممبران نے ووٹ ڈالے۔ جنرل ایوب نے ریاستی مشینری استعمال کرکے اور سرمایے کی بدولت یہ انتخابات جیت لیے۔
جنرل ایوب نے 49700 اور مادر ملت نے 28345 ووٹ حاصل کیے۔ عوامی شاعر حبیب جالب نے ان انتخابات کے بارے میں کہاکہ دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیاظلم پھر مکر وفن سے جیت گیا پاکستان کی تاریخ کے پہلے براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات 1970ء میں ہوئے۔ خفیہ ایجنسیوں نے جنرل یحییٰ خان کو رپورٹ دی کہ کوئی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور طاقت کا مرکز جنرل یحییٰ ہی رہیں گے۔ عوامی لہر نے آمر کے منصوبے خاک میں ملادئیے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پی پی پی نے میدان مار لیا۔ عوامی لیگ نے (160)، پی پی پی نے (81)، پی ایم ایل قیوم گروپ نے (9)، پی ایم ایل کونسل نے (7)، نیپ (6) اور جے یو آئی نے (7) نشستیں حاصل کیں۔ آمر نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا۔ عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ بھارت نے صورتحال سے فائدہ اُٹھا کر ڈھاکہ فتح کرلیا۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا۔ اپنی قومی خدمات کی بنیاد پر وہ اس قدر خود اعتماد تھے کہ انہوں نے آئینی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ بھٹو مخالف جماعتیں 1970ء کے انتخابات سے سبق سیکھ چکی تھیں لہٰذا وہ 1977ء کے انتخابات میں پی این اے کے پرچم تلے جمع ہو گئیں۔
پی پی پی نے قومی اسمبلی کی 155نشستیں جیت کر دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ پی این اے کو 36 نشستیں مل سکیں۔ اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی تحریک شروع کردی۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر پی پی پی کی حکومت دھاندلی نہ بھی کرتی تو انتخابات جیت جاتی۔ سیاستدانوں کے اختلافات سے امریکہ اور فوج نے فائدہ اُٹھایا۔ آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے موقع پاتے ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور مارشل لا نافذ کردیا۔پاکستان گیارہ سال تک آمریت کے سایے میں رہا۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے جن کا سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔1988 کے انتخابات سے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل نے بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل آئی جے آئی کے نام سے انتخابی اتحاد تشکیل دیا جس کا مقصد پی پی پی کا راستہ روکنا تھا۔ سازشوں کے باوجود پی پی پی نے 93 نشستیں حاصل کرلیں جبکہ آئی جے آئی کو 54 نشستیں مل گئیں، ایم کیو ایم 13 اور 40آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 20ماہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت ختم کردی۔1990ء کے انتخابات میں پی پی پی کو شکست دینے کے پورے انتظامات کرلیے گئے تھے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے مہران بنک کے چودہ کروڑ روپے پی پی پی مخالف اُمیدواروں میں تقسیم کیے۔ آئی جے آئی نے 106 نشستیں جیت لیں۔ پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی اے صرف 44 نشستیں حاصل کرسکا۔ ایم کیو ایم 15، نیپ6، آزاد 21 نشستیں حاصل کرسکے۔ میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو مطمئن نہ کرسکے اور صدر اسحاق خان نے 8 جولائی 1993 کو ان کی حکومت بھی 58/2B کے تحت ختم کردی۔
1993کے انتخابات میں پی پی پی نے 89 اور پی ایم ایل نے 73 نشستیں حاصل کیں۔ پی ایم ایل (جونیجو) نے 6 اور آزاد اُمیدواروں نے 15 سیٹیں حاصل کیں۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ اس بارپی پی پی کے سابق سیکریٹری جنرل سردار فاروق خان لغاری نے بطور صدر اپنی ہی جماعت کی حکومت پر 58/2B کا کلہاڑا چلا دیا۔ پارٹی کے سینئر رہنما ملک معراج خالد نگران وزیراعظم بن گئے۔ پی پی پی کے ووٹر منفی پراپیگنڈے سے اس قدر مایوس ہوئے کہ وہ 1997 کے انتخابات میں گھروں سے باہر ہی نہ نکلے۔ پی پی پی کو صرف 18 نشستیں مل سکیں۔ مسلم لیگ نے 137 نشستیں جیت کر ہیوی مینڈیٹ حاصل کرلیا۔ ایم کیو ایم کے 12، اے این پی نے 10 اور آزاد اُمیدواروں نے 21 نشستیں حاصل کیں۔ میاں نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بن گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو ان کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں 2002ء کے انتخابات میں کنگ پارٹی پی ایم کیو نے 118 نشستیں حاصل کیں۔ پی پی پی کو 81 سیٹیں ملیں۔ پی ایم ایل این کو 18 اور ایم ایم اے کو 60 سیٹیں میں۔ ایم کیو ایم نے 17 نیشنل الائنس نے 16 نشستیں حاصل کیں۔ جنرل پرویز مشرف نے پی پی پی کے ایک درجن اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خرید کر پی ایم ایل کیو کی حکومت تشکیل دی۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 2008 کے انتخابات سے پہلے بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جنرل مشرف کے وردی اُتارنے کی وجہ سے متوقع انتخابی نقشہ تبدیل ہوگیا۔ خواتین کی خصوصی نشستوں سمیت پی پی پی نے 124، مسلم لیگ نون نے 91، مسلم لیگ قاف نے 54، ایم کیو ایم نے 25، اے این پی نے 13، ایم ایم اے نے 7، پی ایم ایل (ف) نے 5 اور آزاد اُمیدواروں نے 17 سیٹیں حاصل کرلیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی 25مارچ 2008 سے 25اپریل2012تک اس عہدے پر فائز رہے۔جب انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف 22جون 2012 سے24مارچ تک اس عہدے پر فائز رہے، 21ویں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یکم اگست 2017سے 31مئی 2018تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔یہ کھیل ابھی جاری تھا کہ سیاست میں ٹامک ٹویاں مارتے ہوئے عمران خان بھی سیاسی منظر نامے پر آگئے ۔2018کے انتخابات میں ان کی جماعت کو عددی اکثریت حاصل ہوئی اور 17اگست کو وہ پاکستان کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہوئے اور18اگست کو انہوں نے وزارت عظمی ٰ کا حلف اٹھایااور 9اپریل 2022کو رات گئے انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا۔اس وقت 23ویں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ہیں اور عمران خان ملک میںسولہویں عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی انتخابی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ضرور ہے مگر اس چشمے سے سیراب وہی ہو گا جس کے آسمان کی بلندیوں سے برسنے والے ابر کرم سے لے کر زیر زمین اس پانی سے گہرے تعلقات ہیں جو عوامی چشمے کے منہ سے نکل کر ندیوں نالوں سے ہوتا ہوا دریائوں کو بھر دیتا ہے۔فکر یہ لاحق ہے کہ اب تو پاکستان کے دریا بھی خشک پڑے ہیں ،لہٰذا 2023 کے عام انتخابات میں عوامی چشمے پانی اگلیں گے یا پھر خاکم بدہن خون۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button