CM RizwanColumn

بدیسی سردی اور سیاست گردی .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

ایک طرف غریب بے وسائل اور کئی عشروں کی محرومی کے شکار عام عوام پر بدیسی سردی نے حملہ کردیا ہے اور وہ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بیگار نما محنت مزدوری بھی کررہے ہیں اور ملک میں رائج رشوت ستانی کے نظام، جہالت، بیروزگاری، لوٹ مار، لاقانونیت، دہشت گردی اور راہزنی کا مقابلہ بھی کررہے ہیں تو دوسری طرف انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، ڈالر کی اڑان، سونے کی ظلم کی حد تک گرانی اور روزمرہ مہنگائی کے طوفان نے عام پاکستانی کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے مگر حکمران اور دوسری طرف بھی اپوزیشن نہیں وہ بھی حکمران اقتدار کی کھینچا تانی اور سیاست گردی میں مصروف ہیں۔ اس سے بڑھ کر عوام کے ساتھ مذاق اور ملکی سیاسی و انتظامی تاریخ کا عجوبہ کیا ہوگا کہ دونوں متحارب سیاسی گروہ اقتدار میں بھی ہیں، دونوں اقتدار اور سرکاری وسائل و اختیار کا جائز و ناجائز استعمال بھی کررہے ہیں اور دونوں ہی سیاسی ریشہ دوانیوں میں بھی ہمہ تن مصروف ہیں۔ ایک گروہ کے پاس مرکز اور دو صوبوں کے وسائل اور حکومت ہے اور وہ گرم گرم گاڑیوں اور دفتروں سے نکل کر انٹرویوز اور پریس کانفرنسز کرتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسرے سیاسی انقلابیوں کے ہاتھ میں بھی کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت چار صوبائی حکومتوں کی لگامیں ہیں اور تاریخ کا تاریک ترین اور بھونڈا مذاق یہ ہے کہ چار انتظامی یونٹوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود یہ انقلابی خود کو نسبتاً مظلوم اور محروم ثابت کرنے پر بضد ہیں اور کبھی ملک جام کر دینے اور کبھی دو صوبوں کی منتخب اسمبلیاں محض اس بناء پر توڑ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مرکز کی کرسی سے محروم ہیں۔ اس ساری سیاست گردی میں ایک طرف عوام کے ہی وسائل خرچ ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عوام کے حقوق سے ہی روگردانی کرتے ہوئے صرف عوامی نقصان کا ہی مجرمانہ عمل جاری ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ان بے لگام سیاستدانوں کو ماضی قریب و بعید میں ایک ان دیکھا ڈنڈا اکثر ایسی صورتحال میں کنٹرول کر لیتا تھا اب اس ڈنڈے کے نظر نہ آنے اور نہ چلانے کی بھی یقین دہائی کروا دی گئی ہے اس لیے اب یہ دونوں متحارب گروہ ملکی معیشت کی تباہی سے مسلسل لا غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی نظام کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایک گروہ ہر حال میں مرکز کا اقتدار چاہتا ہے اور اس کیلئے ہر طرح کا ملکی نقصان کرنے کے درپے ہے تو دوسری طرف والا سیاسی گروہ مرکز کے اقتدار پر قابض ہونے کے باوجود قانون کے مکمل اور سخت طریقہ سے نفاذ سے اجتناب کرنے کی پالیسی پر گامزن رہ کر تبدیلی کیلئے تباہی کرنے پر مصر گروہ کو کھلی چھوٹ دیئے ہوئے ہے۔ اس ضمن میں بعض سٹیک ہولڈرز کی جانب سے ڈھیل دینے جانے کا نتیجہ یہ نظر آرہا ہے کہ ملک میں انتظامی حوالے سے کوئی قانون اور ضابطہ روبہ عمل نظر نہیں آتا۔ پنجاب میں اقتدار کا تماشا اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہے بھی اور نہیں بھی مرکز میں وزیر اعظم ہے بھی اور نہیں بھی صدر سیکرٹریٹ میں صدر مملکت موجود ہیں لیکن ان کے اختیارات محض نمائشی اور ثانوی ہیں۔ فوج چونکہ اپنی ڈومین میں ہے لہٰذا اس
سے تو ماضی والے سخت کردار کی توقعات ہی عبث ہیں۔ ان حالات میں سردی میں ٹھٹھرتے عوام کہاں جائیں کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ چند روز پہلے تک تو مقامی سردی مقامی شہریوں کیلئے قابل برداشت تھی لیکن اب سائبیریا سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں نے ہم گرمی کے عادی لوگوں کے دانتوں سے دانت بجا کر رکھ دیئے ہیں۔ وسائل والے طبقات تو اس سردی کو بھی مہنگے گرم کپڑے پہن کر خشک میوہ جات کھا کر انجوائے کر رہے ہیں لیکن سستے اور لنڈے کے چیتھڑوں میں ملبوس غریب طبقات سردی کا مقابلہ گرم آہوں سے کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
بلوچستان کے اکثریتی غریب، لاچار اور بے بس عوام کے حالات یہ ہیں کہ اکثر لوگ سیلاب زدہ گندا پانی پینے کی وجہ سے معدہ کی پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو کر سسک سسک کر مر رہے ہیں لیکن جاتی امراء، بلاول ہاؤسز اور بنی گالہ میں بیٹھی بیک وقت حکومت اور اپوزیشن قیادت منرل واٹرز سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں رچا رہی ہے اور ستم یہ کہ چونکہ دونوں سیاسی قیادتیں حکومتوں کی آڑ میں بیٹھ کر ’’فائرنگ‘‘ کر رہی ہیں اس لیے ’’نشانہ‘‘ عوام ہی بن رہے ہیں۔ صرف بلوچستان ہی نہیں پورے ملک کی غریب اور پسماندہ علاقوں میں زہریلا پانی پینے کی وجہ سے 78 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار جبکہ 36 فیصد خواتین میں مس کیرج یعنی اسقاط حمل ریکارڈ کیا گیا ہے اور اگر لاہور کا یہ حال ہے تو سندھ اور کے پی کے پسماندہ حصوں کا کیا حال ہوگا۔ صرف صحت ہی نہیں اور بھی کئی طرح کے گھمبیر مسائل عام شہری کیلئے وبال جان بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے ملک میں اقتدار کی کھینچا تانی کی سرکس لگا رکھی ہے، اشرافیہ کی حکومتیں نہ صرف آئین اور قانون بلکہ لوگوں کی زندگیوں سے بھی کھلواڑ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بجائے توڑنے کی طرف لے کر جارہی ہیں۔ کئی انتظامی اور قانونی معاملات میں مرکزی حکومت بے بس نظر آتی ہے تو مرکز کی اپوزیشن اس بحران سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر کے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اختلافات، الزامات، اور سازشوں کی اس جنگ میں شہریوں اور ان کے مسائل کی کوئی بات ہی نہیں کر رہا اس بناء پر سیاسی اشرافیہ کی سیاست عروج پر اور عوام کا اعتماد اور مفاد پاتال میں جاگرا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت ملک میں جاری اس بحران کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اور تو اور میڈیا بھی عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف ان متحارب سیاسی جماعتوں کی خبریں چلانے میں مصروف ہے۔ دونوں گروہوں کے آگ لگا دینے والے بیانات تو بریکنگ نیوز کے طور پر چلائے جانے ہیں مگر غریبوں کی حمایت میں کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہوتی۔ حالانکہ ملک اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، معیشت تباہ حال ہے۔ مہنگائی کا طوفان برپا ہے، ماحولیاتی تباہی اور لوڈ شیڈنگ نے نظام زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، اس برے وقت میں مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے سیاست گردی کی خوفناک روش سے معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور عوامی مسائل پر بات کرنے والوں کا شدید قحط پایا جارہا ہے، مرکزی حکومت کے خواہشمند سیاست دان اگر یہ کہہ رہی ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کر چکا ہے تو اس کے سیاسی فائدے ہیں۔ اس تجزیے میں عوامی درد مفقود ہے۔ ایسے میں حکمران طبقے کا منافقانہ رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں عوامی مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اقتدار کا لالچ ہے۔ دوسرے لفظوں میں حق اور باطل کی جنگ، جمہوریت بہترین انتقام، ووٹ کو عزت دو اور دو نہیں صرف ایک پاکستان جیسے سیاسی اشرافیہ کے نعرے انتہائی کھوکھلے ہیں اور وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ تمام تر سیاسی رجیم چاہے وہ زرداری اور شریف برادران ہوں یا عمران خان سبھی جھوٹے اور اقتدار کے بھوکے ہیں۔ عوام الناس کو اب ان سب سے کنارہ کش ہو کر ان کو مسترد کردینے کی روش اپنانی چاہیے۔
سیاست گردی کے اس خود غرضانہ ماحول میں جہاں عوامی حقوق کا جنازہ نکال دیا گیا ہے وہاں لا اینڈ آرڈر کی پیچیدہ اور بے قابو صورتحال پیدا کرنے کی کوشش بھی اس طرح سامنے آئی ہے کہ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خود کش دھماکے سے ایک پولیس اہلکار شہید اور تین پولیس اہلکاروں سمیت چھث افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق دھماکا اسلام آباد کے علاقے آئی ٹین فور کے علاقے میں ہوا۔ اسلام آباد پولیس ترجمان کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان واقع چوک آئی ٹین فور میں اہلکاروں نے ایک مشکوک گاڑی کو تلاشی کیلئے روکا تو گاڑی میں موجود دھماکا خیز مواد پھٹ گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا خودکش تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ یہ خود کش بمبار ہائی ویلیو ٹارگٹ پر اسلام آباد میں داخل ہونا چاہتے تھے اور یہ گاڑی اگر وہاں نہ روکی جاتی تو یہ حساس علاقے میں خدا نخواستہ کسی بڑے ٹارگٹ کو ہٹ کر دیتی کیونکہ اس گاڑی کو روکنے کے بعد جونہی پولیس اہلکاروں نے گاڑی کی تلاشی کے لئے پیش قدمی کی تو گاڑی میں موجود بارود بلاسٹ ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا یہ حملہ بھی ملک میں جاری سیاست گردی کا شاخسانہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اگر اب بھی ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں دانش مندانہ اقدام کی توفیق نہ ہوئی تو عوام کو راست اقدام کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button