ColumnZameer Afaqi

ملک پر پھر دہشت گردی کے سائے .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

گزشتہ ایک ماہ سے ہونے والی پے در پے دہشت گردی کے واقعات نے جہاں ایک طرف شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے وہیں ملکی سیکورٹی اداروں کی کارکردگی اور صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان پیدا کر دیا ہے کہ دہشت گرد پھر آگئے ہیں؟ وفاقی دار الحکومت میں خود کش دھماکے سے ایک پولیس اہلکار شہید اور 3 زخمیوں نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہماری حفاظت پر مامور ادارے کہاں ہیں۔ تازہ واقعے کی تفصیل کے مطابق اسلام آباد میںریسکیو ذرائع کے مطابق دھماکا اسلام آباد کے علاقے آئی ٹین فور کے علاقے میں ہوا۔اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ دارالحکومت میں سکیورٹی ہائی الرٹ تھی اور چیکنگ چل رہی تھی کہ اسی دوران پولیس اہلکاروں نے ایک مشکوک گاڑی کو تلاشی کیلئے روکا تو گاڑی میں موجود دھماکا خیز مواد پھٹ گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا خودکش تھا، دھماکے میں گاڑی کا ڈرائیور بھی ہلاک ہوا جبکہ 4 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
اسلام آباد دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا بارود سے بھری گاڑی راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوئی، اسلام آباد پولیس نے فرض شناسی کا شاندار مظاہرہ کیا، تلاشی کے عمل کے دوران خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ گاڑی میں دو خودکش بمبار تھے، دھماکے میں دونوں دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ تلاشی کے عمل کے دوران ایک پولیس اہلکار شہید بھی ہوا۔وفاقی وزیر داخلہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بارود سے بھری گاڑی کا ٹارگٹ ہائی ویلیو تھا لیکن پولیس اہلکاروں کی فرض شناسی کے باعث اسلام آباد بڑے حادثے سے محفوظ رہا، فرض شناسی پر اسلام آباد پولیس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوںجبکہ ڈی آئی جی اسلام آباد سہیل ظفر چٹھہ کا کہنا ہے کہ ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے ایک مشکوک گاڑی کو روکا جس میں ایک مرد اور ایک عورت موجود تھے، گاڑی میں موجود شخص نے خود کو دھماکا خیز مواد کی مدد سے اڑایا۔ڈی آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے وفاقی دارالحکومت کوبڑی تباہی سے بچا لیا۔
اسلام آباد واقعے سے چند ہی روز پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں واقع کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)کے دفتر پر شدت پسندوں نے حملہ کیا جس میں تین اہلکاروں کے زخمی ہوئے تھے۔ انسداد دہشت گردی کے دفتر کے اندر سیف ہاؤس ہے جہاں پر 25 کے قریب شدت پسندوں کو تفتیش کی غرض سے رکھا گیا تھا۔ اسی سیف ہاؤس کے اندر ان شدت پسندوں نے دفتر کے اندر موجود پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر ان کو یرغمال بنایا اور فائرنگ بھی کی ۔خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے دفتر میں پیش آنے والا واقعہ حیران کن اس لیے بھی ہے کہ زیر حراست ملزمان نے کیسے سکیورٹی اہلکاروں کو اسلحے کی نوک پر یرغمال بنایا اور کیسے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا یہ معاملہ بھی کئی سوال اٹھاتا ہے۔
قبل ازیں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے چار پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا اور مزید چار شدید زخمی ہوئے مشتبہ دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بننے والے لکی مروت کے پولیس اسٹیشن کے ایک پولیس افسر نواز خان کے مطابق ملزمان نے اسٹیشن پر دستی بم اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا۔ حملہ آور راتوں رات جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس نے جوابی کارروائی کی اور مزید کمک طلب کی۔ تاہم پولیس کی مدد کیلئے کمک پہنچنے سے پہلے حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس حملہ آوروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی طرح گزشتہ مہینے، عسکریت پسندوں نے معمول کے گشت کے دوران ایک پولیس وین پر حملہ کر کے چھ پولیس اہلکاروں کو ان کی گاڑی کے اندر شہید کر دیا تھا،دہشت گردی کا یہ واقعہ لکی مروت کے علاقے دادے والا میں پیش آیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ واضح رہے کہ عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی گرچہ ایک علیحدہ گروپ ہے مگر یہ افغان طالبان کا اتحادی ہے۔
پچھلے ماہ یعنی نومبر کی 30 تاریخ کو کوئٹہ کے قریب بلیلی کے علاقے میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک ٹرک کے پاس ہونے والے خود کش حملے میں ایک پولیس افسر اور دو عام شہریوں سمیت تین افراد شہیدہو ئے تھے۔ اس میں کم از کم 24 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے تھے، جس میں 20 پولیس اہلکار اور چار عام شہری شامل تھے۔ کالعدم گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔واضح رہے کہ 30 نومبر کو کی گئی دہشت گردی کی اس کارروائی سے ایک روز قبل تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں سے ملک بھر میں حملے کرنے کیلئے کہا تھا۔ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا دونوں ہی افغانستان کی سرحد سے متصل ہیں، جہاں گزشتہ سال طالبان کی حکومت کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پاکستانی طالبان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
محولہ بالا واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی یہ لہر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بڑھائی جارہی ہے اور اس کے پیچھے اندرونی اور بیرونی لوگ شامل ہیں ۔ضرورت اس ا مر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی فائلوں کو جھاڑا جائے اور دیکھا جائے کہ وہاں کیا لکھا ہے اور کس طرح اس طرح کے واقعات سے نبٹا جاسکتا ہے ،کہنے کا یہ مقصد ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہی دہشت گردی کو روک سکتا ہے ۔خیبر پختونخوا سے کوئی اچھی اطلاعات موصول نہیں ہو رہیں وہاں پر دہشت گردوں کا کنٹرول اور بھتہ مانگنے کے واقعات گزشتہ کئی ماہ سے ہو رہے تھے اب تو کراچی سے بھی بھتہ مانگنے کی اطلاعات آ رہی ہیں اور حکومت آپس میں لڑنے میں مصروف ہے۔ کیا ہم کبھی قومی معاملات پر یکسوئی اختیار نہیں کر سکتے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button