Columnمحمد مبشر انوار

مستقبل کا سیاسی نقشہ.. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

بزرگ سیاستدان ،ماہر قانون اعتزاز احسن کا پاکستانی سیاست کے متعلق قیاس انتہائی خوبصورت اور مبنی بر حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست کے مستقبل پر کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی البتہ اس کے ماضی پر پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ایسی صورتحال سے پاکستان بارہا گذر چکا ہے اور اس وقت بھی غیر یقینی کی یہی صورتحال ریاست پاکستان کو درپیش ہے ،موجودہ سیاسی صورتحال اس لیے بھی زیادہ گھمبیر نظر آ تی ہے کہ ماضی میں پھر بھی قدرے سیاسی و جمہوری سوچ رکھنے والے سیاستدان میدان سیاست میں موجود تھے اور ان کی اہلیت کم از کم موجودہ سیاسی قیادت سے کہیں بہتر رہی ہے ۔یہی وجہ تھی کہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی معاملات کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے رہے ہیں ،ماسوائے اقتدار پر قابض ٹیکنو کریٹ یا آمروں کے اور اس دوران قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جنرل ایوب خان کے اقتدار پر قابض ہونے تک اور سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشی کہیں یا بیرونی مداخلت کے مبینہ ثبوتوں کی بنیاد پرپاکستان کو اس سانحہ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔بعد ازاں جنرل ضیا کے دور آمریت میں نرسری میں پلنے والی تاجرانہ سیاسی قیادت نے محاذ آرائی کی جس سیاست کی بنیاد رکھی،کیوں اور کس کی شہ پررکھی،پاکستانی اس سے بخوبی واقف ہیں ،جس کے متعلق مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے کف افسوس ملتے ہوئے کہاتھا کہ پہلی بار ایک تاجر سے معاملات طے کئے اور وہ دھوکہ دے گیا۔پاکستانی سیاست کی یہ تلخ حقیقت ،ماضی میں پروان چڑھائے گئے سیاست کے گلشن میں یہ کانٹے بوئے جا چکے ہیں،اس وقت حقیقی معنوں میں کسیکو بھی حقیقی سیاستدان نہیں کہا جا سکتا کہ تقریبا سب سیاستدان ہی کسی نہ کسی حوالے سے نرسری کے پروردہ نظر آتے ہیںاور ان کی نظریں اقتدار پر جمی ہیں۔ جمہوری سیاست کرنے والے ،جمہور کی بات کرنے والے یا ریاست پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے سیاستدان اس وقت افق سیاست پر نظر نہیں آ رہے جبکہ دوسری طرف عوامی سیاست؍ حمایت کے حوالے سے اس وقت صرف عمران خان میدان میں نظر آ رہے ہیں۔ اقتدار پر براجمان سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھیں تو کل تک یہ ایک دوسرے کے دست و گریباں رہے ہیں لیکن ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر اس وقت سب اکٹھے اقتدار میں بیٹھے ہیں اور ہر صورت اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ریاست پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھنے والی مقتدرہ کے حوالے سے دیکھیں تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے اعلان کے مطابق سیاست سے کنارہ کشی کر چکی ہے ،حقیقتاً و واقعتا اسے سیاست سے کنارہ کش ہی رہنا چاہیے لیکن جس سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے اور جس طرح ذاتی مفادات کیلئے ریاستی مفادات کو قربان کیا جارہا ہے،اس میں مقتدرہ کے کردار کو کیا سمجھا جائے؟اس سے آگے پر جلتے ہیں کہ الفاظ ملفوف بھی کریںتو مفہوم انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے اور غداروطن کا تمغہ ملتے دیر نہیں لگتی اور نہ ہی موجودہ دور میںقلم ٹوٹتے یا سرکی بازی لگتے دیر لگتی ہے،لہٰذا بین السطور مدعا سمجھنے میں قاری کی صوابدید ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہماری سیاست میں ریاستی ایشوز ناپید ہو چکے ہیں اور عوام تاریخ کی سب سے خوشحال ترین زندگی گذار رہی ہے ،جس کی وجہ سے سیاستدان آپس میںیوں جوتم پیزار ہیں کہ ایک دوسرے کے ذاتی پول کھولنے کے درپے ہیں تا کہ عوام کی نظروں میں گرایا جا سکے۔حیرت ہے اس سوچ پر کہ ماضی کی سیاسی قیادت کے متعلق اگر دیکھیں تو کیا بھٹو کی محبت اس عوام کے دلوں سے نکل سکی کہ جس نے عوامی جلسے میں اقرار کیا تھا کہ پیتا ہوں مگر تھوڑی سی،کیا بے نظیر بھٹو یا نصرف بھٹو کے خلاف عریاں تصاویری مہم چلانے کے باوجود ان کے سیاسی کردار کو محدود کیا جا سکا؟البتہ پیپلز پارٹی کے عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے دیگر ذرائع ضرور استعمال ہوئے ،جس میں سب سے اہم ترین حربہ جوڑ توڑ اور ووٹرز کی تعداد کو بڑھانا رہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب ایک شجر ممنوعہ بنا دیا گیا تھا اور اس کے ورکرز کیلئے پنجاب میں زندگی تنگ کر دی گئی،رہی سہی کسر زرداری کی مفاہمتی سیاست نے پوری کی اور پنجاب سے پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول ہو کیا جبکہ اس خلاء کو عمران خان نے پورا کیا۔ایسی کردار کشی کی مہم کسی بھی قومی سطح کے رہنما کی توقیر کو کم کرنے میں قطعی کامیاب نہیں رہی،اسی طرح نواز شریف کی بھارتی اداکارہ کے حوالے سے خبریں رہی ہوں یا مقامی ،کیا ان کے چاہنے والوں میں کوئی کمی آئی؟شہباز شریف کے قصے ہوں ،مریم نواز کی خبریں ہوںیا حمزہ شہباز ہوں،کسی ایک کی مقبولیت کو کم کر سکی؟زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا گیا ہو یا مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ،بلاول کے متعلق رکیک جملے کہے گئے ہوں یا ان کی ذاتی زندگی کی تشہیر کی گئی ہو،ان کی مقبولیت پر کوئی اثر ہوا ہو؟یہی صورتحال عمران کے حوالے سے ہے کہ عمران نے کبھی بھی اپنے ماضی کی زندگی سے انکار نہیں کیا ،کبھی ماضی کے سایوں سے فرار حاصل نہیں کیا لیکن آج اگر کسی بھی سیاسی رہنما کو پورے پاکستان میں عوامی حمایت حاصل ہے تو صرف اور صرف عمران خان ہے، جو پورے پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے ویسے ہم عجیب قوم ہیں کہ ہم اس ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کم اور منفی استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ اس وقت بھی سیاسی میدان میں ٹیکنالوجی کا جتنا منفی استعمال ہو رہا ہے،وہ ہماری سیاسی قیادت کی سوچ کا واضح مظہر ہے کس طرح ہم دوسروں کی ذاتی زندگی کو اس ٹیکنالوجی کی مدد سے عوام کے سامنے نمایاں کر رہے ہیں۔ کبھی کسی ایک سیاسی رہنما کی آڈیو یا ویڈیو منظر عام پر آتی ہے تو چند دنوں یاہفتوں کے بعد فریق مخالف کی ایسی نازیبا آڈیو یا ویڈیو منظر عام پر آ جاتی ہے لیکن حیران کن طور پر عوامی حمایت میں رتی برابر فرق نظر نہیں آتا کہ جو لوگ اپنی سیاسی قیادت کے ساتھ کل کھڑے نظر آتے ہیں،وہ آج بھی ان کے ساتھ ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر فریق یہ دعوی کرتا نظر آتا ہے کہ اس کے پاس بھی ایسی آڈیوز اور ویڈیوز کا انبار موجود ہے ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے پاس کرنے کا کوئی اور کام رہ نہیں گیا ماسوائے اپنے مخالفین کی خلوت میں جھانکنے کا اور اس کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کا۔ اسی پر کیا موقوف کہ ایک سیاسی قیادت کی فیکٹری میں تو عدلیہ سے متعلق بھی ایسی بے شمار آڈیوز اور ویڈیوز موجود ہیں ،جس کا اظہار وہ خود کرتے ہیں،کہ عدلیہ کیلئے ان کے حق میں فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ بچتا ہی نہیں۔مقام افسوس !کہ اس لڑائی میں پاکستان اور پاکستانیوں کا عالمی سطح پر کیاتاثر بن رہا ہے،کسی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ پرواہ ہے تو فقط اتنی کہ اقتدار ہمارے حوالے کرو وگرنہ تمہاری ویڈیوز کو ریلیز کر دیا جائے گا۔اس پس منظر میں یہ سوچنا کہ سیاسی اشرافیہ اس ریاست کیلئے کچھ سوچے گی،ریاستی مفادات کا تحفظ کرے گی ،علاقائی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے ریاست کو کیسے سنبھالے گی،عالمی چالوں سے کس طرح ریاست کو پیش کر پائے گی،عبث ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کو اس وقت فریق مخالف کو ننگا کرنے سے غرض ہے۔اسی سوچ کاثمر ہے کہ گذشتہ سات/آٹھ ماہ میں پاکستان کے سات؍آٹھ لاکھ بہترین ہنرمندبیرون ملک ہجرت کر چکے ہیں لیکن جن کا کوئی وسیلہ نہیں،جو ہنرمند نہیں،وہ اسی ملک میں زندہ دفن ہونے کیلئے رہ گئے ہیں۔میر ی نظر میں مستقبل کا سیاسی نقشہ یہ نہیں کہ کون اقتدار میں آرہا ہے یا کس سیاسی جماعت کا اتحاد کس کے ساتھ ہو رہا ہے،بلکہ مستقبل کا سیاسی نقشہ یہ ہے کہ مختلف سافٹ وئیرز کی مدد سے فریق مخالف کی ہیجان خیز ویڈیوزکی تشہیر کی جائے گی،ایک دوسرے کو ننگا کیا جائے گا لیکن ملکی مفادات کسی کی ترجیح نظر نہیں آتے حتی کہ ملکی مفادات کے محافظوں کے بھی نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button