Editorial

وزیراعلیٰ پنجاب کی معزولی اوربحالی

 

لاہور ہائی کورٹ نے چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے بیان حلفی جمع کرانے اور اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کردیا ہے۔عدالت نے گورنر پنجاب سے بھی اپنا آرڈر واپس لینے کی انڈر ٹیکنگ مانگتے ہوئے سماعت گیارہ جنوری تک ملتوی کردی ہے اور عدالتی حکم نامے کے بعد پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ 11 جنوری تک بحال رہیں گے چودھری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا اور درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں، خط سپیکر کو لکھا گیا، وزیراعلیٰ کو نہیں، ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے اور گورنر کو اختیار ہی نہیں کہ وہ غیر آئینی طور پر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر سکیں۔جمعرات اورجمعہ کی درمیانی شب گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وفاقی حکومت اور لیگی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹی فکیشن اپنے ٹویٹر پر اِس پیغام کے ساتھ جاری کیاتھا کہ وزیراعلیٰ نے مقررہ وقت تک اعتماد کا ووٹ نہیں لیا لہٰذا وہ عہدہ چھوڑ دیں۔گورنر پنجاب نے 19 دسمبر شام چار بجے تک وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی لیکن اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے باوجود چودھری پرویز الٰہی نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیاتھا بلکہ سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب محمد سبطین خان نے گورنر پنجاب کے احکامات کو غیر آئینی قرار دے کر اِس مقصد کے لیے اجلاس طلب نہ کیا تھالہٰذا گورنر پنجاب نے مقررہ وقت گذرنے کے بعد چودھری پرویز الٰہی کو معزول جبکہ ان کی صوبائی کابینہ کو تحلیل کرنے کے احکامات جاری کیے جو بالآخر ہائیکورٹ میں ختم کردیئے گئے ، ہائی کورٹ میں اِس کیس کی دوبارہ سماعت گیارہ جنوری کو ہوگی اور تب تک ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر اپنا کام کرتے رہیں گے۔اسی معاملے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ عدالت نے چودھری پرویز الٰہی کو عبوری ریلیف دیا اور پابند کیا ہے کہ
وہ کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے، 11 جنوری سے عدالت دونوں فریقین کو سن کر فیصلہ دے گی۔اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے ہائیکورٹ کے حکم پر تحریری حلف نامہ جمع کرادیا ہے تاہم وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ حتمی ہے اور عمران خان کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہو گا۔امپورٹڈ حکومت کے سلیکٹڈ گورنر نے آرٹیکل 58(2) b بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ مملکت خداداد کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی بحران اگرچہ کچھ دنوں کے لیے ٹل گیا ہے لیکن بلاشبہ دونوں جانب سے متوقع صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کی جائے گی لیکن اِس اہم اور حساس معاملے پرہائی کورٹ میں ابھی سماعت ہونا باقی ہے اور تاریخ بھی مقررکی جاچکی ہے لہٰذا اطمینان ہوسکتا ہے کہ اگلی سماعت تک کھینچاتانی اور تنائو والی صورت حال کم کم ہی دیکھنے کو ملے گی اور درحقیقت صوبے میں سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرکے وفاقی اتحادی حکومت کو عام انتخابات کے انعقاد کی طرف لانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل کو روکنےکے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ ہر روز نئی سے نئی حکمت عملی سامنے آرہی ہے اور ایسا حالیہ دنوں میں ہی نہیں ہورہا بلکہ تب سے نئے تجربات اور نت نئی مثالیں قائم ہورہی ہیں جب سے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدارسے الگ کیاگیا ہے اور عمران خان پارلیمان سے مستعفی ہوکر ہر طریقے سے اتحادی حکومت پر دبائو بڑھارہے ہیں ۔پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنا بھی قبل ازوقت عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ لینے کی کوشش ہے۔ اتحادی وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی جنگ میں شدت آنے کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بارہا کوشش کی ہے کہ معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ حل ہوجائے تاکہ جو بھی جماعت برسراقتدار ہو ، اُسے ملک و قوم کودرپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل یکسوئی اور توجہ حاصل ہو، مگر ہم نے دیکھا ہے کہ صدر مملکت کی مصالحت کی کوششیں بھی رائیگاں جاچکی ہیں، کیونکہ دونوں جانب سے کوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں اسی لیے سیاسی بحران کم ہونے کی بجائے گہرا ہورہا ہے بلکہ جب گورنر پنجاب کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی باتیں سرگوشیوں میں اور پھرکھلے عام ہورہی تھیں، اِس وقت بھی اِن کے تسلسل میں کہاجارہا تھا کہ گورنر کی طرح صدر مملکت بھی وزیراعظم پاکستان کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہہ سکتے ہیں، مگر اسی دوران گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کوڈی نوٹیفائی کردیا۔ متذکرہ منظر کشی اور روداد کا مقصد فقط یہ گذارش کرنا ہے کہ عمران خان اپنے اعلان کے مطابق اقتدار سے باہر ہونے کے بعد زیادہ خطرناک ہوچکے ہیں اور اتحادی حکومت کی ہر حکمت عملی کے جواب میں وہ بھی اپنی حکمت عملی سامنے لارہے ہیں، لہجوں میں تلخی اور برداشت کا فقدان عام ہے اور اِس کی مثالیں ہم رواں سال کے شروع سے ابتک دیکھتے آئے ہیں، عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی، ایوان سے باہر ہوکر اتحادی حکومت کو کھل کھیلنے کا وسیع موقعہ فراہم کرگئے لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر وہی غلطی دوبارہ نہیں دھرانا چاہتے جو قومی اسمبلی میں دھراکر باہر آئے ہیں لہٰذا وہ دونوں اسمبلیاں تحلیل کرکے حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کو بھی گھر بھیجنا چاہتے ہیں اورایسا ہی عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے وقت قومی اسمبلی کی تحلیل کے اعلان کی صورت میں کیا تھا۔ بلاشبہ ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس کو ہمیشہ ہی غیر سیاسی گھر مانا جاتا ہے لیکن رواں سال ایوان صدر نے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان تلخیاں ختم کرانے کے لیے کئی بار کوششیں کی ہیں مگر دونوں جانب سے کوئی بھی یک نکاتی مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں جوقبل ازوقت عام انتخابات ہے۔ ہم آج پھر یہی بات دھرائیں گے کہ سیاسی قیادت کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے ماضی میں بھی اٹھاون ٹو بی کےذریعے عوامی مینڈیٹ کو روندا گیا، اور پھر غلطی کا ادراک ہونے کے بعد اِس شق کو ہی ختم کردیاگیالہٰذا جب ہم جمہوریت پر شب خون مارنے کی بات کرتے ہیں تو اِس دوران اپنے غیر جمہوری رویوں اور ادائوں پر بھی کچھ غور کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ہمارے یہاں لولی لنگڑی جمہوریت ہے، مگر پھر بھی اِس کو چلنے نہیں دیا جارہا اور اِس کی راہ میں وہ تمام روڑے اٹکائے جارہے ہیں جو جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button