Columnمحمد مبشر انوار

استحکام،کب اور کیسے ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

ملکی سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ 2014کے بعد سے یہاں سیاسی عدم استحکام بتدریج بڑھتا رہا ہے اور اس وقت یہ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف،دونوں کسی بھی صورت اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور نہ ہی اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ تسلیم کہ موجودہ سیاسی ہیئت میں کوئی بھی سیاسی جماعت حقیقی طور پر حزب اختلاف میں نہیں لیکن مفادات کا ٹکراؤ واضح طور پر نظر آ رہا ہے اور تحریک انصاف کی حد تک کم از کم یہ واضح ہے کہ وہ ریاستی مفادات کی بات کر رہی ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم یا اتحادی جماعتوں کی حکومت میں ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے پارلیمان کو استعمال کیا جا رہا ہے،نیب ترامیم اس کا مبینہ ثبوت ہیں ۔ان ترامیم کے باعث،حکومتی اتحاد کے عزائم کھل کر سامنے آ چکے ہیں اور پس پردہ شخصیت کی بھرپور تائید اس ا مر کی غماز نظر آتی ہے کہ بعد از مدت ملازمت جو الزامات لگائے جا رہے ہیں،وہ بے بنیاد نہیں۔ تاہم ہنوز یہ الزامات ہی ہیں کہ ابھی تک نہ تو ان کی تفتیش ہوئی ہے ،نہ ان پر عدالتی کارروائی ہوئی ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں ان کو ثابت کیا جا سکا ہے ،جس کا امکان موجودہ صورتحال میں ممکن نظر بھی نہیں آتا کہ موجودہ حکومت اپنے ’’محسنوں‘‘ بالخصوص ’’سٹیٹس کو‘‘کے علمبرداروں کے خلاف روبہ کار کیسے آ سکتی ہے؟رجیم چینج آپریشن کے بعد سے تحریک انصاف مسلسل سڑکوں پر احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے اور اتحادی حکومت اور مقتدر حلقے کسی بھی طور تحریک انصاف کے نئے انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کرتے نظر نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس،صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت،ایمرجنسی کااعلان کرکے پارلیمان کی مدت بڑھانے اور صوبائی سطح پر گورنر راج لگانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بظاہر ایسی ایمرجنسی نظر نہیںآتی کہ جس کو آئین کے مطابق واقعتا ایمرجنسی کہا جا سکے لیکن جہاں بات انا ،ضد یا ذاتی مفاد کی ہووہاں ایسے اقدامات کا کیا جانا بعید ازقیاس بھی نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہذب معاشروں اور ملکی مفادا ت کو عزیز تر رکھنے والی سیاسی قیادتیں ایسی صورتحال میں قبل از وقت انتخابات کی طرف جانے کو ترجیح دیتے ہوئے،جمہور سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کو زیادہ مناسب اور بہتر سمجھتی ہیں۔اصولی طور پر ایسی پیچیدہ صورتحال میں ،سیاسی بزرجمہر معاملات کے حل کی خاطر ،ان معاملات کو عوام کے سامنے رکھتے ہیں،عوامی رائے طلب کرتے ہیں اور عوامی حمایت کے بل بوتے پر ملک کو درپیش مسائل پر قانون سازی کرتے ہوئے بآسانی آگے بڑھتے ہیں لیکن پاکستان کے سیاسی بزرجمہر،جمہور کے نام پر ڈرائنگ رومز میں فیصلے کرنے والوں،بند کمروں میں مفادات کی بندر بانٹ کرنے والوںاور ان کے پشتیبانوں کو یہ گوارا نہیں کہ عوامی رائے عامہ سے رجوع کیا جائے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکمرانوں کو یہ بخوبی اندازہ ہے کہ جس کارکردگی کا مظاہرہ اس حکومت نے گذشتہ سات؍آٹھ ماہ میں کیا ہے اور جو عوامی طاقت اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ ہے،اس کی موجودگی میں حکومت کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ عوامی عدالت سے رجوع کرے البتہ صورتحال اگر اس کے برعکس ہوتی تو یقینی طور پر حکومت قبل از وقت عام انتخابات میں کودنے سے قطعی گریز نہ کرتی۔
بہر کیف فریقین اپنے اپنے سیاسی و آئینی داؤ پیچ مسلسل آزما رہے ہیں اور کبھی ایک فریق تو کبھی دوسرا فریق حاوی نظر آتا ہے لیکن ابھی تک ایسا کوئی بھی عمل سامنے نہیں آیا کہ یہ کہا جا سکے کہ اس داؤ سے فریق مخالف چاروں شانے چت ہو گیا ہے۔ حتی کہ 26نومبر لانگ مارچ کے آخری مقام پر یہ توقع تھی کہ عمران خان کچھ ایسا اعلان کریں گے کہ جس سے حکومت عام انتخابات کیلئے مجبور ہو جائے گی لیکن عمران خان نے لانگ مارچ کے آخری روز صرف اتنا کہا کہ اگر حکومت عام انتخابات کااعلان نہیں کرتی تو وہ اس نظام کا حصہ نہیں رہیں گے اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ عمران خان کے اس اعلان کو بھی قریباً تین ہفتے گذر چکے اور تادم تحریر اسمبلیاں تحلیل کرنے کاا علان نہیں ہوا،اس دوران جو نشیب و فراز سامنے آئے،وہ بھی ہمارے سامنے ہیں کہ پنجاب کے وزیر اعلی چودھری پرویز الٰہی پر مسلسل عدم استحکام نظر آیا اور یہ خوف لاحق رہا کہ اگر عمران خان اسمبلی تحلیل کرنے کا کہتے ہیں تو کہیں چودھری پرویز الٰہی اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کیلئے پی ڈی ایم کے ساتھ نہ مل جائیں۔اس صورت میں عمران خان کسی بھی صورت متوقع نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتے گو کہ ان کے اراکین اسمبلی یقینی طور پر مستعفی ہو جاتے لیکن بعینہ قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلی کے معاملات بھی چلتے رہتے۔ تاہم موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ غیر یقینی بہت حد تک ختم ہو چکی ہے اور آخری اطلاعات تک،چودھری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے پر آماد ہ ہو چکے ہیں ۔سترہ دسمبر کو عمران خان لبرٹی چوک لاہور میںاپنے جلسہ کے دوران اسمبلی تحلیل کرنے کی حتمی تاریخ کا اعلان کریں گے بشرطیکہ اس دوران پس پردہ مذاکرات یا نادیدہ ہاتھ کا دباؤ ایک بار پھر اس فیصلے سے رجوع نہ کروادے،عین موقع پر چودھری پرویز الٰہی یا مونس الٰہی کو کوئی غیر متوقع فون کال موصول نہ ہو جائے،کہ یہ تصور کیا جا سکتا ہے چودھری پرویز الٰہی آئندہ ممکنہ انتخابات میں اپنی انفرادی حیثیت،قاف لیگ ،برقرار رکھنے کیلئے کچھ نہ کچھ یقین دہانی حاصل کر چکے ہوں گے۔بالفرض صوبائی اسمبلیاں واقعتا تحلیل ہو جاتی ہیں تب کیا ہو گا؟کیا وفاقی حکومت صرف صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا رسک لے کر تحریک انصاف کو دو صوبوں میں اپنی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی متحمل ہو سکے گی؟یا آئینی اقدامات کرتے ہوئے ،ایمرجنسی کا نفاذ کرے گی؟بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ وفاقی حکومت اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ایسے اقدامات ضرور کرے گی لیکن ان اقدامات کو عدالت عظمی میں فوری طور پر چیلنج کیا جا سکتا ہے یا بصورت دیگر عدالت عظمی ازخود نوٹس لے کر وفاقی حکومت کو ایسے اقدام کو کالعدم قرار دے گی بعینہ جیسے مارچ میں کیا گیا تھا؟
ان مفروضات سے ہٹ کر اگر یہ فرض کیا جائے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین پیش ہو کر اپنے مؤخر شدہ استعفوں کو سپیکر قومی اسمبلی سے منظور کروا لیتے ہیں،تو کیا وفاقی حکومت یا الیکشن کمیشن عام انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں یا سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اس انتخابی عمل سے باہر رہ سکیں گی،یا کیا ملکی خزانہ انتخابات کے عمل کو دو حصوں میں مالی طور پر برداشت کر سکے گا؟مکرر عرض ہے کہ ایسی پیچیدہ صورتحال میں بالعموم مہذب جمہوری معاشروں میں جمہوری رائے سے رجوع کیا جاتا ہے یا کم از کم یہ یقین ہو کہ ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح نہیں دی جارہی،اس صورت میں آئینی طور پر آنے والی حکومت کے ساتھ تعاون تو کیا جاتا ہے لیکن ملکی فقط ملکی مفادات پرجبکہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے قانون سازی اقدامات پر اس وقت عدالت عظمیٰ کا ردعمل کیا ہے؟ بالخصوص نیب ترامیم کے حوالے سے اس وقت یہ محسوس ہو رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کسی بھی وقت ان ترامیم کالعدم قرار دے سکتی ہے اور جتنے ملزمان بھی ان ترامیم کے بعد بری ہو چکے ہیں،ان کے خلاف مقدمات دوبارہ کھل سکتے ہیں۔ نجانے سیاسی اشرافیہ پنگ پانگ کا یہ کھیل کب تک کھیلے گی اور کب تک عوام کو یوں ہی بیوقوف بناتی رہے گی کہ ایک جماعت اقتدار میں آ کر ایک قانون بنائے اور دوسری اس کے برعکس قانون سازی کرے۔ایک حکومت میں آئے تو دوسری سڑکوں پر،دوسری آئے تو پہلی سڑکوں پر،اس تماشہ گری میں فائدہ بہرکیف کسی ایسے فریق کو پہنچتا ہے جو براہ راست کھیل کا حصہ تو نہیں لیکن اس کے مفادات سیاسی اشرافیہ کی اس سیاسی عدم بلوغت میں ضرور ہے۔ لہٰذا ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب سیاسی اشرافیہ نہ صرف ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی سیاسی بلوغت کا اظہار کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button