ColumnImtiaz Ahmad Shad

معیشت کی بربادی ، ذمہ دار کون ہیں؟ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

معیشت کی بربادی ، ذمہ دار کون ہیں؟

پاکستان کی معیشت شدید بحرانوں میں گھرچکی ہے،لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کی قیمت کس طبقے کو چکانی پڑے گی اور مستقبل میں حکمران طبقے کی جانب سے کئے جانے والے معاشی فیصلوں کا نشانہ کون بنے گا؟کسی بھی طبقاتی سماج میں حکمر ان طبقہ معاشی بحران کا سارا بوجھ محنت کش اور درمیانے طبقے کے کندھوں پر منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔یہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ ملکی معیشت کی حالت نہایت دگرگوں ہے لیکن بعض لوگ اس سے لاپروا ہو کر سیاست، سیاست کھیل کر اپنے مفادات کے حصول کیلئے سرگرم ہیں۔انصاف کے ادارے خاموش ہیں،بقول طاقتور حلقوں کے، انہوں نے سیاستدانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے،میڈیا پسند نہ پسند کو خبر بنا کر تڑکے لگانے میں مصروف ہے جبکہ سیاستدان دست و گریبان ہیں، ایسے میں عوام خود ساختہ مہنگا ئی کا شکار ہے۔بدقسمتی سے ،مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ تینوں عناصر بے حسی اور بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ معیشت کی بربادی کی اصل وجہ کیا ہے؟کون لوگ ہیں جو پاکستانی کی معیشت کو برباد کر چکے اور مزید بربادی کر رہے ہیں۔موجودہ حکومت اس صورتحال کی ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہراتی ہے،اور ہمارے لولے لنگڑے جمہوری نظام میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے جب کہ اپوزیشن اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈالتی ہے۔ عمران خان نے اپنی اور موجودہ حکومت کا موازنہ کرنے کیلئے بعض اعداد و شمار پیش کئے جن کے مطابق،ان کے دور حکومت میں ملکی معیشت تیزی سے بہتری کی طرف جا رہی تھی لیکن موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے آتے ہی اس تیزی اور ترقی کو زمیں بوس کر دیا۔عمران خان کے مطابق موجودہ اتحادی حکومت نے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کا بازار گرم کیا اور ملکی معیشت کو برباد کیا۔اسی بات کو بنیاد بناتے ہوئے عمران خان نے مطالبہ کیا کہ معیشت کو اس بحران سے نکالنے کیلئے فوری انتخابات ہونے چاہئیں۔ان کے نزدیک ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد حل الیکشن ہیں تاکہ عوامی امنگوں کے مطابق جو نئی حکومت آئے وہ فیصلے کرے۔لیکن اتحادی حکومت موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار عمران خان کو سمجھتی ہے، ان کے بقول عمران خان نے معیشت کا بیڑا غرق کردیا۔کون غلط بیانی سے کام لے رہا ہے ؟ اور کون سچ بول رہا ہے ؟ یہ جاننے کیلئے تو اعداد و شمار دستیاب ہیں وہاں سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ عوام کو درپیش مسائل کا ہے۔اس تما م کھینچا تانی میں پاکستان اور پاکستانی عوام کا نقصان ہو رہا ہے۔موجودہ حالات میں عمران خان ایک طرف کھڑا ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں دوسری جانب کھڑی ہیں۔حکمران طبقہ اپنے پرانے کیسز معاف کروانے میں کامیاب ہو چکا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس واضع عندیہ دے رہے ہیں کہ نیب قوانین میں تبدیلی کر کے مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان جارحانہ موڈ میں ہیں اور وہ تمام سیاسی جماعتوں کو چور اور اداروں کو کرپٹ گردانتے ہیں لہٰذا ملکی معیشت برباد کرنے کا موجب عمران خان ہی ہے۔
اس سے بڑی نالائقی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں وطن عزیز کی حکمرانی پر فائز ہیں ،ایک سے بڑھ کر ایک تجربہ کار ٹیم رکھتے ہیں اس کے باوجود ملک ہر گزرتے لمحے دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔آخری آپشن اسحاق ڈار تھے وہ بھی اپنی پوری طاقت لگا چکے،مگر ڈالر پھر بھی اونچی اوڑان بھر چکا۔ بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کے سب جگاڑیے ہیں،کسی کے پاس وطن عزیز کی خیر خواہی کا کوئی خاطر خواہ حل موجود نہیں۔سیاست کو اگر سیاست لیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔چالیس سال تک مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے سیاسی کم نجی دشمنی کا ایسا ماحول قائم کیے رکھا کہ معاشرے میں بڑی واضح تقسیم دیکھنے کو ملی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے سے لے کر گھر کی معزز خواتین کی کردار کشی تک ہر حد کو پار کیا گیا۔عوام بچاری ان کی باتوں میں آکر اپنی اپنی سطح پر انہیں نجات دہندہ تصور کرتی رہی، مگر یہ ایک دوسرے کو باریاں دیتے اور لیتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ لیڈران اربوں پتی بن گئے اور عوام روٹی،کپڑا اور مکان کی امید میں قبروں کو جا پہنچی۔جس عمران خان کو آج یہ سب مل کر معیشت کی بربادی کاذمہ دار ٹھہرارہے ہیں،حقیقت میں اس نے ان کی نورا کشتی اور دغابازی کی سیاست کا پردہ فاش کیا،اس نے عوام
میں شعور بیدار کیا کہ یہ دراصل اندر سے ایک ہیں۔ سات ماہ پہلے یہ سب کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو ہٹانا بے حد ضروری ہے اگر ایسا نہ کیا تو یہ ہم سب کو شکنجے میں لے آئے گا، اور عوام بھی عمران خان پر کسی حد تک نالاں تھی کہ وزیر اعظم ہونے کے باوجود آپ ان کی کرپشن کو کیوں نہیں پکڑ پارہے ہیں؟ اگر عمران خان کی حکومت کا تختہ نہ الٹا جاتا تو یہ بات معلوم ہی نہیں ہونی تھی کہ دراصل باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت ان کے کیس تو اوپن ہونے تھے مگر انجام تک نہیں پہنچانا تھا۔یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان پہلے دن سے کہہ رہا ہے کہ جب تک ہم قرضوں کے شکنجے سے نہیں نکلتے اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر سکتے۔امریکہ کی غلامی ہمیں کسی صورت خوشحال پاکستان نہیں بنانے دے گی۔جو باتیں ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ امریکہ کبھی پاکستان کو خودار ملک نہیں بننے دے گا، اگر ترقی کرنی ہے تو امریکہ کی غلامی سے نکل کر بطور دوست اس کے ساتھ چلنا ہو گا، وہی باتیں عمران خان نے بطور وزیر اعظم جب کہنا شروع کیں تو یقینا رجیم چینج تو ہونا تھی۔مگر افسوس جو کل تک امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے ،کا نعرہ لگانے والے سبھی عمران خان کے خلاف ہو گئے۔مگر سلام ہے اس قوم کو جو ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ہماری اوقات یہ ہے کہ ابھی دو دن پہلے اسحاق ڈار نے پٹرول دس روپے سستا کرنے کا اعلان کیا ہے اور آئی ایم ایف نے رگڑا دے دیا۔بہت سے لوگ عمران خان کو اس بات پر طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ اداروں کے خلاف ہے،حالانکہ عمران خان متعدد بار یہ واضح کر چکے کہ اداروں کی مضبوطی کے بغیر ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔عمران خان کی حکمت عملی اور دور اندیشی کا یہ عالم ہے کہ گولیاں کھانے اور پھر قاتلوں کو جاننے کے باوجود جذباتی ہونے کے بجائے انصاف کے اداروں پر یقین رکھتا ہے۔یہاں تو ایسے مہربان بھی ہیں جنہوں نے انہی عدالتوں پر ڈنڈوں کے ساتھ حملے کیے ، میمو گیٹ اور ڈان لیکس کے قصے کوئی زیادہ پرانے نہیں مگر مجرم عمران خان ہے ،کیوں کہ اس نے اداروں کو کمزور کرنے کیلئے بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا۔یہ منجن اب زیادہ دیر تک بکنے والا نہیں کہ ہر خرابی کا الزام عمران خان پر دھرو اور میڈیا پر سرمایہ لگائو اور عوام کو بے وقوف بنائو۔عوام کو معلوم ہے کہ ان کی معیشت کی بربادی کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button