Editorial

معاشی مسائل اور جلد انتخابات کا مطالبہ

 

وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان سے الیکشن پر مذاکرات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے دائو پر نہیں لگائی، معیشت صحیح راستے پر لانا چاہتے ہیں،ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ایڑیاں رگڑ اور انگوٹھے لگا کر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا مجبوری تھی۔ وزیرخزانہ کی صدر سے ملاقات پروزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھاکہ ایوان صدر میں اسحاق ڈار کی صدر مملکت سے ملاقات میری اجازت سے ہوئی تھی۔ ملک کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ہم تمام اختلافات بھلا سکتے ہیں۔اسی پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کبھی دیوالیہ ہوا نہ ہوگا۔ڈالر اور گندم کی سمگلنگ روکنے کے لیے بارڈر سیل کرنا پڑا تو کریں گے،گندم فرٹیلائزر اور ڈالر ایک پڑوسی ملک میں سمگل ہو رہا ہے۔سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم محمد شہبازشریف اور حکومت کی اتحادی جماعتوںکی قیادت بارہا واضح کرچکی ہے کہ قبل ازوقت عام انتخابات نہیں کرائے جائیں گے بلکہ ایسا بھی امکان ظاہر کیا جاچکا ہے کہ انتخابات کا انعقاد ایک سال کے لیے ملتوی کردیا جائے، حزب اقتدار نے اِس عزم کا اعادہ ہمیشہ تب تب کیا ہے جب جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مذاکرات کو جلد انتخابات کی تاریخ سے مشروط کیا ہے۔ وطن عزیز معاشی مسائل سے دوچار ہے ،عمران خان اِس کا ذمہ دار اتحادی حکومت کو قرار دیتے ہیں اور ایسا ہی موقف اتحادی حکومت کی طرف سے اختیار کیا جاتا ہے۔ پس تشویش ناک معاشی صورت حال کا فائدہ عمران خان اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس وقت انہیں عوام کی ہمدردی بھی حاصل ہے دوسری طرف اتحادی حکومت کے قبل ازوقت انتخابات کے اعلان کے انکار کی وجہ بظاہر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فی الحال اتحادی حکومت اپنا ایک بھی وہ وعدہ وفا کرتی نظر نہیں آتی جو حکومت کی تبدیلی سے قبل بلکہ ساڑھے تین سال تک دھرایا جارہا تھا، عمران خان کے دور حکومت کو معاشی تباہی کا دور قرار دیاجاتا ہے اور موجودہ حالات کو ماضی سے بدترکہا جارہا ہے مگر دیکھا جائے تو تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی کا بوجھ موجودہ حکومت کے دور میں ہی عوام کی پیٹھ پر لادا گیا ہے۔ پچھلی حکومت بھی کرونا سمیت کئی مسائل سے دوچار رہی اور موجودہ اتحادی حکومت کو بھی سیلاب سمیت کم و بیش ویسے ہی مسائل کا سامنا ہے لہٰذا سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے مسائل اور وسائل کم و بیش یکساں ہی دیکھے جاسکتے ہیں مگر مہنگائی بلاشبہ موجودہ حکومت کے دور میں تاریخی عروج پر ہے، لہٰذا عمران خان اِس صورتحال کا فائدہ اٹھانے
کے لیے جلد انتخابات کا انعقاد چاہتے ہوں گے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ نون اور اِس کی اتحادی جماعتیں موجودہ معاشی حالات، عوامی مسائل اور سابق وزیراعظم کے عزائم کوبھانپتے ہوئے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل رائے عامہ اپنے حق میں کرنا چاہتی ہیں تاکہ انتخابی مہم کے دوران موجودہ سخت معاشی فیصلوں کے اثرات کو زائل کرسکیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات کے قبل ازوقت انعقاد کا مطالبہ اور اِس مطالبے کو دوسری طرف سے مسترد کیے جانے کی بنیادی وجہ یہی ہوسکتی ہے مگر کیا اگلے چند ماہ میں معاشی لحاظ سے ایسی خوشخبریاں متوقع ہیں جن کے فوائد عام پاکستانی تک پہنچیں گے اور وہ مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو فراموش کرکے پہلے والے ووٹ بینک کو برقرار رکھیں گے، ہمارے خیال میں ہم جیسے معاشی گرداب میں پھنس چکے ہیں، چند ماہ میں اِس گرداب سے نکلنا ممکن نہیں اِس لیے سابقہ حکومت ہو یا موجودہ یا پھر آنے والی منتخب حکومت سبھی کو معاشی مسائل بری طرح الجھا کر رکھیں گے کیونکہ اِس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل اور مستقل حل کسی کے پاس نظر نہیںآتا جبکہ معاشی بحران مستقل اور دور رس معاشی پالیسیوں کے ذریعے ہی دور ہوسکتا ہے،لہٰذا خدشہ ہے کہ اگر ایسی معاشی پالیسیاں اور فیصلے بدستور جاری رہے جو موجودہ حکومت نے کیے ہیں تو پھر عام پاکستانی ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہماری مجموعی صورت حال ایسی ہوچکی ہے کہ ہم لحاف منہ پر لیتے ہیں تو پائوں ننگے ہوتے ہیں لہٰذا عوام کو ریلیف دیں تو عالمی مالیاتی ادارے خفا ہوتے ہیں اور اگر اُن کی شرائط تسلیم کی جائیں تو عوام کا کچھ نہیں بچتا بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی شدید نوعیت کا سیاسی نقصان ہوتا ہے، یہاں ہم ڈالر سے متعلق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی گفتگو کا بھی حوالہ دینا چاہیں گے کیونکہ آج وطن عزیز میں ہر بحران کی جڑ بالخصوص مہنگائی کی وجہ ڈالرکو قرار دیاجارہا ہے اور جیسا کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے خود اعتراف کیا ہے کہ ڈالر ہمسایہ ملک سمگل کیے جارہے ہیں تو باادب ہم پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی ادارے کیا کررہے ہیں۔ کیا ریاست اور ادارے ایسے مافیاز کے سامنے بے بس ہیں جو اِس گھنائونے کام میں ملوث ہیں اور ہم انہیں نشان عبرت بنانے کی بجائے صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ عجیب صورت حال ہے کہ ہم بیرون ملک سے مہنگی اجناس، کھادیں اور دوسری مصنوعات درآمد کرتے ہیں جو بڑی آسانی سے ہمسایہ ملک سمگل کردی جاتی ہیں، ڈالر ہمارے خرچ ہوئے،پریشانی پاکستانی قوم نے اٹھائی لیکن فائدہ سمگلر اور ہمسایہ ممالک اٹھارہے ہیں، پس ہم موجودہ نازک حالات کے باوجود بھی کیوں لاپروا اور بے بس ہیں۔ عمران خان بھی کہتے رہے کہ مافیا حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتا ہے، موجودہ حکومت کو بھی مافیا نے چکرا رکھا ہے، لیکن افسوس مافیاز کے خاتمے کے لیے سیاسی قیادت متحد و متفق نہیں ہوتی، اپنی بات کو یہی سمیٹتے ہیں کہ موجودہ معاشی حالات عمران خان کی سیاست کے لیے تو سازگار ہوسکتے ہیں مگر اتحادی حکومت کے لیے قطعی نہیں، کیونکہ ایسی معاشی صورتحال کے ساتھ انتخابی مہم چلائی جاسکتی ہے اور نہ ہی ماضی کی طرح اچھی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر اسی کھینچا تانی میں معاشی مسائل کو ویسی توجہ نہیں مل رہی جیسی دی جانی چاہیے تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button