ColumnImtiaz Aasi

امتیازی سلوک ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

اکانومسٹ گروپ کے افسران کا شماراگرچہ آئینی طور پر باقاعدہ سروسز گروپس کے افسران میںتو نہیں ہوتا لیکن اس گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران کی ملکی ترقی اور معاشی معاملات میں خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔باقی سروس گروپس کے افسران کی طرح اس گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران گریڈ اکیس سے بائیس تک ترقی کر جاتے ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں کام کرنے والے اکانومسٹ گروپ کے تمام افسران اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔وہ دیگرسروسز گروپ کے افسران کی طرح ایک سو پچاس فیصد ایگزیکٹو الائونس کا مطالبہ کر رہے ہیں، قلم چھوڑ ہڑتال کے ساتھ انہوںوزارت خزانہ تک بطور احتجاج مارچ بھی کیا۔سچ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد تاجروں، ڈاکٹروں، سرکاری ملازمین اور کسانوں کے بعد اب اکانومسٹ گروپ کے افسران ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسران سے امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں ہر دور میں افسران سے پسند و ناپسند کی صورت میں امتیازی سلوک ہوتا آیا ہے۔کئی حکومتوں نے من پسند افسران کو آئوٹ آف ٹرن ترقی دی۔ متاثرہ افسران کے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے سے ان کی داد رسی ہوئی ۔آئینی طور پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جا سکتا۔یکے بعد دیگرے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں اور اکانومسٹ گروپ کے افسران کا قلم چھوڑ ہڑتال پر چلے جانا موجودہ حکومت کے دور میں بیڈ گورننس کی بدترین مثال ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جب کبھی سرکاری ملازمین کے مشاہروں اور الائونسزمیں اضافے کا معاملہ ہو تو وزارت خزانہ سے حتمی رائے لینے کے بعد اس میں اضافے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بعض موقعوں پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت تمام سرکاری ملازمین کو مالی فائدہ دینے کی خواہا ں ہو تو وزارت خزانہ اس میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔عجیب تماشا ہے ایک طرف ملک معاشی مسائل کا شکار ہے تو حکومت اعلیٰ افسران کو ایگزیکٹو الائونس دے رہی ہے۔ اراکین اسمبلی کی مراعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے قرضہ دینے والے ادارے سرکاری اخراجات کم کرنے پر زور دے رہے ہیں باوجود اس کے حکومت کی شہ خرچیاں ختم ہونے میں نہیں آرہی ہیں۔البتہ ماضی میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں کسی افسر یا سرکاری ملازم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو تو اسے مالی صورت میں ایوارڈ سے نواز جاتا تھا اب تو حد ہو گئی ہے سیاست دان قومی خزانے کو ذاتی سمجھ کر جسے چاہیں نوازیں اور جسے چاہیں محروم کر دیں۔ہماری تاریخ گواہ ہے بیوروکریسی کوئی غلط کام بھی کرنا چاہے تو حکومت سے کرا لیتی ہے اور کسی کام کو نہ کرنا چاہے تو ایسی ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ حکومت بیوروکرسی کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
ملکی تاریخ میں دو ایسے مواقع آئے جب اعلیٰ افسران کی بڑے پیمانے پر سکریننگ کی گئی بعد ازاں ان میں سے بہت سے افسران حکومت بدل جانے کے بعد ملازمت میں واپس لے لئے گے۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے افسران کو سیاسی بنیادوں پر گھر بھیجا۔ایک ڈپٹی کمشنر نے سکھر میں انہیںجلسہ کرنے کی اجازت نہ دی تو اقتدار میں آنے کے بعد اسے ملازمت سے جبری رٹیائر ہونا پڑا۔سندھ میں تعینات ایک اعلیٰ افسر کو بھٹو کے غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کرنے پر برطرف ہونا پڑا۔جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد متاثرہ افسران کی داد رسی کی او ر ان میں سے بہت سوں کو ملازمت میں واپس لے لیا۔ اس سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے اعلیٰ افسران کی بہت بڑی تعداد کو گھر بھیج دیا تھا۔ماضی کی ان داستانوں کو کالم میں شامل کرنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ سرکاری افسران کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں۔نواز شریف کے گذشتہ دور میں اعلیٰ افسران کی بہت بڑی تعداد کو ترقی سے محروم رکھا گیا تو اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت سے انہیں ترقی دینا پڑی۔ یہ بات درست ہے کہ افسران میں اچھے اور برے ضرور ہوتے ہیں جب کسی افسر کا ریکارڈ
تسلی بخش ہو اسے ترقی سے محروم رکھا جانا بنیادی حقوق کے منافی ہے۔عمران خان کے دور کی بات ہے ان کی حکومت نے ایسے افسران جو اپنی ملازمت کے 25 سال پورے کر چکے تھے اور ان کاسروس ریکارڈ غیر تسلی بخش تھا حکومت نے انہیںملازمت سے سبکدوش کرنے کی کوشش کی جس میں حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔بھٹو دور میں نکالے گئے چند افسران میں کنور ادریس ، احمد صادق، محمد اسلم باجوہ ، سجاد الحسن کے علاوہ برطرف ہونے والے افسران کی طویل فہرست ہے۔سیاسی دور میں بعض افسران کوایک صوبے سے دوسرے صوبے میں بھیجنے کی پالیسیاں بنانے کے باوجود من پسند افسران اپنی مرضی کے صوبوں میں تعینات رہے۔جب کہ سیاسی اثرو رسوخ نہ رکھنے والوں کو صوبہ بدر ہونا پڑتا ہے ۔ایک اعلیٰ افسر اپنی ملازمت کے آغاز سے ابھی تک اسلام آباد میں ہے۔نواز شریف اور عمران خان کے دور میں کلیدی عہدے پر رہنے کے بعد شہباز حکومت کے دور میں اسے ہٹایا گیالیکن وہ بدستور اسلام آباد میں ہے حالانکہ اسی کے بیج میٹ افسران دوسرے صوبوں میں کام کر رہے ہیں۔تعجب ہے کہ اعلیٰ افسران ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے دوسرے صوبوں میں جانے سے کیوں گریزاں رہتے ہیں؟ ساٹھ کے دہائی کی طرف جائیں تو اس دور کے اعلیٰ افسران کو پنجاب سے بلوچستان بھیجا جاتا وہ بخوشی چلے جاتے تھے۔سیاسی دور میں کسی کو دوسرے صوبے میں تعینات کیا جائے تو اگلے روز اس کا تبادلہ منسوخ ہو جاتا ہے۔عمران خان کے دورمیں ایک ہی صوبے میں تعینات افسران کو دوسرے صوبوں میں بھیجنے کی پالیسی بنائی گئی ماسوائے چند ایک کے جن کا کوئی اثر ورسوخ نہیں تھا، سب کے سب اپنے اپنے صوبوں میں کام کر رہے ہیں۔جیسا کہ اکانومسٹ گروپ کے افسران قلم چھوڑ ہڑتال پر ہیں انہی کے ہم پلہ گریڈوں والے افسران اپنی تنخواہ کا ایک سو پچاس فیصد ایگزیکٹو الائونس وصول کر رہے ہیں،امتیازی سلوک کی انتہا ہے۔وفاقی حکومت کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے اگر کسی معاملے میں غلطی ہو گئی ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button