Ali HassanColumn

مشرقی پاکستان، سیاسی یا فوجی ناکامی ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

(گذشتہ سے پیوستہ)
عتیق الرحمن لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ، سابق گورنر مغربی پاکستان اور سابق چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے انٹرویو میں کہا تھا کہ جنرلوں کو بری الزمہ قرار دینا اور سیاست دانوں کو ذمہ دار ٹھہرانا کس طرح ممکن ہے ، جبکہ اقتدار اعلیٰ جنرل یحییٰ کے پاس تھا ، فوج اقتدار میں تھی ، حکومت میں مختلف عہدوں پر جنرل متعین تھے ، ایسی صورتحال میں سیاست دانوں کو کس طرح ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ فوج کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ۔ بہر حال میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ مارشل لاء کے اس دور میں سیاسی جماعتیں اقتدار میں زیادہ سے زیادہ سے حصہ لینا چاہتی تھیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ ہم اس طرف ، تم اُس طرف ‘‘ اور ملک ٹوٹ گیا۔ میں ذاتی طور پر کسی کو مورود الزام نہیں ٹھہراتا ۔ یہ تاریخ کا سفر ہے جو جاری رہتا ہے ۔ جب لوگ ایک ساتھ رہنا نہیں چاہتے ہیں تو وہ علیحدہ علیحدہ رہتے ہیں ۔ ڈنڈے سے آپ لوگوں کو ایک ساتھ رہنے پر کچھ عرصہ تک تو مجبور کرسکتے ہیں لیکن ہمیشہ نہیں ۔ وہ ملک ٹوٹ جایا کرتے ہیں جن کے لوگ اپنے ملک سے محبت نہ کریں ۔ ایسا ہر جگہ ہوتا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے اس میں رنگ و نسل ، مذہب اور قوم کا کوئی امتیاز نہیں ہو، ہندو ہو یا مسلمان ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسلام نے مشرقی اور مغربی کو سیمینٹنگ نہیں کیا ۔ مشرق وسطیٰ میں اسلام نے مختلف ممالک کو کہاں ’’سمینٹ‘‘کیا ہے ۔ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں۔اسلام تو حکومت چلانے کا بہانہ ہے ۔ اس میں قومیت (نیشنلزم ) بڑی قوت ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر، سابق گورنرخیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے کئی اسباب تھے ، اس کی ذمہ داری ہر پاکستانی پر عائد ہوتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے دن سے مغربی پاکستان ، خصوصاً پنجاب کے سیاستدان مشرقی پاکستان کی اکثریت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے اور بار بار اعلانیہ اظہار کرتے رہے کہ اگر ایک آدمی ایک ووٹ کے حصول پر قائم رہے تو بنگالی اپنی اکثریت کی بنیاد پر ملک پر چھا جائیں گے اور حکومت ان کے ہاتھوں میں ہمیشہ کیلئے چلی جائے گی ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے مکینوں کو اپنے بھائی نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان والے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مغربی پاکستان پر حکومت کریں گے اور وہ بنگالیوں کے خلاف بن کر رہ جائیں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ قانون ساز اسمبلی میں مغربی پاکستان اور خصوصاً پنجابیوں نے سیاسی برابری کا سوال اٹھایا ۔ جس سے مراد تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے نیشنل اسمبلی میں برابر برابر نمائندہ ہونے چاہئیں ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو اپنا بھائی نہ سمجھا بلکہ غیر سمجھا ، یعنی نظریہ پاکستان کی نفی ہم نے خود کی… سقوط ڈھاکہ کی ذمہ داری مشترکہ فوج اور سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ فوج پر ذمہ داری اس لئے یہ سانحہ جب پیش آیا اس وقت ایک فوجی کے ہاتھ میں اقتدار تھا اور مارشل لاء نافذ تھا ۔ سیاستدانوں پر اس لئے کہ اس مسئلہ کے حل کیلئے انہیں کئی مواقع فراہم کئے گئے تھے ، لیکن وہ ذاتی مفادات کے پیش نظر اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے سے گریز کرتے رہے ۔ اگر بھٹو ، مجیب میٹنگ میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیا جاتا تو پولیس ایکشن کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی جس سے زیادہ نفرتیں بڑھتی گئیں ۔ جہاں تک مجھے علم ہے پولیس ایکشن سے ان سیاست دانوں میں بعض نے جو اس وقت ڈھاکہ میں موجود تھے ، بعض سے یحییٰ خان نے مشورہ کیا تھا ۔ پولیس ایکشن کے حق میں مسٹر بھٹو ، جماعت اسلامی اور پرانے مسلم لیگی پیش پیش تھے ، بلکہ پولیس ایکشن کے اعلان کے بعد کئی سیاسی لیڈروں نے اپنے بیانات میں اس کو سراہا اور کہا کہ اس ایکشن سے پاکستان کو بچالیا گیا ہے ۔ یہ بیانات اخبارات کے ریکارڈ روم میں موجود ہیں ، بعض سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاست دان اور میرے علاوہ کچھ اور فوجی جنرل بھی پولیس ایکشن کے خلاف تھے ۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ اس مسئلہ کو سیاسی حکمت عملی سے حل کیا جائے، لیکن ان کی تجویز کو کوئی اہمیت نہ دی گئی ، البتہ جو یحییٰ خان کے نزدیکی حلقوں سے تعلق رکھتے تھے کو زیادہ اہمیت دی گئی، جس سے پولیس ایکشن کا حکم صادر کردیا گیا ، اس کے بعد مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش )اور مغربی پاکستان میں مفاہمت ناممکن ہوگئی اور ہندوستان کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا جواز مل گیا ۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ نور خان ، سابق سربراہ پاک فضائیہ ، سابق گورنر مغربی پاکستان ، سابق سربراہ پی آئی اے ، سابق رکن قومی اسمبلی (1985)1971 المیہ کا ذمہ دار جنرلوں کو ہی نہیں، سب کو سمجھتے ہیں لیکن جو انچارج ہے اس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، ہم نے جنگ کی تھی ، فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ، اس کی کیا وجہ تھی ، کون ذمہ دار تھا ، کوئی تو ذمہ دار ہوگا ۔ ہر لڑائی کے بعد کچھ نہ کچھ پوچھا جاتا ہے ۔ کہ آخر ہم کیوں اس خراب طریقے سے لڑے تھے۔ 1962ء میں جب بھارت اور چین کی جنگ ہوئی، بھارت میں تو بڑے سخت اقدامات کئے گئے تھے اور نتیجہ میں کئی لوگوں کو جانا پڑا تھا ۔ ارجنٹائن میں پوری فوج کو Sackکردیا گیا اور اسی طرح کئی دوسرے ممالک میں اس قسم کی مثالیں موجود ہیں ۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امیر عبداﷲ خان نیازی، سابق سربراہ سابق ایسٹرن کمانڈ حال بنگلہ دیش اور سربراہ مسلم لیگ قیوم خان گروپ نے انٹرویو میں بتایا کہ جب عوامی لیگ نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرلی تھی تو انہیں اقتدار منتقل ہونا چاہیے تھا ۔ بھٹو نے پہلے تو یحییٰ سے سازباز کرکے اسمبلی کے سیشن کو ملتوی کرایا ، پھر فوج سے کارروائی کرائی ، بھٹو کو اقتدار اس وقت تک مل ہی نہیں سکتا تھا جب تک مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا ۔ سویلین فوجیوں سے تعاون اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ خود غرض ہیں ،ضمیر نہیں ہے۔ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر فوقیت دیتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button