ColumnQaisar Abbas

برف کا تاج محل ، راکاپوشی .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

ہنزہ اور نگر سے گزرتی شاہرائے قراقرم پر گاڑی دوڑاتے ہوئے درۂ خنجراب تک چلے جانا آوارہ گردی تو ہو سکتی ہے ، سیاحت نہیں ۔ ریاست نگر اور ہنزہ سے برف کا تاج محل آپ کے قدم روکتا ہے اور ایک کشش گردن میں بل ڈال دیتی ہے، وہ تاج محل راکا پوشی کا برف معبد ہے۔ گلگت سے خنجراب جاتے ہوئے مناپن نالے کے قریب دائیں جانب ایک چھوٹی سڑک قراقرم سے جدا ہوکر مناپن کی طرف لیے جاتی ہے۔راکا پوشی بیس کیمپ اور برف کے تاج محل کی قربت کے حصول کیلئے یہی راستہ شارع عام ہے۔راکا پوشی 25550 فٹ یعنی 7788 میٹر بلند پہاڑ ہے۔ سلسلہ قراقرم میں واقع یہ برف معبد 12ویں نمبر پر اور دنیا میں 27ویں نمبر پر بلند چوٹی ہے۔ اسے سب سے پہلے 1958 میں دو برطانوی کوہ پیما مائیک بینکس اور ٹام پیٹی نے سر کیا۔
قراقرم کے سینے میں آباد پاکستان کا وہ علاقہ جسے قدرت نے عجائبات و مناظرکا ایک اچھوتا امتزاج عطا کیا ہے۔ بلندوبالا برف پوش چوٹیاں، شفاف پانی کی ندیاں، اپنی نوعیت کے منفرد ترین گلیشئیر، گھنے جنگلات،سبزہ زاراور آبشاریں اور شفاف ہوا ، یہ تمام اجزا جو کسی بھی خوابناک خوبصورتی کی عکاسی کر سکتے ہیں، نگر کو عطا ہوئے ہیں۔انہی علامات حسن میں اپنی خوبصورتی میں بے مثال پہاڑی چوٹی جسے دنیا کی خوبصورت ترین چوٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے ، برف کا تاج محل راکاپوشی ہے۔
گودنیا میں اس سے بلند چوٹیوں کی تعداد چھبیس ہے لیکن اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ گُلمَت (شاہراہ قراقرم ،نگر)کے مقام سے اسے دیکھا جائے تو یہ دنیا کی سب سے بلندمسلسل ڈھلوان ہے۔ اس مقام پر آپ کی سطح سے لیکر راکاپوشی کی چوٹی تک ایک متواتر چڑھائی ہے جس کی اونچائی پانچ ہزار آٹھ سو اڑتیس میٹرہے، جبکہ گُلمَت ہی سے اس کی چوٹی تک کا فاصلہ گیارہ کلومیٹر ہے،یہ وہ خصوصیت ہے جو دنیا کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں۔راکاپوشی پہاڑ کی چوڑائی بھی غیر معمولی ہے اور مشرقی سمت سے لیکر مغربی سمت تک اس کاعرض 20کلومیٹر تک ہے۔ آباد اور مرکزی سڑک کے قریب ترین برفانی بلندی کی واحد مثال راکا پوشی ہے۔
گلگت سے نگر جاتے ہوئے پہلا پڑاؤ راکا پوشی ویو پوائنٹ پر سیاح کے قدموں کی زنجیر ثابت ہوتا ہے ۔ علی آباد ہنزہ اور نگر سے راکاپوشی تک پہنچنے کا راستہ علی آباد سے پہلے ہی ایک گاؤں پسن سے جاتا ہے۔ اگرچہ راکاپوشی جو کہ پہاڑی چوٹیوں کا ایک سلسلہ بھی ہے، کئی راستوں سے سیاحوں کی پہنچ میں ہے لیکن سب سے مشہور اور خوبصورت راستہ پسن اورمناپن گاؤں سے ہی گزرتا ہے۔ سیاحت کا موسم یہاں بھی مئی سے شروع ہو کر ستمبر کے آخر میں ختم ہو تا ہے۔ جون سے پہلے زیادہ بلند راستوں پر برف مکمل طور پر نہیں پگھلی ہوتی۔ مناپن گاؤں سے لیکر راکا پوشی بیس کیمپ اور واپسی تک پیدل سفر ہے اور تین یا چار دن میں بآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔
اس سفر کے دوران تیزرفتار و پرشور دریائے مناپن آپ کے ساتھ ساتھ اپنے ماخذ مناپن گلیشیر تک بہتا ہے۔ دریائے مناپن میں برف کے چھوٹے بڑے ٹکڑے بھی گلیشیر سے پانی کے ساتھ بہہ آتے ہیں ۔ یہ لوگ گاؤں کے پالتو جانوروں کی افزائش، خوراک اور ان سے حاصل کردہ دودھ سے مکھن، پنیر، گھی اور لسی وغیرہ تیار کرتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں ٹھنڈی ندیوں کے ساتھ زمین میں گڑھے بنا کر محفوظ کی جاتی ہیں۔
اسی راستے پر دو مقامات پر بڑی بڑی اور نہایت دلفریب آبشاریں آپ کو اپنے پاس بہت دیر تک رکنے پر مجبور کرتی ہیں اور طبیعت میں آسودگی و لطافت کا باعث بنتی ہیں۔چند منٹ بعد ایک تنگ اور مشکل راستے سے گزر تے ہوئے آپ اچانک ایک تا حد نگاہ وسیع و عریض جنت نظیر سبزہ زار میں داخل ہو جاتے ہیں اور سکون کااحساس ماحول کی پرکیف فضا میں ڈھل کر آپ کے تمام وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ وسیع و عریض ڈھلوانی سبزہ زار جو کہ اپنی اونچائی کی سمت ایک گھنے جنگل سے شروع ہوکرگھاس اور پھولوں سے بھرپور ہے، شفاف پانی کے ٹھنڈے چشموں سے آراستہ ایک بڑے رقبے کااحاطہ کرتے ہوئے گہرائی میں مناپن گلیشیر کی سلیٹی مائل سطح پر ختم ہوتا ہے۔اس مقام پر جو کہ ہپاکن کہلاتا ہے آپ اپنی واحد مثال ہے ۔ یہاں سے لیکر راکاپوشی بیس کیمپ تک کا سفر اسی گھنے جنگل میں اونچی نیچی پگڈنڈی پر مشتمل ہے۔ بائیں ہاتھ پر مناپن گلیشیر اور دیران پیک ، پیچھے کی سمت مناپن گاؤں ،شاہراہ قراقرم ، ہنزہ اور نگر کے وسیع علاقے کا نظارہ تمام راستے آپ کا ساتھ دیتاہے۔
آپ کی اگلی منزل تغافری ہے جہاں پر راکاپوشی اپنے تمام تر ناقابل بیان حسین مناظر کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ تغافری کی وادی میں اترنے سے پہلے مناپن گلیشیر اپنی وسعت کے ساتھ پہلی دفعہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ ایک اونچے ٹیلہ نما مقام سے کھڑے ہو کر نیچے کی طرف دیکھیں تو گلیشیر مختلف اشکال اور جسامت کے خوبصورتی کے ساتھ تراشے گئے مجسموں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے! یہ موسمی اثرات اور تیز ہواؤں کا کرشمہ ہے اوربرف کو ان اشکال میں ڈھال کر قدرت نے انسان کیلئے ایک عجوبہ تشکیل دیا ہے۔
تغافری ، ہپاکن اور دیگر کیمپ سائٹس پر مختلف اداروں نے سیاحوں کی سہولت اور قدرتی حسن کی حفاظت کیلئے پتھروں سے احاطہ شدہ کیمپنگ ایریا بنائے ہوئے ہیں جبکہ پختہ یا لکڑی سے بنے بیت الخلا بھی موجود ہیں۔
راکا پوشی کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اکثر اوقات شدید دھند میں لپٹی رہتی ہے اور اپنے ساتھ بہت بڑے علاقے کو بھی دھند کے غلاف میں لپیٹ دیتی ہے۔اسی وجہ سے اسے مدر آف مِسٹ یعنی دھند کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔بعض اوقات اس دھند کی وجہ سے سیاح راکاپوشی کی ایک مکمل جھلک دیکھنے کیلئے کئی کئی روزانتظار بھی کرتے ہیں۔
بروشسکی زبان میں راکا پوشی کا مطلب برف کی دیوار ہے اور اس مقام سے اسے دیکھ کر یہ نام خود بہ خود دماغ میں ابھرتا ہے۔ تاحد نگاہ برف جو کہ گلیشیر سے لیکر چوٹی تک اور ہر طرف کئی مربع میل پرپھیلی ہوئی ہے۔ یہاں سے راکاپوشی کی تمام چوٹیاں اور گھاٹیاں ایک وسیع رقبہ پر محیط اور بلندی میں آسمان کو چھوتی آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔
عام سیاحوں سے لیکر مہم جوئی کے شوقین کوہ نوردوں کی بڑی بڑی ٹیموں تک بہت سے لوگ ملک و بیرون ملک سے پورا سیزن یہاں موجود رہتے ہیں اور کئی کئی ماہ تک یہاں کے نشیب و فراز کی تحقیقات اور تفریح میں مگن رہتے ہیں۔ اکثر سیاح اور کوہ نورد یہاں سے گلیشیر پار کر کے دوسری طرف واقع ایک اور خوبصورت وادی کچیلی تک جاتے ہیں اور وہاں قیام کرتے ہیں۔
راکا پوشی کو سر کرنے کی بہت سی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور ایک طویل عرصے سے جاری مہم کے دوران چند خوش نصیبوں کے سوا یہ اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔گلگت سے لیکر نگر اور ہنزہ کے قریباً تمام علاقوں سے راکاپوشی کے نظارے قابل دید ہیں۔ سیاحت کے ان حسین مشہورومعروف علاقوں جہاں فطرت نے اپنے رنگوں کو ان گنت زاویوں سے بکھیر رکھا ہے اور بیشمار بلند و برف پوش چوٹیوں میں بھی راکاپوشی اپنی انفرادیت کی وجہ سے نمایاں نظر آتی ہے اور سیاحوں کی نگاہیں ہر مقام سے اسی پر جمی رہتی ہیں۔ یہ حسن فطرت بھی پاکستان کے حصے میں قدرت کا ایک حسن انعام ہے ۔
ہنزہ اور نگر کی سیاحت راکا پوشی کے گرد گھومتی ہے ۔ چین اور پاکستان کا زمینی سفر کرنے والے اس برف کے تاج محل کی زیارت سے بدن کی تھکن اتارتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button