Editorial

موسمیاتی تبدیلیاں،متاثرہ ممالک کیلئے فنڈ کا قیام

 

مصر میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق جاری عالمی کانفرنس ماحولیاتی تباہی سے متاثرہ کمزور ممالک کے لیے فنڈ کے قیام کے تاریخی معاہدے پر اختتام پزیر ہوگئی ہے۔ معاہدے پر عملدرآمد کے لیے عبوری کمیٹی قائم کردی گئی، کمیٹی ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لیے قواعد وضوابط طے کرے گی، فنڈنگ کے نئے اور اضافی ذرائع بھی تلاش کئے جائیں گے، عبوری کمیٹی آئندہ برس دبئی میں کوپ 28 کے اجلاس میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق اِس عالمی فنڈ سے 134 ترقی پذیر ممالک کو فائدہ ہوگا۔پاکستان کی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کانفرنس میں فنڈ قائم کرنے کے فیصلے کے بعد جو حقیقت افشا کی ہے بلاشبہ سوکھے دھانوں پر پانی پڑنے کے مصداق ہے، بتایاگیا ہے کہ متذکرہ فنڈ قائم کرنے میں تیس سال کا عرصہ لگا ہے اور جیسا کہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے عبوری کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور یہی کمیٹی نقصانات کے ازالے کے لیے قواعد و ضوابط بھی طے کرے گی، پس خدشہ ہے کہ جو سنگ میل تیس برس بعد عبور کیا ہے اِس کے ثمرات موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد تک پہنچنے میں مزید وقت لگے۔ اقوام متحدہ نے اِس کانفرنس کا اہتمام کیا اور قریباً دو ہفتے تک اِس میں مذاکرات اور بحث و مباحثے ہوئے مگر پھر بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر قابو پانے کے لیے مزید اقدامات پر اتفاق نہ ہوسکا،اقوام متحدہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے گوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کاربن کا اخراج کم کرنے کے لیے مزید اقدامات پر اتفاق نہ ہونے پر تنقید کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کوپ 27 کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ماحولیاتی انصاف کی جانب پہلا قدم قرار دیا اور اس مقصد کے لیے شیری رحمٰن اور ان کی ٹیم کے تعاون اور محنت قابل تعریف ہے۔ بلاشبہ عالمی سطح پر ہونے والی اِس پیش رفت سے ماحولیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مدد ملے گی جو موسمیاتی آفات اور اثرات کی کئی برسوں سے جنگ لڑ رہے ہیں اور حالیہ سیلاب اور کئی سالوں سے سموگ اور فضائی آلودگی نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان ان متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ہم شکر گذار ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور متاثرہ لوگوںکادرد محسوس کیا، حکومت پاکستان متاثرین سیلاب کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کے باوجود اُس تباہی کو نہیں روک سکی جس کے ذمہ دار ہم پاکستانی نہیں تھے۔ انتونیوگوتریس نے پاکستان میں موجودگی کے دوران واضح طورپر کہا تھا کہ پاکستان دوسروں کی کوتاہیوں کی سزا بھگت رہا ہے پس کاربن پیدا کرنے والے ممالک کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ا دا کرنا پڑے گا، اُن کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے فنڈ قائم ہونے جارہا ہے تاہم ابھی واضح طور پر کچھ نہیںکہا جاسکتا کہ اِس میں کتنا مزید عرصہ درکار ہوگاپس انتظارکرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس اہم اور عالم گیر مسئلے پر بڑی طاقتوں کو اپنا دبائو استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ اِن ممالک کے متاثرہ افراد کو ریلیف مل سکے اور ایسے ٹھوس اقدامات بھی کرنے چاہئیں کہ ایک طرف کاربن کے اخراج کو روکا جائے تو دوسری طرف پے درپے آنے والی آفات کی صورت میں متاثرہ ممالک کو ریلیف دیکر لوگوں کو بچایا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات صرف انسانوں پر ہی رونما نہیں ہورہے بلکہ چرند و پرند بھی متاثر ہورہے ہیں، خوراک کا بحران قحط کی شکل اختیار کررہا ہے، پاکستان کی ہی مثال لے لیجئے کہ حالیہ سیلاب کے باعث پاکستان کو اجناس کی درآمدات پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا، پس ایک طرف حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچرکی بحالی کے مشکل کام میں پریشان ہے، متاثرہ افراد کھلے آسمانوں تلے پڑے ہیں کیونکہ ان کی املاک اور سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا ہے، لہٰذا ان کو دوبارہ زندگی شروع کرنے کے بھی قابل کرنا ہے پھر سیلاب کی وجہ سے جو اجناس برباد ہوگئی ہیں اُن کی کمی پوری کرنے کے لیے مہنگے داموں درآمدات کرنا پڑیں گی، پس صورت حال ایسی ہے جس نے چہاراطراف سے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو جکڑ رکھا ہے اور یہی نہیں شدید گرمی، شدید سردی، بارشوںکا قبل ازوقت ہونا اور مسلسل ہونا، فضائی آلودگی اور ایسے کئی مسائل سے پاکستان کئی سالوں سے نبرد آزما ہے، حالانکہ عالمی سطح پر آلودگی پیداکرنے میں ہمارا ایک فیصد بھی حصہ نہیں لیکن ہم بڑے اور ترقی یافتہ ممالک جو کاربن کے اخراج میں سرفہرست اور نمایاں ہیں اُن کی ترقی کی قیمت اپنی بربادی کی صورت میں اداکررہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وزیر ماحولیات شیری رحمن نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی تباہی پر اقوام عالم کو متوجہ کرنے کا اہم کام کیا ہے اور درحقیقت کوئی پلیٹ فارم ایسا نہیں جہاں پر پاکستان کا مقدمہ نہ لڑا ہو۔ مصر میں ہونے والی متذکرہ کانفرنس کے نتائج کتنی دیر میں برآمد ہوتے ہیں اِس کا انحصار اُن بڑے ممالک پر ہے جن کا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں نمایاں نام ہے یا پھر وہ ممالک جو انسانیت کو اِس عفریت کی سے بچانے کے لیے سنجیدہ ہیں ۔ بلاشبہ اقوام عالم نے مشکل کی اِس گھڑی میں آگے بڑھ کر ہماری ہر ممکن مدد کی ، لیکن درحقیقت جس قدر تباہی و بربادی ہوئی ہے، اِس کا ازالہ خصوصی فنڈ اور توجہ کے بغیر قطعی ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button