Column

سرمایہ کاری اور امریکہ کا سعودیہ کے ساتھ تناؤ .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

ماہرین معیشت کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ معیشت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کیلئے تیز بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ داخلی اور بیرونی مثبت سرمایہ کاری جو برآمدات میں اضافہ کا سبب بنے،برآمدات میں اضافہ کیا جائے، اشیائے خورونوش،عوامی ضروریات کی اشیاء کپڑے، جوتے، کھالیں، سرجیکل آلات اور سب سے اہم آئی ٹی شعبے میں نوجوانوں کی مہارت ۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے مسلسل ترسیل زر میں اضافہ ہونا ملکی معیشت کی فعالیت کیلئے بہت ضروری ہے اور ان تین کلیدی اصولوں میں سب سے کارآمد اور مفید اصول سرمایہ کاری میں اضافے کا اصول ہے۔ اس سے معاشی ترقی کے پیشتر اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں، سرمایہ کاری معیشت میں استحکام کا سب سے تیز بہدف نسخہ ہے۔ داخلی اورخارجی سرمایہ کاری سے ملک میں بیروزگاری کے خاتمے میں مدد اور معاونت ملتی ہے۔ ملک میں موجود بہت سی صنعتوں کو عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کے رہن سہن اور معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان سرمایہ کاروں کیلئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے ان کے دعویٰ کو رد کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کسی بھی سرمایہ کار کیلئے انتہائی پسندیدہ ملک ہے،پاکستان میں زراعت، توانائی، آئی ٹی، طویل شاہراہیں، آمد و رفت کے ذرائع، ان سب میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے بہت سے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام لانے کیلئے ملک کی قومی سیاسی جماعتوں کو اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ معیشت کی بنیادوں کو خود انحصاری اور جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے پر رکھنا ہو گی۔ ملک کی سماجی اور معاشرتی فضا جو باہمی مخالفانہ، مجادلانہ اور مناقشانہ رویوں سے زہر آلود ہو چکی ہے اس کو سازگار بنانے کی بے حد ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کیلئے مختلف شعبہ حیات میں موافقانہ اور سازگار فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔سرمایہ کاری کے راستے جو رکاوٹیں سرخ فیتے نے پیدا کی ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروباری برادری کے سرمایہ کو تحفظ اور جان و مال کے تحفظ کا بندوبست کیا جائے۔ سرمایہ کاری کیلئے ون ونڈو سسٹم کا اجرا کیا جائے جو براہ راست کیبنٹ کمیٹی کی نگرانی میں کما حقہ اپنا کام سرانجام دے۔ کاروبار اور سرمایہ کاری کا عمومی تعلق نجی شعبے سے ہوتا ہے اور نجی شعبہ اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ اور منافع بخش بنانے کیلئے سرکار سے امیدیں وابستہ کر لیتا ہے،سرمایہ کار کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے حکومتی سرپرستی مسلسل حاصل رہے حکومت کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے بغیر سرمایہ کار اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ سرمایہ دار کا مطالبہ اور خواہش ہوتی ہے کہ حکومت ایک ریگولیٹر یا سٹیک ہولڈر کے طور اپنی حکومتی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ سرمایہ کار توقع کرتا ہے کہ سرمایہ کاری کے راستےمیں آنے والی ہر بیوروکریٹک رکاوٹ کو دور کرے۔صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کو سرخ فیتے کا شکار نہ ہونے دے اور بلاشبہ سرمایہ کاری کے حوالے سے آپریشنل سطح پر بہت پیچید گیاں موجود ہیں جن کے بارے میں سرمایہ داروں کے تحفظات موجود ہیں۔
اکثر کاروبار سےمنسلک لوگ نالاں اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری پر بھی اس رویے کی وجہ سے منفی اثرات پڑھتے ہیں، سرمایہ کم ہونے یا نہ ہونے کی بہت سی تکنیکی وجوہات موجود ہیں۔ جیسے کم آمدنی کا عفریت اور کم بچتیں کرنے کی ثقافت، معاشرے کا اسرافی اور فضول خرچ ہونا، کمزور مالیاتی منڈی، ٹیکس کولیکشن کو درپیش مسائل،پچاس فیصد سے زیادہ غیر رسمی معیشت اوربے شمار قانونی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ ماہرین معیشت کی متفقہ رائے ہے کہ اگر ہم تین اہم مسائل پر مکمل طور پر قابو پا لیں تو ہمارے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیںمثلاً تحفظ ، کاروبار کرنے کی آسانی، حکومت کی طرف سے کاروبار اور سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کیلئے سہولت کاری کا متحرک فعال میکانزم۔ سرمایہ کار عام طور پر دو تحفظات کا خواہش مند ہوتا ہے پہلی کہ لگائے گئے سرمایہ کو قانونی تحفظ حاصل ہو ، دوسری کہ امن و امان کی صورت حال مثالی ہو لیکن ہمارے ہاں چینی سرمایہ کاروں کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا تھا جس سے سرمایہ کاروں کے دلوں میں خوف کا پیدا ہو جانا لازمی امر ہے، پھرکاروبار کیلئے پیچیدہ قوانین نہ ہوں، رشوت اور بد عنوانی کے تدارک کیلئے موثر پلیٹ فارم میسر ہوں، حکومت، عوام اور کاروباری طبقہ سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ حکومت کو کاروباری طبقے سے مل کر ایسا فورم تشکیل دینا چاہیے جو سرمایہ کاری اور کاروبار کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کرے۔
دنیا بھر میں کاروبار کی مندی کا رجحان غالب آ رہا ہے، دنیا بھر میں توانائی کے بحران نے بڑی بڑی جابر قسم کی معیشتوں کے پر کاٹ دیئے ہیں، توانائی کے بحران کی وجہ سے آدھا یورپ بری طرح متاثر ہو رہا ہے ان کی قوت خرید جواب دے گئی ہے، بائیڈن کی اکڑ فون قصہ پارینہ بن چکی ہے اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے درپردہ ترجمان وال سٹریٹ نے یہ حقیقت جاری کی ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے پیش نظر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں توازن رکھنے کیلئے تیل کی پیداوار میں اضافے کیلئے سعودی عرب اور خلیجی ممالک پر دباؤ ڈالا جائے لیکن سعودی عرب نے خلاف توقع جرأت سے کام لیتے ہوئے بائیڈن کو صاف انکار کر دیا تھا۔ سعودیہ کی تازہ دم اور روشن خیال قیادت کا خیال یہ ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کیلئے سب کے مفادات کو رزق خاک بنا دیتا ہے، سعودی عرب نئے حالات کے تناظر میں امریکہ سے کٹی کئے بغیر چین اور روس کی طرف اپنے جھکاؤ میں دھیمے دھیمے اضافہ کر رہا ہے، شاید سعودی عرب کی ترقی پسند قیادت کے سامنے امریکہ اور پاکستان کی دوستی کے مناظر گھوم گئے ہوں، امریکہ نے ماضی میں جو کچھ پاکستان کے ساتھ کیا تھا یہی کچھ اب سعودی کے ساتھ ہونے والا ہے۔امریکہ نے حسب روایت اپنے ماتحت اتحادیوں کی کمر میں زہر آلود خنجر گھونپنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ امریکہ نے سعودیوں کو سزا دینے کیلئے حوثی باغیوں کو دہشت گرد وں کی فہرست سے نکال دیا ہے،پیٹریاٹ میزائل کی فراہمی سعودی عرب کو بند کر دی ہے، امریکہ کا سب سے بڑا ہدف چین ہے اور عین ممکن ہے کہ چین دشمنی میں امریکہ چاہ بہار بندرگاہ کو پاکستان کی گوادر پورٹ اور چین کے سی پیک منصوبے کی تباہی کیلئے استعمال میں لانے کی کوشش کرے۔یہ بہت بڑا سوال ہے اور کیا ایران اپنی چاہ بہار بندرگاہ کو پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے گا؟ یہ بات بظاہر ممکن نظر نہیں آرہی ہے چین اور ایران کے درمیان تیل؍ انرجی کی سپلائی کیلئے پہلے ہی 400 ارب ڈالر کا معاہدہ طے ہو چکا ہے۔ پاکستان میں رحیم چینج کا منصوبہ بھی اس سلسلے کی ایک بوسیدہ کڑی ہے،کیا مسلط شدہ حکومت کے قیام کے بعد یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے، امریکہ کی سخت مخالفت کے باوجود سی پیک جاری ہے اور سعودی عرب بھی امریکی صدر جیو بائیڈن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے، ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ اپنے فوجیوں کو جو سعودی عرب میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں واپس بلوا لے۔ سینٹر کرس مرفی نے امریکہ کے عزائم کو طشت از بام کر دیا ہے کہ ہم خلیجی ممالک کو ہتھیار اس لیے دیتے تھے تاکہ روس اور چین کے مقابلے میں ہماری مدد کر سکیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے، سعودی عرب کی خواہش ہے کہ برکس کے فورم میں شریک ہو کر اپنے تجارتی اور اقتصادی دائرہ کار میں توسیع دے سکے اور عین ممکن ہے اگر امریکہ کا دباؤ جارحانہ انداز سے جاری رہتا ہے تو سعودی عرب امریکی ڈالر میں ادائیگی لینے کی بجائے کسی اور کرنسی پر مہربان ہو جائے۔ سعودی عرب کے کراؤن پرنس کا دورہ پاکستان ناگزیر وجوہات کی بنا پر موخر ہو گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button