ColumnJabaar Ch

گھڑی ، وقت اور …. .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

سعودی عرب سے ہمارے تعلقات بہت سی جہتوں سے لازوال ،بے مثال اورمنفرد نوعیت کے ہیں۔یہاں کسی کی بھی حکومت ہو،ان تعلقات کی نوعیت میں اگر کوئی تبدیلی آئی تو وہ یہ تھی کہ تعلقات مزیدمضبوط ہی ہوئے۔جب بھی سعودی عرب کو ہماری ضرورت پڑی ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹے اورجب بھی ہمیں ضرورت ہوئی انہوں نے بھی کبھی ہماری امداد سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ اس وقت بھی سعودی عرب کے تین ارب ڈالرہمارے قومی خزانے میں پڑے ہیں اورادھار تیل دینے کا سلسلہ بھی ہنوزجاری ہے۔انہی تعلقات کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں روایت بن گئی کہ ہرحکومت سنبھالنے والا وزیراعظم حلف اٹھاتے ہی پہلا دورہ جس ملک کا کرتا ہے وہ سعودی عرب ہی ہوتا ہے۔
دوہزار اٹھارہ میں عمران خان صاحب کسی کی پلکوں پربیٹھ کر اقتدار میں آئے توپاکستان کو پیسوں کی ضرورت تھی لیکن عمران خان کہہ چکے تھے کہ وہ خود کشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس بھیک مانگنے نہیں جائیں گے اس لیے انہوں نے اپنے وزیرخزانہ اسد عمرکو کہا کہ ایسا حل نکالنا ہے کہ پیسہ بھی مل جائے اورمیری خود کشی والی شرط کی لاج بھی رہ جائے ۔اس پر انہیں مشورہ دیا گیا کہ چلیں ایک بار پھر سعودی عرب کی منت کرتے ہیں ۔اقتدار میں آتے ہی عمران خان نے بھی پہلا دورہ سعودی عرب کا کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سعودی عرب پہنچے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔وہاں موجود راحیل شریف نے بھی اس میں کردار اداکیا اورآرمی چیف جنرل باجوہ بھی اس دورے کو ممکن بنانے میں پیش پیش رہے۔اس وقت شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی نئے نئے معاملات سنبھالے تھے، انہوں نے بھی اس دورے کو یادگار بنانے کیلئے خزانے کے منہ کھول دیے۔ انہوں نے عمران خان کو ایک بڑا پیکیج دیا تاکہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچ جائیں اورخود کشی والی بات بھی رہ جائے ۔اسی دورے میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ عمران خان پہلی بار پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں اورانہوں نے بھی نئی نئی ذمہ داری سنبھالی ہے تو دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک نئی جہت پر لے جایا جائے۔اس لیے شہزادہ محمد بن سلمان نے عمران خان کو منفرد تحفہ دیا جس میں ایک ہیروں سے لدی ہوئی گھڑی ،ایک سونے کی انگوٹھی ،سونے کا قلم اور سونے کے کف لنکس ۔
عمران خان صاحب دورے سے واپس پہنچے تو اتنا قیمتی تحفہ دیکھ کر منہ میں اتنا پانی آیا کہ انہوں نے کہا کہ خود کشی گئی تیل لینے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو جایا جائے لیکن یہ گھڑی کہیں نہیں جانی چاہیے اس طرح وہ تحفہ توشہ خانے سے سیدھا بنی گالہ پہنچ گیا۔ ہرکارو ں کو حکم ملا کہ اس کے قانون تقاضے جیسے تیسے پورے کیے جائیں جو کردیے گئے ۔گھڑی جس کی مارکیٹ ویلیوپچیس سے اٹھائیس کروڑ تھی، توشہ خانہ نے اس کی قیمت دس کروڑ مقررکردی۔ عمران خان نے اس دس کروڑ قیمت کا بیس فیصد یعنی دوکروڑادا کیے (بعض خبروں کے مطابق یہ دوکروڑ روپے بھی گھڑی کی فروخت سے ملنے والے پیسوں میں سے ہی بعد میں اداکیے گئے)اوریہ تحفہ اپنے پاس رکھ لیا۔ یہاں تک کے معاملے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ حکمرانوں نے دوسرے ممالک سے مہنگے تحفے اپنے پاس رکھنے کے کئی راستے بنارکھے ہیں۔ کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے ۔
اب اس گھڑی اور باقی چیزوں کو بیچنے کا مرحلہ شروع ہوا۔وزیراعظم کے مشیراحتساب مرزا شہزاد اکبر نے دبئی میں ایک گاہک کا بندوبست کرکے عمران خان کو آگاہ کیا۔عمران خان صاحب نے وہ تحفہ اسی طرح باکس میں پیک اپنی اہلیہ کی کار خاص فرح گوگی یافرح جمیل گجر یا فرحت شہزادی کے سپرد کیا جو دبئی اس تاجر کے پاس چلی گئیں۔گھڑی اس تاجر کے سامنے رکھی اور پچاس کروڑ قیمت مانگی۔ وہ گھڑی جس کی قیمت توشہ خانہ سے دس کروڑلگوائی گئی تھی اس کی قیمت خود پچاس کروڑروپے مانگ لی گئی۔ اس تاجر نے گھڑی ساز کمپنی سے رجوع کیا، اس نے اس کے اصلی اور ایک ہی پیس بنائے جانے کی تصدیق کی تو اس تاجرنے فرح گوگی سے اس گھڑی کی ڈیل اٹھائیس کروڑ روپے میں کرلی۔فرح گوگی نے پیسے متحدہ عرب امارت کی کرنسی میں کیش کی شکل میں طلب کیے جو انہیں فراہم کردیے گئے۔ یہ پیسہ پاکستان منتقل کیا گیا یا نہیں اگر منتقل کیا گیا توکیسے پاکستان لایا گیا یہ کہانی ابھی باقی ہے۔
گھڑی کی فروخت کی یہ کہانی گھڑی خریدنے والے دبئی میں مقیم پاکستانی تاجر عمرفاروق ظہور نے بیان کی ہے۔اس کہانی کے سامنے آتے ہی پی ٹی آئی نے اصل سوالوں کے جوابات دینے کی بجائے خریدارکی کردارکشی شروع کررکھی ہے اور اس کا انٹرویو کرنے والے ٹی وی چینل کو ہرجانے کا نوٹس بھیجنے کا اعلان خود عمران خان نے کردیا ہے۔ممکن ہے یہ کہانی اس طرح سچی نہ ہوجس طرح عمرفاروق نے بیان کی ہے،لیکن ایک حقیقت اس میں ضرور ہے کہ وہ گھڑی اس تاجر کے پاس اب بھی موجود ہے۔اگر عمران خان نے یہ گھڑی اس بندے کو فروخت نہیں کی توپھر کس کوفروخت کی ؟اگر توشہ خانے نے اس کی قیمت دس کروڑمقررکی تھی تو پھر عمران خان نے الیکشن کمیشن میں اس کی فروخت صرف پانچ کروڑ میں کیوں ظاہر کی؟اگر اس گھڑی کوفروخت کرنے میں شہزاداکبر اور فرح گوگی کا کوئی ہاتھ نہیں توپھر ان دونوں کا ذکر کیوں آگیا؟ویسے فرح گوگی بھی کیا کردار ہیں کہ ہیروں کی انگوٹھیوں سے لے کر زمینوں کے تحائف اورپلاٹوں کی فائلوں پر دستخط تک یہاں بھی غیرقانونی اور کرپشن والے کاموں کا شائبہ بھی ہوتا ہے فرح گوگی کا ذکرلازمی آجاتا ہے۔فرح گوگی اس وقت ملک سے فرارہیں اور میاں نوازشریف کی طرح واپسی کا اعلان کرنے کے باوجود واپس نہیں آئیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی دوبارہ حکومت بننے کے بعد ان کے خلاف تمام مقدمات ایک ایک کرکے ختم کردیے گئے ہیں ۔
گھڑی کے بیچنے کی کہانی جس طریقے سے بیان کی جارہی ہے اس طرح تو چوری کا مال ہی بیچا جاتا ہے۔چوری کے مال کی قیمت ہی کیش میں وصول کی جاتی ہے ۔اس کی رسیدیں ہی نہیں مل پاتیں۔یہ بات صاف ہے کہ گھڑی چوری کی نہیں تھی لیکن بیچنے کیلئے چوری کے مال کا طریقہ کیوں اپنایا گیا یہ سوال سمجھ سے باہر ہے۔کیا اس طرح بیچنے کا مطلب ٹیکس فراڈ تھا۔یا سیدھے راستے سے بیچنے سے قیمت کم ملنے کا اندیشہ تھایا کہانی کھلنے کا ڈر تھا۔ وجہ جو بھی ہو عمران خان جیسے ایماندارتاثر والے شخص کیلئے یہ سب کچھ بہت ہی مشکوک اورعجیب لگتا ہے۔ اگر یہ کام غلط نہیں تھا توعمران خان دوسال سے اس توشہ خانہ کی وضاحتیں کیوں دے رہے ہیں۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ توشہ خانہ کی گھڑی بیچ کرانہوں نے سڑک بنوالی تھی جو بعد میں اسلام آباد کے میئر نے غلط ثابت کردی۔الیکشن کمیشن نے ان کو اس کیس میں نااہل کردیا۔کرپٹ پریکٹسزکا کیس چلانے کیلئے سیشن عدالت کو بھیج دیا۔
وضاحتیں جو بھی ہوں یہ صرف ایک گھڑی بیچنے کا معاملہ نہیں ہے یہ ہمارے حکمرانوں کے لالچ کاقصہ ہے ۔جو دوسرے ممالک کے تحائف کو بھی چھوڑنے کیلئےتیار نہیں ہوتے۔نوازشریف اور آصف زرداری توشہ خانے سے گاڑیاں لے گئے تھے ان پر نیب کا کیس چل رہا ہے اس کو بھی انجام تک پہنچنا چاہیے اورعمران خان نے جو غلط کیا ہے اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔نواز،زردی کی غلطی عمران خان کیلئے جوازہرگز نہیںہے۔وضاحتیں بہت ہوگئیں اب عدلیہ آگے بڑھے اور ان مقدمات کا فیصلہ کرے۔دوسراکام پہلی فرصت میں یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تحائف ساتھ لے جانے پرمکمل پابندی لگانے کا قانون بنایاجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button