Editorial

صدر مملکت کی فکر انگیز گفتگو !

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہاہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، موجودہ صورتحال میں جوبھی ہوگا وہ آئین کےمطابق ہوگا۔کوشش کی کہ مذاکرات ہوں اور انتخابات کا راستہ نکل آئے لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے، انتخابات کا بھی کوئی حل نہیں نکلا، جلد الیکشن ہوجائیں تو بہتر ہے، جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے بات چیت کرنی چاہیے۔ فیڈریشن سے متعلق میری کوشش ہےکہ یکجہتی ہو اور معاملات خراب نہ ہوں۔آرمی چیف کی تعیناتی پر آئین مشاورت کی اجازت نہیں دیتا، آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت ہوجائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مختصر گفتگو میں ملکی سیاسی صورتحال کی مکمل منظر کشی کی لیکن ملکی حالات پراپنا دُکھ بھی ظاہر کیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اُن شخصیات میں شامل ہیں جو موجودہ سیاسی بے یقینی کی صورتحال میں فریقین کو ایک پیج پر لانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن حالیہ گفتگو میں انہوں نے واضح کردیا ہے کہ انتخابات کا راستہ نہیں نکل سکا، یعنی فریقین اِس معاملے پر اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں مزید وضاحت کریں تو اتحادی حکومت اپنے موقف پر قائم ہے کہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور کسی سیاسی دبائو میں نہیں آئے گی جبکہ دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ قبل از وقت انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے تک حکومت پر دبائو بڑھاتے رہیں گے۔ عمران خان وزیرآباد میں اُن پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں ڈاکٹروں کے مشورے پر آرام کررہے ہیں اور اُن کی جگہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اُسی مقام سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں پھر عمران خان کا تازہ اعلان بھی موجود ہے کہ وہ راولپنڈی پہنچ کر لانگ مارچ کی قیادت کریں گے۔ دوسری طرف چند روز قبل تک پاکستان تحریک انصاف کے لوگ ملک بھر میں قومی شاہراہیں بند

کرکے بیٹھے تھے لیکن عمران خان کے اعلان کے بعد اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر سے دھرنے ختم کردیئے گئے ہیں۔ صدر مملکت نے اپنی گفتگو میں بجافرمایا کہ جو بھی ہوگا آئین کے مطابق ہوگا اور بلاشبہ ان ہائوس تبدیلی سے لیکر آرمی چیف کی تقرری تک سب کچھ آئین کے مطابق ہی ہورہا ہے لیکن اِس کےباوجود فریقین کے تحفظات اپنی جگہ پر ہیں ۔ عمران خان کا مطالبہ بھی آئینی ہے اور حکومت کا انکار بھی لیکن اِس کے باوجود ملکی حالات تشویش ناک ہیں کیونکہ فریقین اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں اور اپنے موقف سے دستبردار ہونے کے لیے قطعی تیار نہیں یہاں تک کہ ثالثی کی کوششیں بھی اب بے سُود ہوچکی ہیں جیسا کہ صدر مملکت نے بھی بڑے دُکھ کے ساتھ بتایا ہے ۔ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ملتوی کردیا گیا ہے۔ دفترخارجہ پاکستان کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیا ہے اور نئی تاریخوں کا اعلان جلد کیا جائے گا بلاشبہ اِس کی وجہ کچھ بھی بتائی جائے لیکن کیا ہماری موجودہ سیاسی عدم استحکام اور کھینچاتانی والی بے یقینی پر مبنی صورتحال میں کوئی غیر ملکی شخصیت دورہ پاکستان کا ارادہ ظاہر کرے گی؟بلاشبہ ایسی غیر موزوں حالات کسی بھی ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ اور خطرناک ہوتے ہیں۔ ریاستیں ہمیشہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتی ہیں اِس لیے جہاں غیر یقینی کی صورت حال اور معاشی بحران ہو وہاں کون آئے گا اور کیا تعلقات کو وسعت دینے اور سرمایہ کاری کا اعلان کرے گا۔ ماضی گواہ ہے کہ ریاستوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ سربراہان کے باہمی تعلقات بھی ہمیشہ سے اثر رکھتے رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو حکومت کی پالیسی کے تسلسل کا یقین ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اقتدار کی میوزیکل چیئر جیسا سلسلہ جاری ہے، کوئی حکمران سنبھلنے لگتا ہے تو اِس کی رخصت کا وقت آجاتا ہے اور اُس کی معاشی اور خارجی پالیسیاں اُسی کے ساتھ رخصت ہوجاتی ہیں، پھر نئے حکمران اور نئی پالیسیاں تو اُن کے دور رس نتائج کیسے برآمد ہوں گے؟ سیاسی دائو پیچ آزمانا سبھی سیاست دانوں کا حق ہوتا ہے لیکن کیا ملک کی موجودہ نازک صورتحال، سیاسی عدم استحکام، معاشی دیوالیہ کا خطرہ، تاریخ ساز مہنگائی، داخلی و خارجی سکیورٹی کی صورتحال ایسے سیاسی دائو پیچ آزمانے کی اجازت دیتی ہے؟ ملک کے موجودہ حالات کو کسی بھی طور پر اطمینان بخش کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی جلد صورتحال بہتر ہونے کادعویٰ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بحران فوری اور طویل توجہ طلب ہیں لیکن فی الحال ارباب اختیار اِس جانب متوجہ نہیں ہیں ، پس نتیجہ جو بھی نکلے گا عوام کے ساتھ ساتھ اُن کے سامنے بھی آئے گا جو ’’میں نہ مانوں ‘‘ کی گردان جپتے نظر آرہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیںکہ بخوبی ادراک اُسے ہی کہاجاتا ہے جو معاملات کے بگاڑ سے پہلےکرلیا جائے، اگر مصیبت سر پر آن پڑے تو ایسے ادراک، بصیرت اور دانائی کا کیا فائدہ، ہم تو پہلے ہی نسل در نسل مصائب میں گرفتار قوم ہیں، ترقی اور خوشحالی کا تصور سیاسی قیادت کی تقاریر سے باہر نکل کر حقیقت کا روپ ہی نہیں دھار سکا، عوام اُکتاہٹ کا شکار ہوکر انتخابی عمل سے دور ہورہے ہیں کیونکہ اب انہیں کسی جانب سے ریلیف اور اُمید کی توقع نہیں رہی۔ مہنگائی، بے روزگاری اور مسائل کا ذمہ دار پیش رو کو ٹھہرانا پرانی اور فرسودہ روش ہے، لہٰذا اطوار بدلنے کی ضرورت ہے، پرانے اعلامئے اور بیانئے ہڈیوں کے ساتھ سرمہ ہوگئے، اب کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ نظریات سنے ۔ عام پاکستانی اب سوال کرتے ہیں کہ ستر سال میں ہمارے پلے کیا ڈالا گیا ہے۔ جس طرح عام آدمی کے پاس وقت نہیں اسی طرح سیاست دانوں کے پاس بھی وقت کی کمی ہے اور اس محدودوقت میں انہوںنے اپنی غلطیوں کو سدھارنا بھی ہے اور اپنی روش بھی بدلنی ہے، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو کوئی کسی کو محدود ہونے سے نہیں روک سکتا۔ ملک و قوم داخلی و خارجی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں مگر اُن کی فکر اور مشکلات کا ادراک کئے بغیر سیاسی عدم استحکام کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے پس اِس صورتحال کا نتیجہ جو بھی نکلے اُس کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی، آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں کوئی اِس حقیقت کا منکر نہیں ہوسکتا کہ عوام کو سیاسی جوڑتوڑ اور کھینچاتانی کی سمجھ بوجھ نہیں ہے، لہٰذا سیاسی قیادت ملک و قوم کی بہتری کے لیے متوجہ ہو وگرنہ ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button