Editorial

موسمیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس

 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ سیلاب سے پاکستان میں فصلوں، لوگوں کے روزگار اور نظام زندگی کو شدید نقصان پہنچا اور لوگوں کا سب کچھ تباہ ہو گیاہے، پاکستان عالمی برادری کی بھرپور مدد کا مستحق ہے، پاکستان کو ضرورت کے مطابق بین الاقوامی امدادنہیں ملی، پاکستان کو مشکل سے نکالنے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، عالمی مالیاتی ادارے اور جی 20ممالک پاکستان کو قرضوں میں چھوٹ دیں۔ اسی کانفرنس میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث جو تباہی پاکستان میں ہوئی وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گی، سیلاب سے ہمارے سماجی و اقتصادی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے ، دنیا کی طرف سے تباہی اور نقصانات کا ازالہ واحد امید ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں اور مسائل کے حل سے متعلق عالمی تنظیم (سی او پی 27) کی گول میز کانفرنس کے نائب صدر بھی ہیں اور 195ملکوں میں سے یہ اعزاز اُن کو دیاگیا ہے اور درحقیقت انہیں یہ اعزاز ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر موثر آواز پر دیا گیا ہے۔تنظیم کی صدارت مصر کے پاس ہے اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے وزیراعظم شہباز شریف کواجلاس کی مشترکہ صدارت کی دعوت دی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کے معاملے کو ایک بار پھر بھرپور قوت سے اِس کانفرنس میں اجاگر کیا اور پیرس معاہدہ پر عمل درآمد پر زور دیا اور اُن کے موقف کی بھرپور تائید اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے کی ،اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو مدد کی ضرورت ہے، عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس صورتحال میں بحالی اور تعمیرنو کے عمل کے لیے بڑے پیمانے پر بھرپور امداد کرے، اس حوالہ سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، تباہی اور نقصان کے ازالہ کے حوالہ سے کوپ27 کو واضح روڈ میپ بنانا چاہیے، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔ پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ موجودہ حالات میں مکمل اظہار یکجہتی کیا جانا چاہیے۔ یہاں بھی وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے اثرات کے حوالے سے ایک بار پھر ٹھوس موقف اختیار کیا اور کہا کہ عالمی برادری کے طور پر ہم ایک
نئے گرین ڈیل کی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں سے واپس جانا ناممکن ہوگا۔پاکستان میں لاکھوں افراد کو موسم سرما پناہ اور معاش کے بغیر بسر کرنا ہو گا حالانکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے، خواتین اور بچے اب بھی اپنی بنیادی ضروریات کے تحفظ کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ دیہات بہتر مستقبل کے تحفظ کے منتظر ہیں اور ایسی بحالی کے لیے وسائل کی ضرورت ہے جن کی ہم ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور وزیراعظم پاکستان کے خطابات کا حوالہ دینے کا مقصد دونوں اہم شخصیات کی عالمی برادری خصوصاً تنظیم کے رکن ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے عالمی مسئلے پر توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر بھی انہیں متحرک کرنا ہے کیونکہ کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہوا ملک پاکستان کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کیا ہے اور عالمی سطح پر اِس معاملے پر ابھی تک ایسے اقدامات نہیں کئے گئے جن سے متاثرین سیلاب کی ازسر نو بحالی ممکن نظر آئے، حالانکہ عالمی سطح پر خطرے کا باعث بننے والے ماحولیاتی چیلنج کی شدت کو تسلیم تو کیاجارہا ہے مگر صد افسوس اِس ضمن میں اقدامات کی رفتار انتہائی سست نظر آتی ہے حالانکہ اِس معاملے پر عالمی برادری کو جس طرح فوری متوجہ ہوکر آگے بڑھنا چاہیے تھا ،پاکستان میں سیلاب متاثرین کی موجودہ حالت زار سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے کہ ایسا نہیں کیاگیااور آج بھی متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے پاکستان کوبڑی امدادکی ضرورت ہے،عالمی برادری کو پاکستان کی بھرپورمددکرنی چاہیے کیونکہ عالمی درجہ حرارت بڑھانےمیں پاکستان کاکوئی قصورنہیں ، مگر معاشی مسائل سے دوچار ملک کو تیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا دبائو ایک طرف، سیلاب سے ہونے والی تباہی دوسری طرف، لہٰذا معاشی مسائل سے دوچار ملک متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے کوشش کرے یا پھر قرض اُتارے، اِس لیے عالمی برادری قرضوں کی واپسی میں بھی پاکستان کی مدد کرے کیونکہ سیلاب متاثرین نے اپنا سب کچھ گنوادیا ہے، کروڑوں لوگ کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر ہیں، موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے، موسم کی شدت سے بچنے کے لیے کوئی تدبیر نہیں، ایک طرف عالمی سطح پر اِس تباہی پر سردمہری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف داخلی طور پر بھی اب متاثرین کی ویسی داد رسی ممکن نہیں رہی کیونکہ پاکستانیوں نے اپنے وسائل کے مطابق متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کی ہے مگر جتنی مدد عالمی سطح پر کی جانی چاہیے تھی اُس کا تاحال فقدان نظر آرہا ہے جو انتہائی مایوس کن اور اِس کے نتائج خوفناک برآمد ہوں گے، کیونکہ کروڑوں لوگ بے گھر موسم کی شدت ، بیماریوں، خوراک کی قلت اوردوسرے مسائل کا سامنا کررہے ہیں یہاں تک کے لوگوں کو گرم لباس کی بھی ضرورت ہے، پس عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ حالات کی نزاکت جانے اور فوری آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرے، کیونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جس تباہی سے دوچار ہوا ہے، اِس میں پاکستان کا قصور نہیں ہے بلکہ اُن ترقی یافتہ ممالک کا قصور ہے جو ابھی تک سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود چپ سادھے ہوئے ہیں ۔ ہم اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کے بھی شکرگذار ہیں کہ وہ ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کے اِس اہم مسئلے کی جانب اقوام عالم کی توجہ مبذول کرارہے ہیں، عالمی برادری کو اب اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کیونکہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اپنی آنکھوں سے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی اور متاثرین کی بے بسی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام پر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی اس غیر معمولی سیلاب کے کس حد تک تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس تباہی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی مدد کی ضرورت تھی اور تاحال ہے۔ بلاشبہ چین اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے اِس صورتحال میں پاکستان کی بے حد اور ہر ممکن مدد کی ہے لیکن جیسی تباہی ہوئی ہے ، اُس کا مداوا تبھی ممکن ہوگا جب عالمی برادری مل کر متاثرین کو ازسرنو بحال کرنے کے لیے میدان عمل میں آئے گی۔ متاثرین کا ذریعہ معاش، املاک، جمع پونجی ، کھیت کھلیان سبھی کچھ سیلاب کی نذر ہوچکا ہے اور جہاں پہلے ہنستے بستے شہر اور گائوں آباد تھے اب وہاں میدان نظرآرہے ہیں اور متاثرہ لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں جس سے وہ دوبارہ زندگی سفر کرسکیں، ایک طرف حکومت پر متاثرین کی فوری بحالی کی ذمہ داری ہےتو دوسری طرف فصلیں تباہ و برباد ہونے کی وجہ سے خوراک کی قلت کے بھی مسائل ہیں لہٰذا اِس صورتحال میں پاکستان کی فوری مدد کی جانی چاہیے اور مالیاتی اداروں کو بھی قرضوں کے حوالے سے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کو مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ محض اظہار یکجہتی سے ان مشکل حالات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ قرین انصاف یہی ہے کہ بڑے ممالک جن کا ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں بڑا حصہ ہے، اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے آگے آئیں اور نہ صرف متاثرین کی مدد کریں بلکہ ملک کو اِس خطرناک چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے وسائل فراہم کریں کیونکہ جب تک موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ رہے گا، سیلاب، موسموں کی شدت، اجناس کی قلت سمیت بے شمار مسائل جوں کے توں رہیں گے بلکہ ان میں بتدریج اضافہ ہوتا ہوگا، لہٰذا اپنی اپنی ذمہ داری کا فوری ادارک کرنا اشد ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button