ColumnM Anwar Griwal

کچھ احوال اسلام آباد اور فیصل مسجد کا! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

گزشتہ دنوں ایک قریبی عزیز کی شادی میں اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا، ہفتہ بھر وہاں قیام رہا۔ شادی کے ایام بھی کچھ تفریحی قسم کے ہی تھے کہ بارات نے لاہور جانا تھا، اس لیے وہ لاہور ہی گئی۔ پہلی ہی شام ایک کھانے میں تمام عزیز و اقارب کو آگاہ کر دیا گیا کہ رشتہ داری اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے،اور صِلہ رحمی بھی اُس کو بے حد پسند ہے، اس لیے سیاست کی گرما گرمی میں اپنی رشتہ داری میں دراڑیں ڈالنے سے کہیں بہتر ہے کہ سیاست پر گفتگو ہی نہ کی جائے اور رشتوں کو مضبوط بنا کر ثوابِ دارین بھی سمیٹا جائے،یہی ہوا، شادی کے چاروں روز سب لوگ اکٹھے ہوتے رہے، مگر سیاست کے دہکتے ہوئے انگاروں سے ذرا فاصلے پر ہی رہے۔ دلہا والوں کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے، تاہم انہوں نے ایک دلچسپ فیصلہ یہ کیا کہ بارات کوچ میں جائے گی (سوائے دلہا کے ساتھ ایک آدھ گاڑی کے)، یوں پوری فیملی اور ان کے عزیز ایک ہی کوچ میں گئے، جس سے خوب رونق رہی۔ گویا سیاست پر بحث کے علاوہ بھی ماحول میں دلچسپی کے عناصرپیدا کئے جاسکتے ہیں اور دنیا میں اور بھی راحتیں ہیں وصل کے سوا۔
لاہور سے واپسی کا سفر ابھی شروع نہ ہوا تھا کہ خبر آگئی کہ عمران خان کو الیکشن کمیشن نے نااہل کر دیا ہے۔اب شادی والوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے، چار پانچ گھنٹے کا سفر ہے، سرپر رات آئی اور چھا گیا اندھیرا۔ کیا سڑکیں کھلی ہوں گی یا خان کے جذباتی حامیوں نے راستے بلاک کر دیئے ہوں گے، تاریں کھڑکنے کا زمانہ تو گزر گیا، تاہم تازہ ترین صورت حال سے آگاہی کیلئے سب نے اپنے اپنے ذرائع سے معلومات لینے اور کوچ میں بیٹھے دیگر لوگوں کو سُنانے میں اپنے فرائض ادا کئے۔ آخر نتیجہ یہ نکلا کہ اگر لاہور سے اسلام آباد والی موٹر وے پر چڑھنے دیا گیا تو گویا راستہ کھلا ہوگا۔ خیر گُزری کہ سفر جاری ہوا، اسلام آباد پہنچ کر بھی کوئی رکاوٹ نہ آئی یوں پریشانیوں سے بچتے ہوئے بارات گھر واپس پہنچ گئی۔ سیاست پر بحث نہ کرنے کے فیصلے کی پاسداری ملاحظہ فرمائیے کہ اِس خاص واقعہ کے بعد بھی کسی قسم کی جذباتی گفتگو منظرِ عام پر نہ آسکی۔ اس ایک خاص واقعہ کے علاوہ بھی کاروباری طبقات میں سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی دھرنا، جلسہ، احتجاج یا مارچ وغیرہ ہوتا رہتا ہے، اُن کا رُخ اور مرکز اسلام آباد ہی ہوتا ہے، جس سے کاروبارِ زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ بڑی اکثریت اس صورت حال بہت تنگ اور دل گرفتہ ہے۔
چھوٹی ٹیم کو کچھ سیر سپاٹا کروانے کا عزم بھی ہم سفر تھا، لہٰذا یہ کارِ خیر بھی بخیر انجام پذیر ہوا ۔ اسلام آباد جا کر دیہاتی پس منظررکھنے والے لوگوں کی سب سے پہلی خواہش فیصل مسجد کو دیکھنے کی ہوتی ہے۔ ویسے بھی مسجد ہی دیکھے جانے کیلئے پہلی ترجیح قرار پاتی ہے، فطری طور پر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا ۔ نماز عصر کے نکلتے ہوئے وقت میں ہم لوگ مسجد پہنچے۔ مایوسی اور پریشانی نے ایک ہتھوڑا سا ہمارے سر پر مارا۔ پارکنگ سے کوئی فرد یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ پاکستان کے دارالحکومت میں دیکھنے کیلئے سب سے اہم مقام ہے۔ الجھی ہوئی بے ترتیب ٹیکسیاں اور دیگر سواریاں۔ تھوڑا سا آگے بڑھیں تو مسجد کو جانے کیلئے گرد وغبار سے اَٹے ہوئے راستے، بے ترتیب پتھروں کا اُکھڑا ہوا فُٹ پاتھ۔ نہ سلیقہ، نہ صفائی، نہ کوئی ڈسپلن۔جابجا ریڑھیوں پر فروخت ہوتی کھانے پینے کی ناقص چیزیں، اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے آوازیں اور بعض نے ٹیپ ریکارڈرپر عوام کو متوجہ کرنے کا فریضہ جاری کر رکھا تھا۔ مسجد کے باہر کا منظر ایسا ، جیسے کسی دور دراز علاقے میں کوئی بہت معروف مزار ہو۔
مسجد میں داخل ہوئے تو تمام برآمدوں اور راہداریوں میں بستر لگے ہوئے تھے، بہت سے لوگ وہاں بیٹھے تھے، کچھ مصروفیات سے فرصت پا کر آرام کر رہے تھے۔ مسجد کے ہال کمرے کے علاوہ کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ یہ نئی چیز دیکھ کر بہت حیرت ہوئی، غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ’’ایف سی‘‘ والے ہیں۔ گویا حکومت نے انہیں قبل از وقت اسلام آباد بلا رکھا تھا، کہ بوقت ضرورت کام آئیں ۔ یقینا دیگر مسکین سرکاری عمارات میں بھی یہ لوگ موجود ہوں گے، جب جگہ نہ بچی تو مسجد کے برآمدوں اور وضو خانوں میں ان کو ڈال دیا۔ مسجد کا سارا حُسن تو اِسی عمل سے گہنا یا ہوا تھا۔ ان لوگوں کیلئے اسلام آباد میں دیگر جگہوں پر بندوبست کوئی مشکل نہ تھا، مگر مسجد کو سرائے بنا کر رکھ دیا گیا۔
دوسری طرف عوام کا جمِ غفیر، جیسے ہماری طرح یہ سب اسلام آباد کسی اور کام کیلئے آئے ہوئے تھے ، بس وقت نکال کر مسجد کی سیر کو چلے آئے۔ سیڑھیوں، چھوٹی دیواروں، نشیب و فراز اور صحن میں ہر طرف عوام ہی عوام۔ خواتین ، بچے اور ہر عمر کے لوگ ۔ تصاویر بن رہی ہیں، شور شرابہ ہے، ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ اِسی اثنا میں مغرب کی اذان ہوگئی، بہت سے مرد حضرات اور اکثر خواتین اپنے کھیل تماشے میں مصروف رہے۔ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد امام صاحب نے مسجد کی طرف سے اعلان کیا، ’’حضرات، یہ مسجد ہے، کوئی سیر گاہ یا پارک نہیں، یہاں پر موجود خواتین و حضرات نماز پڑھیں یا بیٹھ کر تسبیحات کریں، یہ موج میلے کی جگہ نہیں، اس سے مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے‘‘۔ امام صاحب کی تمام باتیں بہت اچھی اور ضروری تھیں، مگر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہر نماز میں بھی امام صاحب یہ باتیں کہتے رہیں اور سارا سال بھی انہیں دُہراتے رہیں تو بھی کسی پر ذرا بھر فرق نہیں پڑے گا، یہ ہنگامہ یوں ہی مچا رہے گا، اگر کوئی قانون سازی ہواور سرکاری اورانتظامی طور پر کوئی حکم جاری کیا جائے اور اُس پر عمل ہو تب حالات میں کچھ فرق پڑ سکتا ہے۔ ورنہ یہاں نہ صرف تقدس پامال ہوتا رہے گا بلکہ مسجد کا بھی وہی حشر ہوگا جو پارکنگ سے لے کر مسجد تک کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button