ColumnJabaar Ch

فُل کورٹ کمیشن .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

مسائل کا پہاڑہے اور حل کہیں بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ہمارے ہاں مسائل اس لیے بھی ختم نہیں ہوتے کہ سسٹم اور ادارے کمزوراور افراد طاقتور ہیں۔ ادارے مسائل کے حل کیلئے قانون کو نہیں بلکہ سامنے بیٹھے شخص کو دیکھتے ہیں۔لالچ اورپیسے کی ہوس سسٹم چلانے والوں کوکرپشن ،رشوت اور لاقانونیت کی طرف لے جاتی ہے اور اگر ایسے میں احتساب، سزا اورجزاکا نظام موم کی ناک ہوتو پورے کا پوراسسٹم ’’رِگ‘‘ ہوجاتا ہے۔قانون کی بلاتفریق عملداری صرف مجرم کو سزا ہی نہیں دیتی بلکہ معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی بھی خوب کرتی ہے۔شفافیت، چیزوں کوبلیک اینڈ وائٹ طریقے سے دیکھنا بھی مسائل کے حل میں مدددیتا ہے۔ہمارے ہاں اس کمزورسسٹم کا فائدہ ہمیشہ طاقتورنے اٹھایاہے۔غریب اور بے آوازکیلئے تویہ کمزورسے کمزورسسٹم بھی اتنا طاقتور بن جاتا ہے کہ فوری سزااس کے حصے میں ڈال دی جاتی ہے۔
عمران خان صاحب پر حملہ ہوا۔ایک قابل مذمت اور قبیح فعل انجام دیا گیا۔مہذب معاشروں میں ایسے جرائم کی تہہ تک پہنچنے کیلئے پوراسسٹم دن رات ایک کردیتا ہے۔تقاضا بھی یہی ہے کہ نتیجہ نکالا جائے۔کسی کا انفرادی فعل نکلے تو اس کا نفسیاتی معائنہ کیاجائے۔اس شخص کو معاشرے سے الگ کردیا جائے۔ محرکات کو جانچا جائے۔اگرمنظم منصوبہ بندی سامنے آئے تو سازش کرنے والوں کا ناطقہ بند کردیا جائے، لیکن ہمارے ہاں ایسے واقعات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ہم سب اس قدراپنے اندر یہ بات راسخ کرچکے ہیں کہ تفتیش سے کچھ نہیں نکلے گا۔نکلے گا اس لیے نہیں کہ ہم کچھ نکالنا ہی نہیں چاہتے۔سچ سامنے لانے اور اسے قبول کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔اسی لیے ایسے واقعات کواپنی سیاست اور مفادات کیلئے استعما ل کیا جاتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان پر ہوئے حملے کے بعد تحقیقات کی سب سے زیادہ جلدی خود خان صاحب کو ہوتی اور خان صاحب سے بھی زیادہ جلدی قانون نافذکرنے والے اداروں کو ہوتی لیکن ہوا کیا؟
ہوا یہ کہ عمران خان نے حملے کے بعد فوری طورپربغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے فیصلہ جاری کردیا کہ یہ کام تین لوگوں نے انجام دیا ہے۔ اس لیے یہ تین فوری مستعفی ہوجائیں۔اس بیان کے بعد آپ کوئی بھی نتیجہ اس تفتیش سے نکال لیں۔اقوام متحد ہ یا سکارٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کروالیں،خان صاحب کے اعلان کردہ نتیجے کے برعکس کچھ بھی نکلا۔ وزیراعظم ،وزیرداخلہ اور ڈی جی سی کے علاوہ کوئی نام یاکردارثابت ہواتو اس کو خان صاحب مانیں گے اور نہ ہی ان کے پیروکار۔کیوں نہیں مانیں گے؟ اس لیے کہ وہ سیاستدان ہیں اور سیاست کرنے کیلئے الزامات سے بہترکوئی حکمت عملی نہیں ہوتی۔سیاست میں نتائج نہیں مسائل اہم ہوجاتے ہیں۔ اب کوئی کچھ بھی کرلے خان صاحب کے مجرم بس یہی تین لوگ رہیں گے۔ بھلے پکڑاجانے والا سو بار اعتراف کرلے۔ قرآن پر حلف دے کہ وہ اکیلا تھا اس کے ساتھ اس جرم میں کوئی شریک نہیں لیکن جواب یہی ملے گا کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ عمران خان پر حملہ انہی تین لوگوں نے کروایا ہے۔
خان صاحب نے کیوں فوری طورپرایف آئی آر کے اندراج سے پہلے ہی یہ اعلان کردیا؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ اس وقت مشتعل ہیں۔ ان کو فوری طورپر اپنا غصہ نکالنے کیلئے ولن کی ضرورت ہے۔ تفتیش کاروں کا کیا پتا کتنا وقت لگائیں۔کیا نتیجہ نکالیں۔ اس حملے میں کسی حکومتی بندے کا ہاتھ نکلے گا بھی یا نہیں۔ اس لیے لوگوں کو سڑکو ں پر لانے اور احتجاج کو زندہ رکھنے کیلئے اپنے کٹر مخالفین کو الزام دینا بہت ضروری ہے۔خان صاحب ہر صورت میں الیکشن تک اسی طرح لوگوں کو سڑکوں اور احتجاج میں رکھنا چاہتے ہیں یہ ان کی مجبوری ہے،کیونکہ انہیں خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر جلد الیکشن نہ ہوئے تو شاید اقتدارکی دیوی ان پر مہربان نہ ہو۔اگر الیکشن اپنے وقت پر ہوئے تو کیا پتا یہ حکومت کچھ پرفارم کرکے الیکشن لڑنے کے قابل نہ ہوجائے اس لیے وہ فوری الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں اور اگر یہ الیکشن فوری نہیں ہوتے تو وہ اپنی مقبولیت کے اس موممنٹم کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور یہ حملہ اس احتجاجی موممنٹم کو آگے بڑھانے میں معاون بن رہاہے۔
لانگ مارچ سے وہ نتائج نہیں نکل رہے تھے جو اس حملے کے بعد فوری طورپرپاک فوج پر الزام لگاکر۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ ساتھ ڈی جی سی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی ضدکرکے نکل رہے ہیں۔ خان صاحب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں تقسیم درتقسیم کی زمین اس قدر زرخیز ہے کہ اگر نفرت کا بیج ڈالنے میں ذراسی بھی تاخیر ہوگئی تو خواہش کے مطابق نتائج نکلنے میں ناکامی ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے کارکنوں کو مسلح افواج کے سامنے کھڑاکرنا چاہتے ہیں تاکہ فوج دوبارہ سیاست میں آئے اور ایک بار پھر عمران خان صاحب کو نہ صرف کرسی پر بٹھائے بلکہ پہلے کی طرح کرسی کے پائے پکڑکر بھی رکھے۔
عمران خان پر حملے کاکوئی نتیجہ نہ نکلے یہ عمران خان کی خواہش بھی ہے اور فائدہ بھی انہی کو ہوگااس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ اس حملے کی تحقیقات ہوں تاکہ عمران خان کو ان پر الزامات کا موقع نہ ملے۔ اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کا ہونا حکومت اور افواج پاکستان کیلئے فائدہ منداور خان صاحب کیلئے نقصان دہ ہے،کیونکہ جانتے خان صاحب بھی ہیں کہ جس صوبے میں یہ واقعہ ہوا ہے وہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔ سکیورٹی میں اگر کوتاہی ہوئی ہے تو بھی ذمہ داران کی اپنی حکومت ہے اور اگر اطلاعات (جیسا کہ عمران خان نے کہا کہ انہیں معلوم تھا کہ اسی مقام پر حملہ ہوگا)کے باوجود عمران خان نے احتیاط نہیں کی توبھی انگلی انہی پر اٹھے گی۔
عمران خان نے پاک فوج پر الزامات لگائے جس کا جواب آئی ایس پی آر کی طرف سے آچکا۔ آئی ایس پی آر نے حکومت سے عمران خان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔اس کے بعد وزیراعظم نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے فُل کورٹ کمیشن بنانے کی اپیل کی ہے۔حکومت نے عمران خان کے الزامات کی بال سپریم کورٹ کی طرف اچھا ل دی ہے، تادم تحریر کمیشن کا فیصلہ نہیں ہواتھا،ممکن ہے آج سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس عمرعطا بندیال صاحب حکومت کی یہ فریاد سن لیں اور شفاف تحقیقات کا کوئی راستہ نکالیں تاکہ الزامات اور صرف الزامات سے اس ملک کی جان چھوٹ سکے۔دوسری کارروائی میں پیمرانے عمران خان صاحب کی گفتگو،بات چیت اور تقاریرکو ٹی وی چینلز پر دکھانے پر مکمل پابندی لگادی تھی جس کو کچھ ہی دیر بعد وفاقی حکومت نے خصوصی اختیارات کے تحت واپس لینے کی ہدایت کردی۔ میری نظر میں آج کل کے ڈیجیٹل دورمیں وی سی آر والی حکمت عملی نہ ہی اپنائی جائے تو بہتر ہے۔اس طرح کی میڈیا پابندی کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا اس لیے حکومت نے پابندی کا فیصلہ واپس کرکے اچھاکیا ہے۔پابندی سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ عمران خان صاحب کوآئین کے آرٹیکل 19 میں دیے گئے حقوق کے ساتھ وہاں درج فرائض کا بھی پابند بنایا جائے۔ خان صاحب پر حملے کی شفاف تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ میر ی بھی سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ مائی لارڈآپ انصاف کا سب سے اونچااور آخری فورم ہیں۔ عمران خان اس معاملے میں خود مدعی،وکیل اور جج تک بن بیٹھے ہیں۔ فیصلے اور ججمنٹ کا منصب آپ کا ہے اس لیے۔ اس حملے کی شفاف تحقیقات کا راستہ نکالیں۔ کیونکہ مسائل کا پہاڑہے اور حل کہیں بھی سُجھائی نہیں دیتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button