CM RizwanColumn

عمران خان پر قاتلانہ حملہ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

پاکستان تحریک انصاف کے حکومت مخالف حالیہ لانگ مارچ کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے زخمی ہونے اور ایک شخص کے جاں بحق ہونے کے واقعے کے خلاف جہاں تمام ملکی اور بین الاقوامی قائدین اور عہدیداران نے مذمتی بیان جاری کئے وہاں ملک گیر احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہو گئے۔ متعدد شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے حکومت مخالف نعرے بازی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر جلاؤ گھیراؤ اور سڑکیں بلاک کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ عمران خان کے ایک اتحادی شیخ رشید نے رد عمل میں کہا کہ عمران خان پر حملہ ملک میں خانہ جنگی شروع کروانے کی سازش ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر فائرنگ کے واقعے کی ہر مکتبہ فکر کی طرف سے مذمت کی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی اور کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر فائرنگ کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ملکی سیاست میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور یہ کہ انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ سے اس واقعہ کی فوری رپورٹ طلب کر لی ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق سمیت مختلف سیاسی رہنماؤں نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کی صحت یابی کیلئے دعا کی۔ پاک فوج کے شعبہ آئی ایس پی آر نے بھی لانگ مارچ میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق لانگ مارچ کے دوران سٹیج نما کنٹینر اور اس کے اردد گرد موجود پی ٹی آئی کے کل تیرہ افراد فائرنگ کی زد میں آئے۔ عمران خان کو فوری علاج کیلئے لاہور میں ان کی والدہ کے نام سے منسوب شوکت خانم ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر فیصل سلطان کی سربراہی میں چار رکنی میڈیکل بورڈ ان کا علاج کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ اس سال ماہ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی حکومت کی تشکیل سے لے کر اب تک کے حالات و واقعات اور عمران خان کی جلسوں، پریس کانفرنسز، ریلیوں اور مارچوں میں کی گئی تقاریر اور استعمال کی گئی زبان اور ان کے اعتماد کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک بات تشویش ناک حد تک واضح ہوتی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور اکابرین ایک تواتر سے جزوی طور پر عدلیہ، اداروں اور سیاسی مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کرتے، رکیک قسم کے الزامات لگاتے نظر آئے۔ سوشل میڈیا سائٹس پہ انتہائی غلیظ توہین آمیز ٹرینڈز چلا کر ملک کی معزز شخصیات اور مقتدر اداروں کو تضحیک اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جھوٹ، منافقت غلط بیانی، اشتعال انگیزی، بیرونی سازش کا بیانیہ تشکیل دے کر 22 کروڑ عوام کو ریاست سے بغاوت، ملک میں
افراتفری اور ہیجان پیدا کرنے پہ اکسایا گیا مگر عمران خان ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی عوام سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے۔ عمران خان نے جس طرح اپنے چند خاص مصاحبین کے مشوروں پر اپنے لیے مستقبل کی سیاست کے دروازے ایک ایک کر کے بند کیے ہیں اس کی مثال اس سے پہلے ملک کی سیاسی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ ایک ہی قسم کی رٹی رٹائی بے بنیاد الزامات و لغویات پر مبنی پریس کانفرنسز، اپنے من پسند صحافیوں اور اپنے بیانیے کے ہمنواوں کو بٹھا کر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہرزہ سرائی، سیاسی عدم برداشت، جعلی من گھڑت سازشی تھیوریاں پیش کرنے اور پھر اپنی ہی گھڑی ہوئی جھوٹی باتوں پہ یوٹرن لینے کی بچگانہ حرکتوں نے پچھلے چار سال میں عمران خان کو ایک مقبول قومی سیاسی رہنما سے اقتدار و اختیار چھن جانے کی وجہ سے ایک بپھرے ہوئے سیاسی جماعت کے سربراہ تک محدود کر دیا ہے۔حالانکہ عمران خان کے خلاف آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور کامیابی سے ہم کنار ہوئی تھی۔ ان کی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پہ پونے چار سال تک ٹکی رہی اور وہ پونے چار سال تک اپنے ہر وعدے اور اتحادیوں سے کیے گئے ہر معاہدے سے انحراف کر چکے تھے۔ ان میں اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی صلاحیت بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے ایک ایک کر کے سب اتحادی انہیں داغ مفارقت دے گئے اور اس طرح تحریک عدم اعتماد نے جنم لیا اور آج عمران خان اقتدار کے ایوانوں سے دور سوائے اپنے ہمنواوں کے پورے
ملک کی اشرافیہ کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان پر جھوٹے الزامات لگا کر ملک کی قومی سلامتی، امن و سکون، معیشت و جمہوری روایات اسلامی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ اب اگر عمران خان کے سابقہ لانگ مارچ کا احوال دیکھا جائے تو ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ 25 مئی کو عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا ہوا تھا، اس سے پہلے ان کے شعلہ بیاں ساتھی اپنے احتجاج کے آئینی جمہوری حق کے خونی مارچ بن جانے کے شوشے چھوڑ کر پہلے ہی متنازعہ بنا چکے تھے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو عوام کی جان و مال کے تحفظ کے اقدامات اٹھانے ہی تھے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے بعض عہدیداران کے گھروں سے مہلک آتشیں اسلحے کے ذخیرے برآمد ہوئے، شرپسند عناصر نے جس طرح غلیلوں، ڈنڈوں، اینٹوں اور پتھروں کے ساتھ سکیورٹی اہلکاروں پہ حملے کیے انہیں شدید زخمی کیا، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ درخت جلائے۔ ایسے میں ہماری عدلیہ بھی حکم صادر کر بیٹھی کہ گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے، کسی جلوس کو نہ روکا جائے، مسلح جتھوں کو اسلام آباد میں داخلے اور فلاں جگہ پہ دھرنے کی اجازت بھی دی جائے اور انتظامات بھی کر کے دیئے جائیں۔ کاش کہ اس مارچ کے سہولت کاروں اور ذمے داروں کا تعین کر کے ان کو قرار واقعی سزا اسی وقت مل گئی ہوتی تو شاید آج مسلح جتھوں کو ریاست پر دوبارہ چڑھائی کی ہمت نہ ہوتی۔ بہر حال سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود عمران خان نے بلوائیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی ترغیب دی، انہیں اکسایا کہ اب سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے ہمارا راستہ صاف کر دیا ہے۔ ان کی اس ترغیب نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور دس ارب درخت لگانے کا دعویٰ کرنے والوں نے اسلام آباد ڈی چوک میں سب سے پہلے درختوں اور سبزے کو ہی آگ لگا دی۔ سب سے افسوس ناک بات یہ تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے احکامات کی دھجیاں اڑانے والے شخص کی سخت پکڑ کرنے کے بجائے کہا گیا کہ شاید اس تک ہمارے احکامات درست طریقے سے پہنچے ہی نہیں۔ اب شاید اس امر کا ازالہ بھی کسی حد تک کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا کہ عمران خان اپنے خیالی بیس لاکھ نفوس پر مشتمل جتھے کے ساتھ پچھلے دھرنے کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی کھلے عام دھمکیوں کے ساتھ لاہور سے لانگ مارچ کرتے ہوئے وزیر آباد کے قریب ظفر علی خان (اللہ والا چوک ) چوک پر پہنچے ہی تھے کہ مبینہ طور پر ان کے کنٹینر پر فائرنگ کردی گئی۔ فائرنگ کرنے والے مبینہ طور پر دو یا اس سے زیادہ تھے تاہم مبینہ طور پر ایک حملہ آور پکڑا گیا پھر حملہ اور کا متنازعہ اعترافی بیان بھی آ گیا۔ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی کی جانب سے اس اعترافی بیان کے قبل از وقت وائرل ہونے کا نوٹس لیا گیا اور پورا تھانہ معطل کر دیا گیا۔ اب اگر عمران خان کا سابقہ ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو فوری طور پر اس حملہ کی مکمل تفتیش اور تحقیق کے بغیر کسی بھی شخص یا پارٹی پر الزام دھرنے کو پاکستان کے کسی بھی ذی شعور انسان کا ذہن نہیں مانتا تاہم پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا بلاتاخیر اور بغیر سوچے سمجھے شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور ایک سکیورٹی افسر پر الزام لگا دینا اب تک تو ایک مذاق ہی لگ رہا ہے۔ البتہ آگے چل کر اصل حقائق تفتیش سے ہی سامنے آئیں گے۔ تب تک ہماری قومی روایات کے مطابق کسی کو بھی کسی پر اعلانیہ الزام لگانے کی کھلی چھوٹ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button