ColumnImtiaz Aasi

قیدیوں پر تشدد ،خاتمے کی طرف اہم قدم .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

قیدیوں کی تضحیک اور ان پر تشدد کے بڑھتے ہوئے وقت کی روک تھام کے پیش نظر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جناب اطہر من اللہ نے حکومت کو ایک ماہ کے اندر ہیومن رائٹس کورٹس کے قیام اورجیل میںدس روز کے اندر شکایات سیل قائم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہیومن رائٹس سے متعلق قوانین خاصے مضبوط ہیں۔ اپنے ریمارکس میں سنٹرل جیل اڈیالہ کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتے ہوئے سیکرٹری نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کوبہترین اور Tip of the Iceberg قرار دیتے ہوئے اسے پبلک کرنے ، آئی جی جیل خانہ جات اور سنٹرل جیل اڈیالہ کے سپرنٹنڈنٹ کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا ہے۔انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات شاہد سیلم بیگ ملازمت پوری کرنے کے بعد رٹیائر ہو چکے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل اعجاز اصغر اس سے قبل پی ٹی آئی دور میں سفارش کے بل بوتے پر سنٹرل جیل راولپنڈی تعینات ہوئے تھے کہ چند ہفتے بعد انہیں بعض شکایات پر یہاں سے تبدیل کر دیا گیا تھاوہ مسلم لیگ نون کے وفاقی وزیر میاںجاوید لطیف کے قریبی عزیز ہیں ۔ان کی ملازمت کا زیادہ تر عرصہ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی کی منفعت بخش جیلوں میں گذرا ہے۔ان شہروں کی جیلوں میں سب اچھا (رشوت) زیادہ ہونے کی وجہ سے تعیناتی کے لیے اعلیٰ سطح پر بہت دبائو ہوتا ہے۔
گذشتہ دور میں سنٹرل جیل راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹس تواتر سے تبدیل ہوتے رہے جس کی وجہ پنجاب کی سنٹرل جیلوں میں سب سے زیادہ سب اچھااسی جیل میں ہوتا ہے ۔جہاں تک قیدیوں پر تشدد کی بات ہے جیل مینوئل میں قانون توڑنے والے قیدیوں کے لیے قصوری بلاک کی موجودگی کے باوجود ان پر تشد د معمول ہے ۔قانونی طور پر لڑائی جھگڑا کرنے اور غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب قیدیوں اور حوالاتیوں کوقصوری بلاک میں بند کرنا چاہیے ۔جیل قوانین میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کسی قیدی کے بہت زیادہ violent ہونے کی صورت میں جیل حکام کو فورس استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔قصوری بلاک میں رکھے جانے والے قیدیوں کو چوبیس گھنٹے بند رکھا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے قیدیوں کو فراہم کئے جانے والے کھانے کے باوجوداچھے گھرانے کے قیدی اپنے طور پر کھانا تیار کراتے ہیںجب کہ قصوری بلاک میں رکھے جانے والے قیدیوں کولنگر خانے کے کھانے پر گذرا کرنا پڑتا ہے۔قصوری بلاک کی اذیت سے بچنے کی خاطر قیدی جیل حکام کو بہت زیادہ پیسے دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ایسے قیدی اور حوالاتی جو مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں جرم سرزد ہونے کی صورت میں جیل ملازمین انہیںمار پیٹ کے بعد قصوری بلاک میں بند کر دیتے ہیں۔ متاثرہ قیدی کامعاملہ کچھ اسی طرح کا تھا اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔اگرچہ وہ منشیات کے مقدمہ میں جیل بھیجا گیا انسان ہونے کے ناطے اسے وہی حقوق حاصل تھے جو ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے قیدی کوہو تے ہیں۔پنجاب کی جیلوںمیں تشد د کے ساتھ خودکشی کے واقعات بھی عام ہیں ۔جیل ملازمین کے رویے سے تنگ آنے والے قیدی عام طور پر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چند سال پہلے سزائے موت کے ایک قیدی نے سنٹرل جیل راولپنڈی میں آزار بند سے پھندا ڈال کر خودکشی کر لی حالانکہ جیل مینوئل کے مطابق سزائے موت کے قیدی اپنی شلوار میں آزار بند نہیں باندھ سکتے انہیں لاسٹک ڈالنے کی اجازت ہوتی ہے اسی طرح سنٹرل جیل ساہیوال میں سزائے موت کے ایک قیدی نے دوسرے قیدی کو قتل کردیا جیسے واقعات حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
توجہ طلب پہلو یہ ہے بہت سے قیدی تشدد سے بچنے کی خاطر جیل ملازمین کو بہت زیادہ رشوت دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیںلہٰذا جیل حکام کے لیے جہاں آمدن کے ذرائع ہوتے ہیں وہاںقصوری بلاک آمدن کا بڑا ذریعہ ہے ۔جیلوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے طریقوں پر لکھا جائے تو کئی کالموں کی ضرورت ہے۔عدالتوں سے سزایاب ہونے کے بعد قیدیوں کو مشقت کرنا پڑتی ۔قانونی طورپر تمام قیدیوں کو مشقت پر رکھا جانا چاہیے ماسوائے ان کے جوعلالت کے باعث مشقت کے قابل نہ ہوں میڈیکل آفیسر کی سفارش پر انہیں مشقت سے بری الزمہ قرار دے دیا جاتا ہے ۔ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے قیدی میڈیکل آفیسر کو اس کی حسب منشاء سب اچھا دے کر مشقت معاف کرا لیتے ہیں۔ جن قیدیوں کو مشقت کے لیے جیل کی فیکٹری میں ڈالا جاتا ہے ان میں نصف قیدی
جن کی تعداد کم ازکم تین سو ہوتی ہے پانچ سے چھ ہزار روپے ماہانہ سب اچھا کرکے مشقت سے جان بخشی کرالیتے ہیں۔لنگر خانوں کی مشقت قیدیوں کے لیےمشکل ترین مشقت ہوتی ہے جہاں انہیں تندوروں پر روٹیاں لگانے کے ساتھ سالن کی تیاری دیگوں کی دھلائی اور لنگر کی قیدیوں میں تقسیم کرنا پڑتی ہے ۔لنگر کی مشقت سے جان بخشی کرانے کے لیے پانچ سے چھ ہزارسب اچھا دنیا پڑتا ہے۔قیدیوں اور حوالاتیوں کے ملاقاتی شیڈ کا ٹھیکہ ہوتا ہے ۔شیڈ سے ہونے والی ہفتہ وار آمدن بڑوں کو دینا پڑتی ہے۔لنگر خانوں، قیدیوں کی تلاشی اور بیرکس کا باقاعدہ ٹھیکہ دیا جاتا ہے جو ہیڈ وارڈر زیادہ سے زیادہ ماہانہ دینے پر رضامند ہوں انہیں من پسند بیرکس کا انچارج بنایا جاتا ہے ۔وہ ہیڈ وارڈر اور وارڈرجو ٹھیکے لینے کا کام نہیں کرتے انہیں چار گھنٹے والی ڈیوٹی کے لیے جیل میں بھیجا جاتا ہے۔دل چسپ امر یہ ہے جن ہیڈ وارڈرز یا وارڈرز کو ڈیوٹی بک کی ڈیوٹی دی جاتی ہے وہ بھی ملازمین سے باقاعدہ سب اچھا وصول کرتے ہیں۔اس میں شک نہیںکہ لنگر خانوں میں صاف ستھرے ماحول میں کھانا تیار ہوتا ہے ۔سیشن جج اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے دورہ سے پہلے سالن کو اصلی حالت میں رکھا جاتا ہے جیسے ہی دورہ ختم ہوتا ہے قیدیوں میں تقسیم سے پہلے اس میں حسب ضرورت پانی ملا کر بیرکس میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک اور آمدن کا بڑا ذریعہ گنتی ڈالنے کا ہوتا ہے قیدیوں کو ان کی مرضی کی بیرکس میں رکھنے کا سب اچھا کم ازکم دس ہزار ہوتا ہے۔ قیدی کی درخواست کی سماعت جاری ہے۔ ہم چیف جسٹس سے ملتمس ہیں کہ جہاں ہیومن رائٹس کورٹس کسٹوڈین ٹارچر کے خاتمے کی طرف ایک قدم ہے وہاں جیلوں سے رشوت کے خاتمے کے لیے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button