Editorial

سیاسی عدم استحکام کے بڑھتے خدشات

 

جمعرات کے اخبارات کی شہ سرخیاں تو سوال طلب تھیں ہی لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ پریس کانفرنس کرنا اور پھر اِسی پرپاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا ردعمل بھی بیک وقت کئی سوالات کو جنم دے گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار حساس ادارے کے سربراہ نے براہ راست میڈیا سے گفتگو کی اور جو کچھ وہ کہنا چاہتے تھے ، انہوںنے واضح طورپر کہا۔ انہیں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران منظر عام پر کیوں آنا پڑا اِس کی وضاحت بھی انہوں نے خود کی، غرضیکہ بعض چیزیں جو پہلے منظر عام پر نہیں آئی تھیں، وہ بھی منظر عام پر آئیں اور اِن پر دوسری طرف سے وضاحت بھی کی گئی۔ پس ملکی سیاسی حالات دیکھتے ہوئے سنجیدگی اور تشویش میں اضافہ ہونا فطری ہے کیونکہ معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے دکھائی دے رہے ہیں،طرفین سے پیش قدمی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور کوئی بھی قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں۔ عمران خان آج لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہورہے ہیں، ان کے ہم خیال اور کارکن بھی اطراف سے اسلام آباد کی طرف منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بڑھیں گے، وفاقی حکومت نے کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نفری کے ساتھ تیاری مکمل کرلی ہے اور شاید لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کراچی سے سندھ پولیس کی مزید نفری مانگی جائے، یعنی فریقین ایک دوسرے کی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے مسلسل نئی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں، مقصد کامیابی ہے۔ عمران خان کا مطالبہ جلد انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہے، حکومت آئینی مدت پوری کرنے کے لیے پرعزم ہے اِسی لیے مطالبہ مسلسل مسترد کررہی ہے، پس دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں لیکن ہمارا موقف ہے کہ کوئی تو قوت فکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرائے، ایک کانچ بھی نہ ٹوٹے، اور نہ ہی کسی کے زخم سینے پڑیں ، عزت و وقار بھی طرفین کا بحال رہے اور سیاسی عدم استحکام بھی ختم ہوجائے، لیکن ان حالات میں اگر کوئی خود کو عقل مند، دانشمند، عالم، عاقل، علیم، خرد مند، پختہ یا سیانا سمجھتا ہے اور اِسے نظر آرہا ہے اِس بے یقینی کا اختتام قطعی خوش آئند نہ ہوگا تو اُسے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ گذشتہ روز جو باتیں سامنے آئیں اِس کے بعد تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ اب گر تصفیہ کرائے تو کرائے کون؟ کون باقی رہ گیا ہے جس کو کسی نے غیر متنازعہ رہنے دیا ہو، بلاتفریق سبھی نے اپنی گردان میں سب کو ہی متنازعہ بناچھوڑا ہے، بس پاکستان اور اِس کے غریب عوام ہیں جن کی بات سنی جاسکتی ہے کہ خدارا قائد اعظم کے پاکستان کو آگے لیکر چلیں، جس نے سبھی کو وہ سب عطا کیا ہے جس کا وہ متمنی تھا، کسی کو منصب، کسی کو دھن دولت، کسی کو شہرت ، غرضیکہ سبھی کو نوازا ہے، آج اسی پاکستان اور اس کے عوام کی پکار سن لیں کہ پاکستان چہار اطراف سے خطرات میں گھرا ہے لیکن سب سے زیادہ خطرہ ہمیں اندر سے ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کے وجود اور مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ہم خود کو ناگزیر لیکن دوسرے کو بگاڑ پیدا کرنے والے سمجھتے ہیں۔ ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں تو پاکستان ہے حالانکہ پاکستان ہے تو ہم ہے۔ کوئی ہے جو بتاسکے کہ سیاسی عدم استحکام کب ختم ہوگا اور پاکستان کب اندرونی مسائل سے نکلے گا۔ یہ لاحاصل کج بحثی کب ختم ہوگی اور کب ہمارا مقصد ملک اور قوم ہوگا۔ لانگ مارچ اوراحتجاج سبھی کا جمہوری حق ہے لیکن کیا کوئی اِس حق سے دستبردار ہوا؟ قطعی نہیں، سبھی نے اِس حق کو استعمال کیا اور زیادہ تر قائدین کا مقصد اپنے مطالبات سامنے لانا نہیں بلکہ حکومت کو گرانا یعنی حصول اقتدار تھا، لیکن کیا حصول اقتدار کےلیے ایسے طریقے مناسب ہیں اور کیا انتخابات کی بجائے طاقت کا اظہار اور استعمال حصول اقتدار کے لیے درست طریقہ قرار دیاجاسکتا ہے؟ اگرچہ ہم نے جمہوریت کی سیڑھی پر قدم رکھنا شروع کیا ہے اور وہ اقوام جو دو اڑھائی سو سال جمہوری عمل سے گذرنے کے بعد اب سامنے آئی ہیں، ہم جمہوری اقدار کے موازنے میں اُن کے قریب تو کیا دور بھی نہیں پھٹکتے مگر کیا ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم جمہوریت اور جمہوری اقدار کو فروغ دیں اور وہ تمام خامیاں دور کرلیں جن کی وجہ سے ہمارا نظام بہتر ہونے کی بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے، یا پھر ہم اسی میں خوش ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے کسی کو تو پہل کرنی چاہیے، کوئی تو ہو جو ہمارے لیے متنازع نہ ہو اور جو ہمیں ثالثی کے لیے دستیاب ہو، مگر ہم نے کسی کو بھی متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے ہم نے سبق سیکھ لیا ہے، کیا موجودہ سیاسی صورتحال اور عدم استحکام سے نظر آتا ہے؟ ملک و قوم جس کرب سے دوچار ہیں اُن کا اعادہ تو کیا جاتا ہے لیکن اُن کے حل کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کا اعادہ ہوجاتا ہے، ملک کے داخلی اور خارجی مسائل تو ہمہ وقت توجہ اور سنجیدگی کے متقاضی ہیں لیکن برملا اعتراف کرنے والے خود توجہ اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو بطور ذمہ دار شخصیت یقینی بنانا چاہیے کہ لانگ مارچ صرف اور صرف جمہوری دائرے میں رہے، کوئی کانچ ٹوٹے نہ کسی کو خراش آئے، نہ ہی دوسری طرف سے کوئی طیش دلانے کی کوشش کرے، کہ لمحہ موجود میں قیادت کا دل جیتنے سے زیادہ معاملہ فہمی کا ادراک ضروری ہے، کوئی بھی غیر سنجیدگی یا غلطی کسی بڑی غلطی کا پیشہ خیمہ یا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ سیاسی قائدین کو ایک بار ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کو بھی دیکھنا چاہیے شاید سمجھ آجائے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں پنپ نہیں سکی اور ملک و قوم کیوں ترقی پذیر اور بے حال ہیں۔ سیاسی قیادت کو یہ بھی بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوریت اور اِسے سے جڑے تمام اصولوں سے پاکستانی قوم کی اکثریت ناواقف ہے کیونکہ اُن کا مسئلہ صرف روٹی،روزگار اور امن و امان ہے اگر ایسا نہیں تو کوئی واقعہ بتادیاجائے جب پوری قوم سڑکوں پر نکلی ہو لہٰذا ضروری ہے کہ سیاسی استحکام کےفروغ کے لیے کردار ادا کیا جائے اور اُن تمام غلطیوں سے بچا جائے جو مقبولیت میں کمی اور حالات کی خرابی کا باعث بنتی ہیں، ہم توقع رکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ویسا نہیں ہوگا جیسے دعوے کیے جارہے ہیں بلکہ لانگ مارچ جمہوری طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچے گا اور طرفین بھی سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے کسی نقطے پر متفق ہوں گے، یقیناً یہی اُن کے بھی مفاد میں ہے اور ملک و قوم کے بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button