ColumnJabaar Ch

لانگ مارچ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

عمران خان کا لانگ مارچ بالآخرآج سے شروع ہورہاہے۔لانگ مارچ سے حکومت گرے گی اور نہ ہی فوری انتخابات ہوں گے ۔ یہ دونوں باتیں خان صاحب کو بھی اچھی طرح معلوم ہیں۔لانگ مارچ دھرنے میں بدلے گا یا نہیں، یہ بات ابھی تک بہت زیادہ واضح نہیں کیونکہ خان صاحب نے جب لانگ مارچ کااعلان کیا تو اس گفتگومیں لانگ مارچ اور احتجاج پرتوزوردیا لیکن دھرنے کی تفصیلات نہیں دیں۔یہ بات پلے باندھنے والی ہے کہ لانگ مارچ یا احتجاجی ریلیاں نہ حکومت کیلئے چیلنج ہیں اور نہ ہی خان صاحب کیلئے مسئلہ۔ حکومت اور پی ٹی آئی کیلئے اصل چیلنج اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینا ہے۔پھر دھرنے کا دورانیہ بھی اہم ہوگا کہ کتنی مدت تک دھرنا چلتا ہے اوراس دھرنے میں کتنے لوگ موجود رہیں گے۔ان سب سے بڑھ کر یہ بات بھی اہم ہے کہ دھرناکس مقام پر دیا جائے گا۔خان صاحب دوہزارچودہ میں ڈی چوک میں دھرنا دے چکے ہیں ۔ اس دھرنے کا دورانیہ بھی ایک سوچھبیس دن کا تھا لیکن آخرکار یہ دھرنا ختم ہی کرنا پڑا تھا۔
لانگ مارچ ماضی قریب میں اتنے زیادہ ہوچکے ہیں کہ اب لانگ مارچ اور جلسے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔اور پھر دوہزار چودہ کے بعد سے اسلام آباد میں کوئی سیاسی دھرنا بھی اس طرح کا نہیں دیا جاسکا۔ دوہزارانیس میں مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ اور دھرنا دیا تھا لیکن انہیں بھی بارہ دن کے بعد خالی ہاتھ صرف وعدوں کی پوٹلی لے کرواپس لوٹنا پڑاتھا۔ عمران خان صاحب کا لانگ مارچ پہلا لانگ مارچ ہوگا جس میں حکومتیں رکاوٹ نہیں بلکہ سہولت کار ہوں گی۔مارچ لاہور سے شروع ہوگا تو پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت انہیں سہولت فراہم کرے گی۔ کسی بھی بندے کے لانگ مارچ میں شریک ہونے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی بلکہ شرکا کیلئے گاڑیوں اورقیام وطعام کی سہولت بھی میسرہوگی۔پچیس مئی کے دھرنے میں پنجاب میں نون لیگ کی حکومت تھی تو لاہور سے پی ٹی آئی کا ایک رکن بھی راوی کا پل پار کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا اوریہی حال خان صاحب کے پورے دھرنے کا ہواتھا۔اس بار اسلام آباد کے چاروں اطراف یہاں یہاں سے لانگ مارچ کے شرکااسلام آباد کی طرف آئیں گے وہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہوگی ۔ وہ چاہے کشمیر ہو، گلگت بلتستان ہو۔خیبرپختونخوا ہو یا پھر پنجاب ہو۔
اس لانگ مارچ کیلئے عمران خان کے پاس کوئی شکوہ، شکایت یا جواز نہیں ہوگا کہ ان کا راستہ روکا گیایا کوئی رکاوٹ ڈالی گئی۔یہ لانگ مارچ مزاحمت سے نہیں بلکہ شرکا کی تعدادسے تولا جائے گا۔عمران خان خود لاہور سے لانگ مارچ کے ساتھ جارہے ہیں تو امید یہی ہے کہ شرکاکی تعدادبھی کافی اچھی ہوگی۔اصل امتحان بار دیگر عرض ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے کے وقت ہوگا۔اور دھرنا بھی اگر ایچ نائن پشاور موڑ میں ہوا تو پھر اس کو بھی مولانا فضل الرحمان جیسا دھرنا سمجھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔
اصل سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے اس لانگ مارچ میں اتنی تاخیر کیوں کی اوراب آخرکاراس کا اعلان کیوں کیا۔خبریں یہی آرہی ہیں کہ خان صاحب کے لانگ مارچ کا اعلان سیاسی مجبوری کے سوا کچھ نہیں ہے ہاں انہوں نے اس وقت فوری کیوں اعلان کردیا جب ارشد شریف کا قتل ہوا۔تو اس پر کہا جارہا ہے کہ ارشد شریف مرحوم کی شہادت کی وجہ سے لوگوں کے جذبات کافی بھڑکے ہوئے ہیں تو خان صاحب نے اس پربھی اپنی روٹیاں سینکنے کو ہی بہترخیال کیا۔یہ ایک رائے ہے لیکن میں اس کو زیادہ اہم نہیں سمجھتا کیونکہ لانگ مارچ کی کال تو طے ہی تھی اور لانگ مارچ اس لیے طے تھا کیونکہ خان صاحب بند کمروں میں جس ڈیل کی تلاش اور خواہش میں تھے وہ ڈیل انہیں نہیں ملی۔انہیں صاف انکار کردیا گیا کہ بات چیت کرنی ہے تو جائیں اورحکومت کے ساتھ کریں۔فوج اس میں نہ سہولت کار بنے گی اور نہ ہی کسی فریق سے کوئی معاملہ طے کرے گی اور نہ ہی دوسرے فریق پر معاملہ طے کرنے کیلئے کوئی دباؤ ڈالے گی۔اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل تھی، نیوٹرل ہے اور نیوٹرل ہی رہے گی۔اب آپ ہی بتائیں اتنا واضح اور صاف جواب ملنے کے بعد عمران خان صاحب اور کیا کرتے؟
عمران خان کے لانگ مارچ کا زیادہ وقت اور سفر پنجاب میں ہوگا۔آج یہ سفر شروع ہوگا تو آج کا دن صرف لاہورمیں ہی گزرجائے گا۔جی ٹی روڈ پر سفر کا آغاز کل سے شروع ہوگا۔یہ لانگ مارچ پانچ چھ دن تو راستے میں ہی گزارلے گا۔مجھے لگتا ہے کہ لانگ مارچ کیا ہے بس خان صاحب نے شہروں میں وقفے وقفے سے جلسے کرنے کی بجائے مستقل کنٹینرپردن میں دوتین بات خطاب کا بندوبست کرلیا ہے۔اب تک کی اطلاعات تو یہی ہیں کہ اسلام آباد پہنچ کر ڈی چوک میں جانے کی کوشش نہیں ہوگی اور اگر اس اعلان پریوٹرن آیا تو کہانی وہاں سے شروع ہوگی۔حکومت بھی اس وقت تک طاقت کا استعمال نہیں کرے گی جب تک لانگ مارچ کے شرکا ڈی چوک کی طرف نہیں آئیں گے۔ہاں فیض آباد سے گزرتے وقت راستے بندہوسکتے ہیں،لیکن اگر وہاں جان بوجھ کر راستے بندکرنے کی کوشش ہوئی تو حکومت حرکت میں آسکتی ہے۔
یہ میری خبر تو نہیں ہے لیکن تجزیہ ضرور ہے کہ لانگ مارچ سے کوئی فوری نتیجہ نہیں نکلے گا۔بہت ممکن ہے کہ خان صاحب اسلام آباد پہنچ کر اعلان کردیں کہ حقیقی آزادی کی جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی یہ جنگ کسی دھرنے کی محتاج نہیں ہے،اس لیے لانگ مارچ ختم کیا جاتا ہے۔زیادہ چانسز یہی ہیں کہ دھرنا نہ ہو لیکن اس بات کا فیصلہ خان صاحب اسلام آباد میں پہنچنے والے لوگوں کی تعدادکو دیکھ کرکریں گے۔جہاں تک اسلام آباد میں احتجاج، توڑپھوڑ یا مزاحمت کی بات ہے تواس بار نہ حالات عمران خان کے ساتھ ہیں۔نہ قانون اور نہ ہی عدالت۔ اگر عمران خان صاحب ڈی چوک کی طرف جاتے ہیں تو فوری توہین عدالت میں دھرلیے جائیں گے ۔شرکاکی توڑپھوڑ الگ ہوگی اس لیے احتجاج ریکارڈ کرواکر واپسی کے چانسز زیادہ ہیں۔
لانگ مارچ ہوں۔احتجاج ہوں یا مختلف شہروں میں جلسے ہوں خان صاحب اپنے کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کے مشن پر ہیں ۔ ان کوپتا ہے کہ ان کو فوری الیکشن حاصل کرنے میں ناکامی ہوچکی ہے، اب ان کا مقصد الیکشن تک لوگوں کو متحرک رکھنا ہے۔یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ وقت اسی طرح سڑکوں پر گزرجائے تو پی ٹی آئی کیلئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔دوسری طرف حکومت ہے کہ جس کے پاس وقت کم بلکہ انتہائی کم اور ٹاسک بہت بڑا ہے۔اگر ایک سال میں حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔مہنگائی کا عذاب کم ہوجاتا ہے، معیشت بہتر ہوجاتی ہے توحکومت الیکشن کی دوڑ میں بہتر پوزیشن پر آسکتی ہے ۔پتے کی بات یہی ہے کہ لانگ مارچ ہویا دھرنا عمران خان صاحب کو فوری انتخابات حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوگی۔باقی غیب کا علم اللہ کی ذات کوہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button