ColumnNasir Sherazi

کتوں کامستقبل .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

مشقتی ہونا گدھے کا طرہ امتیاز ہے، وہ محنت سے نہیں گھبراتا، من موجی جانور ہے صبح سے شام تک اُسے جوتے رکھیں سرپھینک کر جتا رہے گا، البتہ کبھی کبھار اُسے کوئی بات ناگوار گذرے تو چلتے چلتے مصروف سڑک یابازار میں اگلی ٹانگیں اٹھاکر کھڑا ہوجائے گا، لگتا ہے اس نے یہ بات انسانوں سے سیکھی ہے، دھوتی اٹھاکر کھڑے ہوانے والے معاملے سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے، پس اس پر مزید کیا کہنا، گدھا اگر مشقت سے جی چرانا شروع کردے تو اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں، اول وہ نجیب الطرفین گدھا نہیں ہے یعنی اس کا خون خالص نہیں ہے، دوئم وہ کچھ کچھ انسان بنتا جارہا ہے یعنی راہ راست سے ہٹ رہا ہے ورنہ جس گدھے کے کان میں ایک مرتبہ ’’برائٹ فیوچر‘‘ والا جملہ پڑ جائے وہ راہ راست سے نہیں ہٹ سکتا، گدھا کسی کا دوست نہیں ہوتا سوائے کتے کے، دونوں جہاں بھی ہوں جس حال میںبھی ہوںشیر و شکر نظرآتے ہیں، کہا جاسکتا ہے کہ گدھے اور کتے کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر ادھوری ہے دونوں میں محبت کا رشتہ صدیوں سے ہے لیکن دونوںنے دوستی کو رشتہ داری میں بدلنے کی کوئی کوشش کبھی نہیں کی، شاید دونوں سمجھتے ہیںکہ دوستی کو رشتہ داری میںبدلنے سے دوستی رہے گی نہ رشتہ داری قائم رہے گی، حکومت پاکستان نے چین اور کوریا کو گدھے اور کتے برآمد کرنے پر سوچ و بچارشروع کردی ہے، جس پر دونوں جانوروں کی برادریوں میں خوشی و غم کی ملی جلی کیفیت ہے، آل پاکستان گدھا کنونشن میںگدھوں نے اس صورت حال پرغورکیا جس کی تفصیل آپ گذشتہ کالم میں پڑھ چکے ہیں، اب آتے ہیں کتا کنونشن کی جانب، کتا وفا کا پیکر ہے گدھے کے بعد اس کا اگر کوئی دوست ہے تو وہ انسان ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ کتا، گدھوں کے علاوہ اگر کہیں کسی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو وہ انسان ہی ہے، انسان کتے کے ساتھ جس قدر چاہے کت پنا کرے،کتا وفاداری ہی کرتا ہے، ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتا، ترقی پذیرملکوںکی معیشت میںہر زمانے میں انسانوںکے چار درجے نظرآتے ہیں، بہت امیر، خوشحال، متوسط اور غریب، گذشتہ چند برس پاکستان میں ’’ تبدیلی‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا، اب کسی حد تک اُس کی بولتی بند ہوئی ہے لیکن اس اثنا میں امیر طبقہ بے حد امیرسے مزید ایک درجہ بلند ہوا ہے، اس میںبنیادی کردارکرونا برکات کا ہے جب ایک روپے میں تیار ہونے والا ماسک تیس روپے اوربیس روپے والا ماسک دو سوروپے میںفروخت ہوا، صابن ملا رنگین پانی سینی ٹائزر کے نام پر دس روپے کی لاگت سے تین سو روپے بوتل تک بکا، خوشحال طبقہ اب بدحال ہے، متوسط کا نام و نشان مٹ چکا ہے،وہ ایک درجہ نیچے آکر غربا میںشمار ہونے لگاہے، یہی حال انسان کے دوست کتے کا ہے، بلکہ بعض معاملات میں تودونوں دوستوں کا حال ایک سا ہی ہے، کتوںکی درجہ بندی کچھ یوں ہے، امیر کتے، خوشحال کتے، شریف کتے اور آوارہ کتے۔ امیر کتے نجیب الطرفین اعلیٰ نسل سے ہوتے ہیں ہر ایک کے پاس اُس کا شجرہ نسب ہوتا ہے، جس میںواضح کیا جاتا ہے کہ یہ کتا اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتا ہے، اس کی نسل میں کسی کمین نسل کو منہ مارنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
انہوں نے ہرزمانے میں اپنی عزت کی حفاظت کی ہے، اس نسل سے تعلق رکھنے والے کتے بیش قیمت، خوبصورت رہائش گاہوں میںرہتے ہیںانہیںفل ٹائم خدمت گار میسر ہوتا ہے،یہ اعلیٰ نسل امپورٹڈ غذا استعمال کرتے ہیں، انہیں دن بھر کوئی کام کاج نہیں ہوتا، یہ ویلے مشٹنڈے موسم گرما کے آتے ہی ایئرکنڈیشنڈ کمروںمیں منتقل ہوجاتے ہیں، یہ کتے گھر کی بیگم صاحبہ کو جپھی ڈالنے اور ان کا منہ چومنے کا استحقاق بھی رکھتے ہیں۔ خوشحال کتوں کو اس قسم کی آرام و آسائش تو میسر نہیں ہوتی لیکن ان کی زندگی پرسکون ہوتی ہے، ان کے مقدر میں دن بھر لمبی تان کے سونا اور رات بھر کھلے پھرنا، موج مستی کرنا، کبھی کبھار اجنبی کو دیکھ کر بھونکنا ہوتا ہے، شریف کتے دن بھر اپنی خوراک تلا ش کرتے ہیں اپنی کھاکر بچوں کے لیے لیکر گھرکا رخ کرتے ہیں قریب سے گذرنے والی ہر سواری اور سوار کو حسرت بھری نظر سے دیکھتے ہیںلیکن کسی پرخواہ مخواہ نہیں غراتے، آخری قسم آوارہ کتوں کی ہے، ان میں کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی ماں کون ہے باپ کون ہے، وہ خود کس کی اولاد ہیں، کتا کنونشن میں ان تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے کتوں نے بھرپور اندازمیں شرکت کی، امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کتوں کے لیے صوفے رکھے گئے تھے، ان کے پیچھے خوشحال کتوںکے لیے اُس قسم کی
کرسیاںرکھی گئی تھیں جیسی میدان میں شادی کے لیے لگائی گئی مارکی میںنظر آتی ہیں، ان کے پیچھے شریف کتوں کے لیے صاف ستھرے قالین بچھائے گئے تھے جبکہ آوارہ کتوں کے لیے دریوں کا انتظام کیاگیا تھا، انہیں دیگوں سے دور رکھنے کے لیے درمیان میں قناتیں لگائی گئی تھیں تاکہ وہ خواہ مخواہ کسی دیگ میں منہ نہ مارجائیں۔
کنونشن کی رونق دراصل یہی آوارہ کتے تھے کیونکہ دوران کنونشن وہ آوارگی کے مظاہرے کرتے نظر آئے، کنونشن میں سب سے زیادہ مسائل انہی کے حوالے سے پیش کئے گئے، جن میں حکومت سے وضاحت طلب کی گئی کہ وہ اپنی پالیسی واضح کرے کہ ایکسپورٹ ہونے کے لیے میرٹ کیا ہوگا، یہاں بھی امیر و کبیر اور خوشحال کتے دوسروں کا حق مارتے ہوئے ایکسپورٹ لسٹ میںجگہ حاصل کرلیںگے یا سفارش کے زور پرآگے بڑھ جائیں گے، مزید برآں غریب و بے سہارا کتوں کا کیا بنے گا، اس حوالے سے کتوںمیں ابہام نظر آیا کہ بھونکنے اور کاٹنے کے مقابلے کے بعد ایکسپورٹ لسٹ فائنل کی جائے یاکوٹہ سسٹم کے تحت کام نبٹایا جائے، کتوں کے ایک موثر گروپ نے اس بات پر شدید احتجاج کیا کہ بعض اوقات خاندانی رقابت یا سیاسی مخالفت کی بنا پر کسی بھی کتے کو آوارہ کتا قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ وہ آوار ہ نہیں ہوتا بلکہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ شریف النفس بھی ہوتا ہے، اس نے چوروںکے ساتھ مل جانے اور چوریاں کرانے، زمین میں دبی ہوئی منشیات یا بارود کو ڈھونڈ نکالنے کا کورس امتیازی نمبروںسے پاس کیا ہوتا ہے، اس کی دماغی صحت قابل رشک ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اسے پاگل کتا کہہ کر اس کی سرعام توہین کی جاتی ہے اس کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے، کنونشن میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں حکومت وقت سے مطالبہ کیاگیا کہ کتوں کے کریکٹر سرٹیفکیٹ کے لیے نادرا جیسے محکمے اختیارات دئیے جائیں جس کے بعد وہ کتوںکی ہسٹری شیٹ چیک کرکے ان کے انٹرویو کرے اور پھر طے کرے کہ کتا آوار ہ ہے یاشریف، پھر اسی بنیاد پر انہیں شناختی کارڈ جاری کئے جائیںتاکہ معاشرے میں انہیں ان کے کردار کے حساب سے مقام مل سکے، دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کتوں کے ساتھ ساتھ شہری کتوں نے ایک مطالبہ پر زور انداز میں کیا کہ انہیں سرکاری نوکری بشمول انوسٹی گیشن سینٹرز میں ڈیوٹی کے دوران دیا جانے والا ایڈہاک الائونس ان کی بنیادی تنخواہ میں شامل کردیاجائے تاکہ وہ مہنگائی کے اثرات سے خود کو کسی حد تک محفوظ رکھ سکیں، انہوں نے ونٹر الائونس میں اضافے اور سردیوںمیں گرم کپڑوںکا مطالبہ بھی کیا اور واضح کیا کہ اس مثال کو کتابوں نصابوں سے خارج کیا جائے کہ ’’وہ کتا ہی کیا جسے سردی لگے‘‘ کتا کنونشن میں ان کے لیڈروں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ آج ملک بھر میں گھر اور گھاٹ دونوں جگہوں پر کتوں نے اپنی اہمیت ثابت کردی ہے، دونوں جگہوںپر ان کے بغیرکام نہیں چلتا، لہٰذا ان کی افادیت کے پیش نظر اب انہیں چھیچھڑوں یا ہڈیوں پر نہ ٹرخایا جائے بلکہ انکے لیے رعایتی نرخوں پر خالص دودھ اور گوشت کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جو آج کل انسانوں کو بھی نصیب نہیں ہیں، کنونشن کے آخر میں طعام کے موقع پر اسی کت خانے کا مظاہرہ ہوا جو ہم اکثر شادی بیاہ کی تقریبات میںکھانا شروع ہونے پر دیکھتے ہیں، کتوں کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button