ColumnImtiaz Aasi

شہباز شریف اور حمزہ کی بریت کے عوامل .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں بریت کے عوامل تلاش کرنے کی بجائے سابق وزیراعظم عمران خان کاشور وغوغا حیرت کن ہے ۔احتساب جیسے اہم معاملے کو کسی کہنہ مشق قانون دان کے حوالے کرنے کی بجائے ایک ناتجربہ کار مشیر شہزاد اکبر کے حوالے کرکے احتساب کو مذاق بنا دیاگیا۔گذشتہ دور میں احتساب کا جو شور تھا عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا ۔تعجب ہے وہ ادارہ جو کئی سال تک مقدمہ کی تفصیلات جمع کرتا رہا، کے پراسیکوٹر نے احتساب عدالت کے روبرو برملا کہہ دیا ان کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔وہ کر بھی کیا سکتے تھے ایف آئی اے براہ راست وزیراعظم کا ماتحت ادارہ ہے۔ شریف خاندان کا ناقد ہونے کے باوجود ہم ملزمان کی بریت کا ذمہ دار گذشتہ حکومت کوٹھہرائیں گے۔منی لانڈرنگ کا یہ واحد مقدمہ تھا جو شریف فیملی کے خلاف عمران خان کے دور میں بنا جس کا چرچا عمران خان اکثر اپنی تقاریر میں کرتے ہیں۔عمران خان کی قانونی ٹیم مضبوط ہوتی تو شاید انہیں سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مقدمہ کی قانونی ٹیم انتہائی کمزور اور مبینہ طور پر بددیانت ٹھہری۔پراسی کیوشن چوکنا ہوتا تو دو چار پیشیوں کے بعد ملزمان کے خلاف فرد جرم لگ جاتی تو مقدمہ کاٹرائل شروع ہو جاتاتو عدالت کو شہادتیں طلب کرنا پڑتی ۔حکومت کے مقابلے میں شہباز شریف کی قانونی ٹیم قابل اور بااعتماد تھی جو مختلف حیلوں بہانوں سے فردجرم لگنے میں غیر ضروری طور پر التواء لیتی رہی جو بالاآخر مقدمہ کی بریت کا سبب بنا۔
اگرچہ منی لانڈرنگ کے اہم گواہان کسی نہ کسی وجہ سے جہان فانی سے چلے گئے وگرنہ صفحہ مثل پر شواہد کی بنا ملزمان کو سزا ہو سکتی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ شریف خاندان کے خلاف پہلے تو مقدمہ بنانہیں، بن بھی گیا تو وہ سزائوں سے بچتے رہے ۔شریف خاندان کی قانونی ٹیم کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ منی لانڈرنگ کے مقدمہ کو طوالت دینے کے ساتھ نیب قوانین میں ترامیم پر بھی کام کرتے رہے ۔عدالت سے بریت نہ ہونے کی صورت میں وہ نیب قوانین میں نئی ترامیم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔میاںشہباز شریف اور حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں بریت کے بعد مختلف حلقوں میں بحث ومباحثہ جاری ہے۔بعض حلقوں نے ملزمان کی بریت پر تحریک انصاف کی تنقید کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے ایف آئی اے کئی سال تک کیس کی انکوائری کرنے کے باوجود فرد جرم لگوانے میں ناکام رہا ہے۔شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران ان کے خاندان کے اثاثوں میں جو اضافہ ہوا ہے ملزمان اس قانون کا سہارا لیتے ہیںجس میںبیرون ملک سے آنے والے دولت کے ذرائع نہیںپوچھے جا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا ملک کا قانون اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی شخص ملک سے باہر نہ گیا ہو اس کی طرف سے ٹی ٹیز بھیجی جا سکتی ہیں؟اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا وائٹ کالر کیسز کو ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا شہباز شریف اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں شریف خاندان کے ملازمین کے نام اتنی بڑی رقم سوالیہ نشان ہے؟یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جن مقدمات کے مدعی کیس سے دستبردار ہو جائیں ملزمان کی بریت یقینی ہو جاتی ہے۔حکومت چاہے کسی کی ہو جب تک پراسی کیوشن پر گرفت مضبوط نہیں ہو گی ملزمان بری ہو جاتے رہیں گے ۔آج تک کسی حکومت نے اس اہم معاملے کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی مقدمات میں قانونی کمزوریاں چھوڑنے والے انکوائری افسران کو سزا دینے کے لیے قانون سازی کی گئی۔ کئی سال پہلے راولپنڈی میں تعینات ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کسی مقدمہ کے ملزمان بری ہو جاتے تو تفتیشی افسران کو اپنے اردل روم میں طلب کر لیا کرتے تھے۔ جب کوئی پولیس افسر انہیں ملزمان کی بریت بارے مطمئن نہیں کر سکتا تھا تو اسے ملازمت سے برخاست کردیتے تھے۔ جب تک مقدمات میں قانونی کمزوریاں چھوڑ دینے والے انکوائری افسران کی گوشمالی کے عمل کا آغاز نہیں ہوگا ملزمان اسی طرح بری ہو تے رہیں گے۔ منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری پر قومی خزانے سے خرچ ہونے والی بھاری رقم کا حساب کون دے گا؟نیب ترامیم کے بعد احتساب برائے نام رہ گیا ہے سیاسی مخاصمت سے ہٹ کر کسی کے خلاف ٹھوس ثبوت کے بغیر مقدمات نہیں بننے چاہئیںقومی خزانے سے خرچ ہونے والی رقم کے علاوہ ملزمان کی شہرت کو جونقصان پہنچتا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں۔میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری کرنے والوں کے بیرون ملک جانے پرکثیر رقم خرچ ہوئی ہو گی ۔دراصل گذشتہ دور میں احتساب کا جتنا شور تھا ماسوائے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کیس کا واویلا کرنے کے عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔
ہمارے ہاں بے لاگ احتساب کا کوئی تصور نہیں ہے۔سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی روایت پرانی ہے لہٰذا اس روش کو ترک کرنا ہوگا تاکہ گناہ گار لوگوں کو ہی سزائیں ہو سکیں ۔اب تو صورت حال یہ ہے جن کے خلاف مقدمات بن جائیں وہ میڈیا میں اپنی بے گناہی کا اتنا پرچار کرتے ہیں کوئی انہیں گناہ گارنہیں سمجھتا ۔جب تک پراسی کیوشن کو درست نہیں کیا جاتا احتساب خواب رہے گا۔عمران خان کے دور کی بڑی خرابی یہ تھی وہ کرپشن کے مقدمات پر پوری طرح توجہ دینے کی بجائے میڈیا میں ان کا پرچار کرتے رہے جب کہ ملزمان اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرانے کے لیے کوشاں رہے آخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔موجودہ حکومت کو چاہیے وہ پراسی کیوشن کو ٹھیک کرنے کی طرف بھرپور توجہ دے تاکہ مستقبل میں کسی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج ہونے کی صورت میں ملزمان سزائوں سے نہ بچ سکیں۔کرپشن کے مقدمات کی تفتیش میں جو افسران مبینہ طور پر بدعنوانیوں کے مرتکب ہوں ان کے خلاف قانون لانے کی اشد ضرورت ہے۔دراصل کرپشن مقدمات کو التواء میں رکھنا بڑا جرم ہے ۔ہونا تو چاہیے کسی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ ہو تو اس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ مہینوں کا التواء دیا جاتا رہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button